استاذِ محترم، السلام علیکم!
ایک اور پرانی غزل برائے اصلاح حاضر ہے۔ وقت ملنے پر دیکھ لیجیے گا۔
والسلام
دکھ گر دیا کسی نے ہم مسکرا دیے
پوچھا کسی نے حال تو آنسو نکل پڑے
جب تک رہا وصال رہے غم بھی دور دور
ملنا ہوا محال تو آنسو نکل پڑے
وہ سنگ دل جو عمر بھر روئے نہ تھے کبھی
دیکھا مرا جو حال تو آنسو نکل پڑے
روداد زندگی کی سناتے تو کس طرح
دل کو لیا سنبھال تو آنسو نکل پڑے
مسرور تو ہوئے تھے کچھ دیر کے لیے
آیا ترا خیال تو آنسو نکل پڑے
بربادیوں کا میری تھے اسباب اور بھی
دیکھا ترا کمال تو آنسو نکل پڑے
قصے تو سُن رکھے تھے فرہاد و قیس کے
راقم بنے مثال تو آنسو نکل پڑے
ایک اور پرانی غزل برائے اصلاح حاضر ہے۔ وقت ملنے پر دیکھ لیجیے گا۔
والسلام
دکھ گر دیا کسی نے ہم مسکرا دیے
پوچھا کسی نے حال تو آنسو نکل پڑے
جب تک رہا وصال رہے غم بھی دور دور
ملنا ہوا محال تو آنسو نکل پڑے
وہ سنگ دل جو عمر بھر روئے نہ تھے کبھی
دیکھا مرا جو حال تو آنسو نکل پڑے
روداد زندگی کی سناتے تو کس طرح
دل کو لیا سنبھال تو آنسو نکل پڑے
مسرور تو ہوئے تھے کچھ دیر کے لیے
آیا ترا خیال تو آنسو نکل پڑے
بربادیوں کا میری تھے اسباب اور بھی
دیکھا ترا کمال تو آنسو نکل پڑے
قصے تو سُن رکھے تھے فرہاد و قیس کے
راقم بنے مثال تو آنسو نکل پڑے