دھاندلی ثابت ہوگئی تواسمبلیاں تحلیل کرکے نگراں حکومت قائم کی جائیگی

دھاندلی ثابت ہوگئی تواسمبلیاں تحلیل کرکے نگراں حکومت قائم کی جائیگی

265684_l.jpg

اسلام آباد (طاہر خلیل)حکومت اور تحریک انصاف کے مابین انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات اور متنازع اُمور طے کرنے کےلئے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے نمائندے 13نکاتی معاہدے کی دستاویز پر بات چیت آگے بڑھا رہے ہیں، حکومت نے تحریک انصاف کے مطالبے پر صدارتی آرڈیننس کا مسودہ بھی تیار کرلیاہے، 13نکاتی مجوزہ معاہدے اور صدارتی آرڈیننس کا مسودہ جنگ/دی نیوز نے حاصل کرلیاہے جس میں دونوں پارٹیوں نے طے کیا ہے کہ اگر عدالتی کمیشن کےذریعے2013 کے انتخابات میں منظم طریقے سے اورباقاعدہ منصوبہ بندی کےذریعے تحریک انصاف کے الزام کے مطابق دھاندلی ثابت ہوگئی تو پھر اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی اورملک میں نگران حکومت قائم کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں گے، معاہدے کو قانونی شکل دینے اور عدالتی کمیشن کےقیام کےلئے تحریک انصاف کے مطالبے پر صدارتی آرڈیننس کامسودہ تیار کرلیا گیاہے جسے جنرل الیکشنز 2013 انکوائری کمیشن آرڈیننس 2014کا نام دیا گیاہے، تحریک انصاف اورحکومت کے مابین مجوزہ معاہدے کے تحت اگر دھاندلی کا الزا م ثابت نہ ہوا تو اسمبلیاں مدت پوری کرےگی، چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنے گا جو 45دن میں رپورٹ تیار کرے گا شق نمبر8کے تحت کمیشن تحقیقات کےلئے ایک یا ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیمیں بناسکے گا عدالتی کمیشن نادرا، ایف آئی اے کے علاوہ آئی ایس آئی ،ایم آئی اور آئی بی سے بھی دھاندلی کے کسی الزام کی تحقیقات کرانے کےلئے حکم جاری کرےگا، عدالتی کمیشن کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی کارروائی آگے بڑھانےکےلئے کسی بھی ادارے فرد یا افراد کی معاونت حاصل کرے، کمیشن کاحکم نہ ماننے والوںکو سزا دینے کا بھی اختیار دیا جارہاہے،کمیشن ایسے لوگوں/اداروں کےخلاف بھی کارروائی کرے گا جو عدالتی کمیشن کی کارروائی کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش کریں گے،مجوزہ سمجھوتے میں کہاگیا ہے کہ مجوزہ کمیشن سپریم کورٹ کے ججوںکی نگرانی میں کام کرے گا پارٹیاں چیف جسٹس سے کمیشن کی سربراہی کی درخواست کریں گی،عدالتی کمیشن اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ 2013کے انتخابات میں تحریک انصاف کے الزامات کے تحت کیا منظم طریقے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے دھاندلی کی گئی جس کے نتیجے میںمسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوا، ایک اور شق میں کہاگیاہے کہ کمیشن کواپنا طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہوگا جس کے ذریعے کمیشن طے کرے گا کہ اس کا اجلاس کب کہاں اور کس وقت ہونا ہے، کمیشن کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ اپنی کارروائی کو کھلا یا ان کیمرہ رکھ سکے گا، کمیشن کے اختیارات اور طریقہ کار کو ایک آرڈیننس کے ذریعے قانونی حیثیت دی جائے گی، عدالتی کمیشن کی حتمی رپورٹ ایک پبلک ڈاکومنٹ کی صورت میں عوام کے سامنے پیش کردی جائے گی، سمجھوتہ طے پانے کےبعد دونوںپارٹیاں عوام کے سامنے اس کا اعلان کریں گی اور اس پر دستخط کریں گی، مجوزہ معاہدے کےتحت سمجھوتے پر عملدرآمد میں رکائوٹ یا کسی تنازع کی صورت میں ایک چھ رکنی (Dispute Resolution )کمیٹی بنے گی جس میں دونوں پارٹیوں کے تین تین نمائندے شامل ہونگے،مجوزہ سمجھوتہ کی آخری شق میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے کام کو آگے بڑھایا جائےگا اور انتخابی اصلاحات پارلیمانی کمیٹی جس کا پہلے ہی اعلان کیا جاچکاہے وہ پارلیمنٹ سے اپنی سفارشات کی منظوری تک کام کرتی رہے گی۔ معاہدے کے ذریعے پیپلز پارٹی اور بلوچستا ن نیشنل پارٹی گواہ بنیں گی اور دونوں پارٹیاں سمجھوتے کے تصدیق کنندہ کی حیثیت سے مجوزہ معاہدے پر دستخط کریں گی۔جبکہ صدارتی آرڈیننس میں عدالتی کمیشن کے اختیارات، کام کرنے کے طریقے کار ،خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے قیام،حتمی رپورٹ کی تیاری اور کمیشن کے خاتمے کے معاملات شامل کئے گئے ہیں،مجوزہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یا کمیشن کے کسی ممبر کی توہین کرنے، کمیشن کی کارروائی توہین انداز میں پیش کرنے یاکمیشن کے کام میں رکاوٹ ڈالنے، نفرت انگیز جذبات پیدا کرنے پر کمیشن کو توہین عدالت کے مکمل اختیارات حاصل ہونگے،کمیشن کی کارروائی کو اس حد تک عوام میں پیش کیا جاسکے گا جس کی اجازت کمیشن دےگا،حتمی رپورٹ کی تیاری کے بعد عدالتی کمیشن ختم کردیا جائے گا،کمیشن کی کارروائی کو کسی انتخابی ٹربیونل یا عدالت کے سامنے چیلنج نہیں کیا جاسکےگا۔
 
،مجوزہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یا کمیشن کے کسی ممبر کی توہین کرنے، کمیشن کی کارروائی توہین انداز میں پیش کرنے یاکمیشن کے کام میں رکاوٹ ڈالنے، نفرت انگیز جذبات پیدا کرنے پر کمیشن کو توہین عدالت کے مکمل اختیارات حاصل ہونگے
شاید اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے ابھی تک کمیشن تشکیل نہیں دیا تھا کہ اسے خدشہ تھا کہ من پسند فیصلہ نا آنے کی صورت میں سپریم کورٹ کے ججوں کی سرعام تضحیک اور توہین کی جائے گی۔
 
Top