جاسم محمد
محفلین
دھندہ ٹھیک چل رہا ہے
اصل مسئلہ ان نیم حکیموں کا ہے جو عوام کو سہانے خواب دیکھا کر نہر کے کنارے لے آئے اور اب دھکے دے دے کر ان کواطمینان سے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار
سالوں ارب پتیوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتا کر پیسے بنانے والے اب زیادہ ٹیکس کی ادائیگی پر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں، یقینا منافقت ایک منافع بخش کاروبارہے(اے ایف پی)
پنجاب حکومت کے ایک بڑبولے نمائندے کا پچھلے دنوں ٹوئٹ پڑھا جس میں موصوف نے ایک ریسٹورانٹ کی تصویر لگا کر یہ کہا کہ دیکھیں قطاریں لگی ہوئی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ معاشی حالات برے ہیں۔
کاش انہوں نے ذرا اونچی آواز میں اپنا تعارف قطار میں کھڑے گاہکوں سے کرایا ہوتا اور ان کے سامنے معیشت کی بہتری اور خوشحالی کا دعوی کرتے۔ یقینا تمام لوگ بشمول ہوٹل کا عملہ ان کی مفت خاطر تواضح کرتا اور ان کو ان تمام القابات سے نوازتا جو ان کی اپنی زبان پر ہر وقت دوسروں کے بارے میں موجود رہتے ہیں۔
اب تو گلیوں میں گھومنے والے فقیروں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ معیشت ایک طویل جنجال کا شکار ہو چکی ہے۔ شہریوں کے پاس اپنے کھانے کو نہیں۔ بھکاریوں کو کیا دیں گے۔ ان کی جیبوں پر ریاست نے جبری قبضہ کر لیا ہے۔ پاؤں گلے پر ہے اور ہاتھ بٹوے پر۔
پچھلے دنوں دوران سفر مختلف طبقات کے نمائندگان سے ملاقات کا موقع ملا۔ ہر گھر میں ایک ہی ماتم ہے ' ہائے لٹ گئے، پیسہ نام کا نہیں رہا، دام اختیار سے باہر ہوگئے ہیں، ہمارا کیا بنے گا؟‘ فیصل آباد کے ایک نسبتا ایک بہتر رہائشی علاقے میں 30 ہزار روپے ماہانہ کرایہ دینے والے حجام کا کہنا ہے جو گاہک ہر تیسرے ہفتے بال ترشواتے تھے اب ڈیڑھ مہینے کے بعد حجامت کروانے آتے ہیں۔
شیو کروانا اور سر کی مالش اب آسائش بن گئی ہے۔ بچوں والے گاہک جو سب کو اکٹھا لایا کرتے تھے اب نمبر لگا کر بچوں کو لاتے ہیں۔ بجلی کا بل اور دکان کا کرایہ دینا محال ہے۔ اس نے بتایا وہ دوسری پیڑی کا حجام ہے مگر اس کو یہ دکان بند کرنا پڑے گی۔ وہ کیا کرے گا؟ اس کو اس کا علم نہیں ہے۔
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے رینٹ اے کار ڈرائیور، جس نے اپنی دو گاڑیاں بھی اس کام میں لگائی ہوئی ہیں، دہائی دے رہا تھا کہ لوگوں نے آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔
گاڑیوں کی قیمتوں کے پیش نظر اب وہ ان کو نہ تو بیچ سکتا ہے اور نہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ آٹھ بچوں کا باپ اور دو غیر شادی شدہ بہنیں، بزرگ ماں باپ اس کے علاوہ۔ ’اب میں ڈاکے ماروں یا سمگلنگ کروں، اغوا برائے تاوان کا دھندہ کروں یا منشیات بیچوں، کیا کروں؟‘
مال روڑ پر لاہور کے ایک اچھے ہوٹل میں ایک جواں سال ویٹر مجھ سے پریشانی میں پوچھ رہا تھا کہ کیا یہ حالات دو چار ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے؟ میں نے اس کو تسلی دینا مناسب نہیں سمجھا اور کہا کہ اپنی معاشی مصیبت کے کلینڈر میں سے مہینے نکال دو اور صرف سال باقی رہنے دو۔
یہ عذاب تو ابھی شروع ہوا ہے۔ اس کی تکلیف ایک بددعا کی طرح ہر گزرتے لمحے بڑھتی رہے گی۔ اس پر وہ نیم آبدیدہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ اس ہوٹل میں میرے جیسے پچاس لوگ کام کر رہے ہیں اور ان میں سے ہر کسی نے ادھار لیے ہوئے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ اس اجتماعی قرض کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے آنکھیں بھی چار نہیں کرتے۔ صرف اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی نیا ویٹر آئے تو اس سے تعلقات بنا کر مہینے کے ادھار کا بندوبست کریں۔
کراچی میں ایک بڑی بین الاقوامی کمپنی کے مارکیٹنگ کے سربراہ نے بتایا کہ اس ماہ ان کی تنخواہ دو سال پرانی ہو گئی ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور گھر بنانے کی منصوبہ بندی سمیت اس کو سب کچھ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ ’سوچ رہا ہوں دبئی چلا جاؤں۔ جہاں سے پیسے لے کے ہمارے سورما ملک چلا رہے ہیں مجھے بھی وہاں پر نوکری مل ہی جائے گی۔‘
محلے کا دکان دار کہتا ہے کہ دکان بند کرنے کا نقصان اگر سو روپیہ ہے تو کھولنے کا نقصان اڑھائی سو، گاہک خریدنا نہیں چاہتا۔ مال ادھار پر اب ملتا نہیں۔ نہ وہ کرایہ دے سکتا ہے اور نہ بل۔ اوپر سے ہر حکومتی نمائندہ ان کو ٹیکس چور ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔
یہ انفرادی صورتحال نہیں۔ اجتماعی طور پر ایک معاشی بھونچال ہے جس نے لوگوں کی اچھی بھلی مستحکم زندگیاں جڑوں سے اکھاڑ دی ہیں۔ ٹیکس لینے کے نام پر ایک قتل عام ہے جس کی خون خواریت الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کی جا سکتی۔
اوپر سے ’سب اچھا ہے‘ کی نہ ختم ہونے والی بک بک۔ اس کے کرنے والے وہ محدود لوگ ہیں جن کے بچے ریاستی وسائل سے مستفید ہوتے ہوئے ملک سے باہر یا اندر چین کی نیند سو رہے ہیں۔
ان کی روٹی، کپڑا، مکان، دکان، آسائشیں، ان کے جھنڈے، ڈنڈے، مکھن اور انڈے سب کی قیمت قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ ان کو تنخواہوں میں اتار چڑھاؤ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریاستی وسائل پر قابض ہونے کا سب سے بڑا فائدہ تنخواہ نہیں وہ رعایت اور خصوصی مفاد ہے جو نوکریوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔
یہ اپنے حسین قلعوں میں رہتے ہیں جن کی بلند فصیلیں خاردار تاروں اور بندوق برداروں سے لیس اور محفوظ ہیں اور جن کی دیواریں اتنی موٹی ہیں کہ ان کے پار چیختے چنگاڑتے اور بلبلاتے لوگوں کی آوازیں ان سے ٹکرا کر وہیں رک جاتیں ہیں۔ یہ طبقہ اپنے اثاثے اپنی جان سے بھی زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔ ان کا طرز رہائش ان کی تنخواہوں سے کئی درجے بلند ہے۔
جبھی تو عمران خان بنی گالہ کے 300 ایکڑ پر محیط مکان اور وزیر اعظم ہاؤس کا خرچہ بیان کی حد تک خود دیتے ہیں مگر نہ تو ان کے پاس اپنی گاڑی ہے اور نہ کوئی اپنا کاروبار۔ وہ سالانہ ٹیکس بھی ایک لاکھ تین ہزار روپے سے زیادہ نہیں دیتے۔
اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بیرون ملک زندگیوں میں سے چند لمحے نکال کر پکنک منانے کے لیے پاکستان میں پالیسی کے ساتھ شغل کر رہے ہیں۔ اب سٹیٹ بینک بھی ان کے ہاتھ میں ہے اور وزارت خزانہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی ان کے قبضے میں۔ سالوں ارب پتیوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتا کر پیسے بنانے والے اب زیادہ ٹیکس کی ادائیگی پر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں۔ یقینا منافقت ایک منافع بخش کاروبارہے۔
لوگوں کی زندگیاں اجاڑنے کے باوجود ایک حسین، پر امن اور آسودہ قوم کی تصویر پیش کرنے والے بین الاقوامی فٹ پاتھوں کے یہ جادوگر اپنے کیریئر بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں صرف ان کا لینا ہے دینا کچھ نہیں۔ آئی ایم ایف کی انگلیوں سے بندھی ہوئی یہ پتلیاں ہر حرکت مالیاتی بینک کے اشارے پر کر رہی ہیں لیکن ان کے نخرے ایسے ہیں جیسے پاکستان کی دنیا انہیں کے دم سے قائم ہے۔
مگر پھر قصور ان کا بھی نہیں۔ اصل مسئلہ ان نیم حکیموں کا ہے جو عوام کو سہانے خواب دیکھا کر نہر کے کنارے لے آئے اور اب دھکے دے دے کر ان کواطمینان سے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔
اس دوران اس معاشی مقتل گاہ میں وقت گزارنے کے لیے بڑی بڑی سکرینوں پر احتسابی فلم کی پرانی قسطیں ہر روز نئے کرداروں کے ساتھ دکھائی جا رہی ہیں۔ فارمولہ وہی ہے جو ہر سستی فلم میں ہوتا ہے۔
ایک نیم برہنہ ڈانس پر مبنی آئٹم سانگ ’احتساب‘ کے لالچ میں تین گھنٹے کی ردی فلم بیچی جا رہی ہے۔ عوام کو ٹھوکا بھی جا رہا ہے اور ٹھگا بھی۔ مگر فلم بنانے والے مطمئن ہیں کہ ان کا دھندہ ٹھیک چل رہا ہے۔
اصل مسئلہ ان نیم حکیموں کا ہے جو عوام کو سہانے خواب دیکھا کر نہر کے کنارے لے آئے اور اب دھکے دے دے کر ان کواطمینان سے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار
سالوں ارب پتیوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتا کر پیسے بنانے والے اب زیادہ ٹیکس کی ادائیگی پر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں، یقینا منافقت ایک منافع بخش کاروبارہے(اے ایف پی)
پنجاب حکومت کے ایک بڑبولے نمائندے کا پچھلے دنوں ٹوئٹ پڑھا جس میں موصوف نے ایک ریسٹورانٹ کی تصویر لگا کر یہ کہا کہ دیکھیں قطاریں لگی ہوئی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ معاشی حالات برے ہیں۔
کاش انہوں نے ذرا اونچی آواز میں اپنا تعارف قطار میں کھڑے گاہکوں سے کرایا ہوتا اور ان کے سامنے معیشت کی بہتری اور خوشحالی کا دعوی کرتے۔ یقینا تمام لوگ بشمول ہوٹل کا عملہ ان کی مفت خاطر تواضح کرتا اور ان کو ان تمام القابات سے نوازتا جو ان کی اپنی زبان پر ہر وقت دوسروں کے بارے میں موجود رہتے ہیں۔
اب تو گلیوں میں گھومنے والے فقیروں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ معیشت ایک طویل جنجال کا شکار ہو چکی ہے۔ شہریوں کے پاس اپنے کھانے کو نہیں۔ بھکاریوں کو کیا دیں گے۔ ان کی جیبوں پر ریاست نے جبری قبضہ کر لیا ہے۔ پاؤں گلے پر ہے اور ہاتھ بٹوے پر۔
پچھلے دنوں دوران سفر مختلف طبقات کے نمائندگان سے ملاقات کا موقع ملا۔ ہر گھر میں ایک ہی ماتم ہے ' ہائے لٹ گئے، پیسہ نام کا نہیں رہا، دام اختیار سے باہر ہوگئے ہیں، ہمارا کیا بنے گا؟‘ فیصل آباد کے ایک نسبتا ایک بہتر رہائشی علاقے میں 30 ہزار روپے ماہانہ کرایہ دینے والے حجام کا کہنا ہے جو گاہک ہر تیسرے ہفتے بال ترشواتے تھے اب ڈیڑھ مہینے کے بعد حجامت کروانے آتے ہیں۔
شیو کروانا اور سر کی مالش اب آسائش بن گئی ہے۔ بچوں والے گاہک جو سب کو اکٹھا لایا کرتے تھے اب نمبر لگا کر بچوں کو لاتے ہیں۔ بجلی کا بل اور دکان کا کرایہ دینا محال ہے۔ اس نے بتایا وہ دوسری پیڑی کا حجام ہے مگر اس کو یہ دکان بند کرنا پڑے گی۔ وہ کیا کرے گا؟ اس کو اس کا علم نہیں ہے۔
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے رینٹ اے کار ڈرائیور، جس نے اپنی دو گاڑیاں بھی اس کام میں لگائی ہوئی ہیں، دہائی دے رہا تھا کہ لوگوں نے آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔
گاڑیوں کی قیمتوں کے پیش نظر اب وہ ان کو نہ تو بیچ سکتا ہے اور نہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ آٹھ بچوں کا باپ اور دو غیر شادی شدہ بہنیں، بزرگ ماں باپ اس کے علاوہ۔ ’اب میں ڈاکے ماروں یا سمگلنگ کروں، اغوا برائے تاوان کا دھندہ کروں یا منشیات بیچوں، کیا کروں؟‘
مال روڑ پر لاہور کے ایک اچھے ہوٹل میں ایک جواں سال ویٹر مجھ سے پریشانی میں پوچھ رہا تھا کہ کیا یہ حالات دو چار ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے؟ میں نے اس کو تسلی دینا مناسب نہیں سمجھا اور کہا کہ اپنی معاشی مصیبت کے کلینڈر میں سے مہینے نکال دو اور صرف سال باقی رہنے دو۔
یہ عذاب تو ابھی شروع ہوا ہے۔ اس کی تکلیف ایک بددعا کی طرح ہر گزرتے لمحے بڑھتی رہے گی۔ اس پر وہ نیم آبدیدہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ اس ہوٹل میں میرے جیسے پچاس لوگ کام کر رہے ہیں اور ان میں سے ہر کسی نے ادھار لیے ہوئے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ اس اجتماعی قرض کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے آنکھیں بھی چار نہیں کرتے۔ صرف اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی نیا ویٹر آئے تو اس سے تعلقات بنا کر مہینے کے ادھار کا بندوبست کریں۔
کراچی میں ایک بڑی بین الاقوامی کمپنی کے مارکیٹنگ کے سربراہ نے بتایا کہ اس ماہ ان کی تنخواہ دو سال پرانی ہو گئی ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور گھر بنانے کی منصوبہ بندی سمیت اس کو سب کچھ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ ’سوچ رہا ہوں دبئی چلا جاؤں۔ جہاں سے پیسے لے کے ہمارے سورما ملک چلا رہے ہیں مجھے بھی وہاں پر نوکری مل ہی جائے گی۔‘
محلے کا دکان دار کہتا ہے کہ دکان بند کرنے کا نقصان اگر سو روپیہ ہے تو کھولنے کا نقصان اڑھائی سو، گاہک خریدنا نہیں چاہتا۔ مال ادھار پر اب ملتا نہیں۔ نہ وہ کرایہ دے سکتا ہے اور نہ بل۔ اوپر سے ہر حکومتی نمائندہ ان کو ٹیکس چور ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔
یہ انفرادی صورتحال نہیں۔ اجتماعی طور پر ایک معاشی بھونچال ہے جس نے لوگوں کی اچھی بھلی مستحکم زندگیاں جڑوں سے اکھاڑ دی ہیں۔ ٹیکس لینے کے نام پر ایک قتل عام ہے جس کی خون خواریت الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کی جا سکتی۔
اوپر سے ’سب اچھا ہے‘ کی نہ ختم ہونے والی بک بک۔ اس کے کرنے والے وہ محدود لوگ ہیں جن کے بچے ریاستی وسائل سے مستفید ہوتے ہوئے ملک سے باہر یا اندر چین کی نیند سو رہے ہیں۔
ان کی روٹی، کپڑا، مکان، دکان، آسائشیں، ان کے جھنڈے، ڈنڈے، مکھن اور انڈے سب کی قیمت قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ ان کو تنخواہوں میں اتار چڑھاؤ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریاستی وسائل پر قابض ہونے کا سب سے بڑا فائدہ تنخواہ نہیں وہ رعایت اور خصوصی مفاد ہے جو نوکریوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔
یہ اپنے حسین قلعوں میں رہتے ہیں جن کی بلند فصیلیں خاردار تاروں اور بندوق برداروں سے لیس اور محفوظ ہیں اور جن کی دیواریں اتنی موٹی ہیں کہ ان کے پار چیختے چنگاڑتے اور بلبلاتے لوگوں کی آوازیں ان سے ٹکرا کر وہیں رک جاتیں ہیں۔ یہ طبقہ اپنے اثاثے اپنی جان سے بھی زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔ ان کا طرز رہائش ان کی تنخواہوں سے کئی درجے بلند ہے۔
جبھی تو عمران خان بنی گالہ کے 300 ایکڑ پر محیط مکان اور وزیر اعظم ہاؤس کا خرچہ بیان کی حد تک خود دیتے ہیں مگر نہ تو ان کے پاس اپنی گاڑی ہے اور نہ کوئی اپنا کاروبار۔ وہ سالانہ ٹیکس بھی ایک لاکھ تین ہزار روپے سے زیادہ نہیں دیتے۔
اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بیرون ملک زندگیوں میں سے چند لمحے نکال کر پکنک منانے کے لیے پاکستان میں پالیسی کے ساتھ شغل کر رہے ہیں۔ اب سٹیٹ بینک بھی ان کے ہاتھ میں ہے اور وزارت خزانہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی ان کے قبضے میں۔ سالوں ارب پتیوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتا کر پیسے بنانے والے اب زیادہ ٹیکس کی ادائیگی پر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں۔ یقینا منافقت ایک منافع بخش کاروبارہے۔
لوگوں کی زندگیاں اجاڑنے کے باوجود ایک حسین، پر امن اور آسودہ قوم کی تصویر پیش کرنے والے بین الاقوامی فٹ پاتھوں کے یہ جادوگر اپنے کیریئر بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں صرف ان کا لینا ہے دینا کچھ نہیں۔ آئی ایم ایف کی انگلیوں سے بندھی ہوئی یہ پتلیاں ہر حرکت مالیاتی بینک کے اشارے پر کر رہی ہیں لیکن ان کے نخرے ایسے ہیں جیسے پاکستان کی دنیا انہیں کے دم سے قائم ہے۔
مگر پھر قصور ان کا بھی نہیں۔ اصل مسئلہ ان نیم حکیموں کا ہے جو عوام کو سہانے خواب دیکھا کر نہر کے کنارے لے آئے اور اب دھکے دے دے کر ان کواطمینان سے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔
اس دوران اس معاشی مقتل گاہ میں وقت گزارنے کے لیے بڑی بڑی سکرینوں پر احتسابی فلم کی پرانی قسطیں ہر روز نئے کرداروں کے ساتھ دکھائی جا رہی ہیں۔ فارمولہ وہی ہے جو ہر سستی فلم میں ہوتا ہے۔
ایک نیم برہنہ ڈانس پر مبنی آئٹم سانگ ’احتساب‘ کے لالچ میں تین گھنٹے کی ردی فلم بیچی جا رہی ہے۔ عوام کو ٹھوکا بھی جا رہا ہے اور ٹھگا بھی۔ مگر فلم بنانے والے مطمئن ہیں کہ ان کا دھندہ ٹھیک چل رہا ہے۔