دھوپ میں چھاؤں کو لے کر آگیا

نوید ناظم

محفلین
دھوپ میں چھاؤں کو لے کر آگیا
شہر میں گاؤں کو لے کر آ گیا

آبلہ پا تھا کہاں تک جاتا میں
پھر انہی پاؤں کو لے کر آ گیا

اُن بھری آنکھوں کو دیکھا تو لگا
جیسے دریاؤں کو لے کر آ گیا

عشق پہلے ہے پریشاں اور تُو
حسن آراؤں کو لے کر آ گیا

وصل، الفت اوروفا؟ او دل مرے!
کن تمناؤں کو لے کر آ گیا

ہو گئے کافور بادل بھی نوید
جب میں صحراؤں کو لے کر آ گیا
 

الف عین

لائبریرین
قوافی گڑبڑ ہیں
مطلع اور حسن مطلع میں ؤ پر پیش ہے، جب کہ دوسرے قوافی میں زبر ہے، تلفظ کےفرق پر غور کریں
 

نوید ناظم

محفلین
قوافی گڑبڑ ہیں
مطلع اور حسن مطلع میں ؤ پر پیش ہے، جب کہ دوسرے قوافی میں زبر ہے، تلفظ کےفرق پر غور کریں
بہت شکریہ سر، اصل میں یہی قوافی میں نے تواتر کے ساتھ استعمال ہوتے دیکھے ہیں قتیل شفائی کے یہ اشعار۔۔

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں

اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

اور پروین شاکر کے یہ اشعار۔۔

تتلیوں کی بے چینی آبسی ہے پاؤں میں
ایک پَل کو چھاؤں میں ، اور پھر ہَواؤں میں

کوچ کی تمنّا میں پاؤں تھک گئے لیکن
سمت طے نہیں ہوتی پیارے رہنماؤں میں

سر اسی طرح اور شعرا کا کلام بھی انہی قوافی کے ساتھ نظر سے گزرا ہے۔ اس سے قطع نظر تلفظ کے حوالے سے مجھے تو چھاؤں اور پاؤں پر بھی زبر محسوس ہوتی ہے اگر پیش ہو تو وہ چھاؤں (چھانا) اسی طرح پاؤں (پانا) سے محسوس ہوتا ہے۔ مطلب چھا جانا یا پا لینا مصادر سے نکلے ہوئے الفاظ۔ اسی طرح گاؤں (گانا) سے۔
سر اب کیا جو اشعار کہے ہیں انھیں متروک ہی سمجھوں یا پھر یہ کہ تسلیم کیے جا سکتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے کم از کم چھاؤں پاؤں جمع والے الفاظ ہواؤں صداؤں سے تلفظ میں مختلف اور قوافی میں غلط محسوس ہوتے ہوں۔
آج کل کے شعراء اگر قبول کر لیتے ہیں پروین شاکر اور قتیل شفائی کے تتبع میں، تو تم بھی کر سکتے ہو۔
ایک اور بات، یہ الفاظ استعمال کرنے میں فصیح تر یہ ہے کہ فاع کے طور پر استعمال کیا جائے، نہ کہ فعلن کے طور پر۔ بطور فعلن پانا چھانا سے مشتق درست ہوں گے۔ اور فاع تو قافیہ میں بھی نہیں آ سکتا!
 
Top