دھوپ چھائوں: ایک نثری نظم

’دھوپ چھاؤں‘

کہا اُس نے لمحوں سے کیوں الجھتے ہو محبت کب نہیں ہوتی،
کہا میں نے گماں میں کیوں بھٹکتی ہو محبت اب نہیں ہوتی،
کہا اُس نے محبت فرض ہے ہم پر اِسے اپنانا پڑتا ہے،
کہا میں نے محبت قرض ہے ہم پر اِسے لوٹانا پڑتا ہے،
کہا اُس نے محبت آس کا ساحل چلو ہم آزماتے ہیں،
کہا میں نے محبت کربِ لاحاصل یہاں دل ڈوب جاتے ہیں،
کہا اُس نے محبت استعارہ ہے زمانے میں بہاروں کا،
کہا میں نے محبت آگ پارہ ہے دہکتے ریگ زاروں کا،
کہا اُس نے چٹکتی رات میں دیکھو محبت جگ مگاتی ہے،
کہا میں نے اماوس کے اندھیروں میں سراسر آزماتی ہے،
کہا اُس نے محبت تارِ ہستی ہے لمحوں میں جوڑ دیتی ہے،
کہا میں نے محبت روگِ ہستی ہے دلوں کو توڑ دیتی ہے،
کہا اُس نے محبت کے اجالے میں کبھی سورج نہیں ڈھلتا،
کہا میں نے یہ اک بھٹکا سفینہ ہے اِسے ساحل نہیں ملتا،
کہا اُس نے محبت کی کہانی میں کوئی مشکل نہیں آتی،
کہا میں نے یہ اک اندھی مسافت ہے یہاں منزل نہیں آتی،
کہا اُس نے محبت ایسی بازی ہے جسے ہارا نہیں جاتا،
کہا میں نے محبت دردِ کامل ہے اِسے پالا نہیں جاتا،
کہا اُس نے محبت جوگ ہے ایسا جہاں نروان ملتا ہے،
کہا میں نے محبت روگ ہے ایسا جہاں انسان جلتا ہے،
کہا اُس نے محبت زندگی کو زندگی جینا سکھاتی ہے،
کہا میں نے محبت سرد پُروا ہے محض پتے اڑاتی ہے،
کہا اُس نے محبت ابرِ نیساں ہے چلو پیاسے نہیں رہتے،
کہا میں نے فریبِ سازِ ہستی ہے اِسے اپنا نہیں کہتے،
کہا اُس نے محبت آس سچی ہے ذرا سی دور چلتے ہیں،
کہا میں نے تمہاری عمر کچی ہے نظر میں خواب پلتے ہیں،
کہا اُس نے تمہارے جسم میں شاید کوئی پتھر دھڑکتا ہے،
کہا میں نے مرے سینے کے محمل میں کوئی صحرا ترستا ہے،
کہا اُس نے تمہاری آنکھ میں عاصمؔ کبھی آنسو نہیں ہوتے،
کہا میں نے تمہیں اتنا نہیں معلوم کہ مردے نہیں روتے۔۔۔‘

عاصمؔ شمس
18-8-15
 

نایاب

لائبریرین
بہت بہت شکریہ دوست،پر---------
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہویا کی قصور ۔۔۔۔
ابھی تو انٹرویو کا دھاگہ بنانے کا سوچا تھا ۔۔۔۔۔
اور آپ نکلنے لگے پتلی گلی سے ۔۔۔
بہت دعائیں
 
السلام علیکم! اچھی نظم ہے لیکن میرے ناقص علم کے مطابق یہ بحر سے آزاد نہیں ہے۔ آپ اسے مزید نثری نظم بنا سکتے ہیں۔
آپ یہاں پر موجود رہیے۔ دیکھیے کتنے لوگ آپ کے الواداع کو قبول نہیں کر رہے
 
Top