سید فصیح احمد
لائبریرین
ایک دفعہ موسم گرما میں ہم سب دوست چھٹیاں گزارنے ایک مشہور جھیل کی جانب گئے، ہم نے جھیل سے کچھ دور ہی ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ وہاں قریب سے ہی ہمیں ایک گائڈ بھی مل گیا۔ جھیل کی جانب سفر کرتے راستے میں ہمیں خشک برساتی نالے کے کنارے ایک کُٹیِا دکھائی دی جو اس وقت خالی تھی۔
" کون رہتا ہے یہاں؟ "
گائڈ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ جان بوجھ کر جواب دینے سے کترا رہا تھا۔ جیسے اس چھوٹی سی کٹیا کا ذکر اتنا اہم نا ہو۔ جھیل کنارے پہنچے تو آسمان ابر آلود ہونے لگا ، فضا میں ہلکی پھوار اور عجب دھند سی در آئی تھی۔ گرمیوں کے موسم کے باوجود جھیل کے کنارے کافی سردی تھی۔ ہم سب اس رومانوی ماحول میں اس گائڈ سے جھیل کے بارے مشہور قاف کہانیاں سننے لگے۔ ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ وہاں سیر کے لیئے آئے ایک اور ٹولے سے کسی بچے نے ایک پتھر جو جھیل کی طرف پھینکا تو ایک جھماکا ہوا ، اور جھیل کے پرسکون پانی میں خوب اضطراب پیدا ہوا، سب لوگ اس طرف دیکھنے لگے، اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا اس پرسکون لمحے میں ایک عجیب چیختی ہوئی آواز ابھری، الفاظ نہیں تھے بلکہ کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں۔ اس آواز کی طرف دیکھا تو ایک بڑھیا ہاتھ میں لاٹھی اٹھائے اس بچے کی جانب چلاتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔ اس گائڈ نے آگے بڑھ کر ایک پتھر اٹھا لیا ، اور اسے اشارے سے ڈرانے لگا، پتھر کے اٹھاتے ہی وہ بڑھیا فوراً پھرتی سے اس جھیل کے کنارے یوں بازو پھلائے کھڑی ہو گئی جیسے کوئی دیوار ہو۔ چند لمحے خاموشی رہی، پھر گائڈ اور باقی لوگ کچھ ہی دیر میں اس واقعے کو بھلا کر پھر سے اپنے اپنے مشاغل میں کھو گئے۔
میرا دھیان اب بھی اس بڑھیا کی طرف تھا ، میرا رخ تو گائڈ کی جانب تھا لیکن میری نظریں مسلسل اس بڑھیا پر مرکوز تھیں۔ بڑھیا اب جھیل کی جانب رخ کر کے پانی کو بغور دیکھ رہی تھی، جو پتھر گرنے سے ہلکے ہلکے ہچکولے لے رہا تھا۔ کچھ دیر میں جو جھیل کی سطح پر سکون ہوا تو وہ اس کے کنارے بیٹھ گئی اور پانی میں نہ جانے کسے گھورنے لگی۔ میرے لیئے یہ سب نیا بھی تھا اور غیر معمولی بھی۔ اس منفرد عورت کے بارے میرا تجسس اس وقت عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اچانک اس بڑھیا نے دونوں ہاتھوں سے جھیل کا پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کر دیا، اتنی سردی میں اس کے جسم پر پڑتے پانی کا سوچ کر ہی میرے بدن نے زور سے ایک جھر جھری لی۔ ایک شخص اس بڑھیا کی جانب بڑھا ہی تھا کہ گائڈ نے اسے اشارے سے روک دیا۔ پھر وہ بڑھیا اونچی آواز میں رونے لگی، روتے روتے پھر یک دم چُپ کر گئی۔ کچھ دیر وہیں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہی، پھر اپنی لاٹھی اٹھا کر اسے زمین پر ٹیکتے وہاں سے دوسرے کنارے کی جانب دھُند میں غائب ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد جب مجھ سے رہا نہ گیا تو آخر گائڈ سے پوچھ ہی لیا،
" آخر یہ عورت ہے کون؟ "
" کوئی خاص نہیں سر۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ یہاں سیر کرنے آئے تھے، یہ عورت انہی کے ساتھ تھی۔ اسے جھیل میں دیکھتے دیکھتے اپنی ہی صورت سے پیار ہو گیا۔ تب سے یہ یوں ہی اکثر خود کو گلے لگانے کی خواہش میں جھیل کا پانی اپنے اوپر پھینکنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھی کوشش کرتے رہے لیکن یہ ان کے ساتھ نہیں گئی۔ مجبور ہو کر وہ لوگ اسے گاؤں والوں کے سپرد کر گئے۔ "
" تو تُم میں سے اسے کوئی اپنے پاس رکھ لے ، اس کی دیکھ بھال کرے۔ بے چاری کی عمر بھی اتنی زیادہ ہو چکی ہے! "
" صاحب یہاں تقریباً سب مصروف لوگ ہیں، ایسے میں کون ایسے پاگل کی ذمہ داری قبول کرے گا۔ یہ ایسے ہی ٹھیک ہے ، یہی اس کا نصیب ہے "
میں بہت دیر تک اس معاملے کو سلجھانے کے لیئے سوچتا رہا، لیکن شائد وہاں دھند بہت زیادہ تھی۔
" کون رہتا ہے یہاں؟ "
گائڈ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ جان بوجھ کر جواب دینے سے کترا رہا تھا۔ جیسے اس چھوٹی سی کٹیا کا ذکر اتنا اہم نا ہو۔ جھیل کنارے پہنچے تو آسمان ابر آلود ہونے لگا ، فضا میں ہلکی پھوار اور عجب دھند سی در آئی تھی۔ گرمیوں کے موسم کے باوجود جھیل کے کنارے کافی سردی تھی۔ ہم سب اس رومانوی ماحول میں اس گائڈ سے جھیل کے بارے مشہور قاف کہانیاں سننے لگے۔ ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ وہاں سیر کے لیئے آئے ایک اور ٹولے سے کسی بچے نے ایک پتھر جو جھیل کی طرف پھینکا تو ایک جھماکا ہوا ، اور جھیل کے پرسکون پانی میں خوب اضطراب پیدا ہوا، سب لوگ اس طرف دیکھنے لگے، اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا اس پرسکون لمحے میں ایک عجیب چیختی ہوئی آواز ابھری، الفاظ نہیں تھے بلکہ کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں۔ اس آواز کی طرف دیکھا تو ایک بڑھیا ہاتھ میں لاٹھی اٹھائے اس بچے کی جانب چلاتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔ اس گائڈ نے آگے بڑھ کر ایک پتھر اٹھا لیا ، اور اسے اشارے سے ڈرانے لگا، پتھر کے اٹھاتے ہی وہ بڑھیا فوراً پھرتی سے اس جھیل کے کنارے یوں بازو پھلائے کھڑی ہو گئی جیسے کوئی دیوار ہو۔ چند لمحے خاموشی رہی، پھر گائڈ اور باقی لوگ کچھ ہی دیر میں اس واقعے کو بھلا کر پھر سے اپنے اپنے مشاغل میں کھو گئے۔
میرا دھیان اب بھی اس بڑھیا کی طرف تھا ، میرا رخ تو گائڈ کی جانب تھا لیکن میری نظریں مسلسل اس بڑھیا پر مرکوز تھیں۔ بڑھیا اب جھیل کی جانب رخ کر کے پانی کو بغور دیکھ رہی تھی، جو پتھر گرنے سے ہلکے ہلکے ہچکولے لے رہا تھا۔ کچھ دیر میں جو جھیل کی سطح پر سکون ہوا تو وہ اس کے کنارے بیٹھ گئی اور پانی میں نہ جانے کسے گھورنے لگی۔ میرے لیئے یہ سب نیا بھی تھا اور غیر معمولی بھی۔ اس منفرد عورت کے بارے میرا تجسس اس وقت عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اچانک اس بڑھیا نے دونوں ہاتھوں سے جھیل کا پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کر دیا، اتنی سردی میں اس کے جسم پر پڑتے پانی کا سوچ کر ہی میرے بدن نے زور سے ایک جھر جھری لی۔ ایک شخص اس بڑھیا کی جانب بڑھا ہی تھا کہ گائڈ نے اسے اشارے سے روک دیا۔ پھر وہ بڑھیا اونچی آواز میں رونے لگی، روتے روتے پھر یک دم چُپ کر گئی۔ کچھ دیر وہیں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہی، پھر اپنی لاٹھی اٹھا کر اسے زمین پر ٹیکتے وہاں سے دوسرے کنارے کی جانب دھُند میں غائب ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد جب مجھ سے رہا نہ گیا تو آخر گائڈ سے پوچھ ہی لیا،
" آخر یہ عورت ہے کون؟ "
" کوئی خاص نہیں سر۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ یہاں سیر کرنے آئے تھے، یہ عورت انہی کے ساتھ تھی۔ اسے جھیل میں دیکھتے دیکھتے اپنی ہی صورت سے پیار ہو گیا۔ تب سے یہ یوں ہی اکثر خود کو گلے لگانے کی خواہش میں جھیل کا پانی اپنے اوپر پھینکنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھی کوشش کرتے رہے لیکن یہ ان کے ساتھ نہیں گئی۔ مجبور ہو کر وہ لوگ اسے گاؤں والوں کے سپرد کر گئے۔ "
" تو تُم میں سے اسے کوئی اپنے پاس رکھ لے ، اس کی دیکھ بھال کرے۔ بے چاری کی عمر بھی اتنی زیادہ ہو چکی ہے! "
" صاحب یہاں تقریباً سب مصروف لوگ ہیں، ایسے میں کون ایسے پاگل کی ذمہ داری قبول کرے گا۔ یہ ایسے ہی ٹھیک ہے ، یہی اس کا نصیب ہے "
میں بہت دیر تک اس معاملے کو سلجھانے کے لیئے سوچتا رہا، لیکن شائد وہاں دھند بہت زیادہ تھی۔
آخری تدوین: