دہشت گردی اور اس کی وکالت کرنے والے.

سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیا میں اس قسم کی خبریں آنے لگی تھیں کہ اب بھارت پاکستنا ن پر حملہ کر سکتا ہے اور آئیندہ 48 گھنٹے بڑے اہم ہیں تو پاکستنانی قیادت کے منہ سے بھی سچ پھسل گیا تھا فورا ہمارے حکمرانوں‌نے کہنا شروع کردیا کہ قبائلی تو ہمارے بھائی ہیں اور یہ کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم مغربی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا لیں گئے اور دہشت گردی کے‌خلاف جنگ بند کر دیں گئیں اور یہ کہ ان سرحدوں کا دفاع خود قبائلی کریں گئے یعنی اب تک آپ غیر کی ایما پر جن سے جنگ کر رہے تھے اب ذرا وقت پڑا تو یاد آگیا کہ قبائلی آپ کے ملک کے شہری ہیں اور آپ کے بھائی ہیں؟
نذیر ناجی جیسے بے غیرت اور بکے ہوئے لوگ جو پہلے نواز شریف کے ناک کا بال تھے پھر پرویز الہی کے طرف ہو گئے اور آج کل پھر شہباز شریف پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرہے ہیں یہ وہ صحافی ہیں
جن کا نعرہ یہ ہوتا ہے باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ۔نذیر ناجی نے پرویز الہی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیےشاید بھارت کی دلالی شروع کر دی ہے۔
 
القاعدہ القاعدہ کی رٹ لگانے والے ذرا کچھ پہلوں پر بھی غور کرلیں تو مناسب ہو گا درج ذیل خبر ایسے ایک ممکنہ پہلو کی عکاس ہے

اسلام آباد: ممبئی دہشت گردی کے واقعات میں شیوسینا اوربھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔خبر رساں ادارے آن لائن نے ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائی ہندوخود کش اسکواڈ کے ذریعے کی گئی۔ خودکش اسکواڈ پاکستان میں بھی کئی خود کش حملے کر چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ممبئی دہشت گر حملوں کاذمے دار شیوسینا کا ہندوخودکش اسکواڈ کو را نے ترتیب دی تھی۔ ا سکواڈ ماضی میں بھی مختلف مواقع پر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق ممبئی دہشت گردی کا سب سے بڑا مقصد انٹیلی جنس آفیسر ہیمنٹ کرکرے اور اس کے دو دیگر ساتھیوں کو قتل کرناتھا کیونکہ کرکرے نے متعدد دھمکیوں اور پیشکشوں کے باوجود یہ ثابت کیا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس سان نحے میں ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ ہے اور اسی طرح مالیگاؤں اور دیگر دہشت گر دی کے واقعات بھی را اور شیوسینا ملوث ہے۔

رپورٹ کے مطابق کرکرے کو علم تھا اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ماضی میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش شروع کر دی تھی اور بھارتی کرنل کی طرح امکان تھا کہ آئندہ چند ماہ میں مزید بڑے نام سامنے آئیں گے تاہم را نے بدنامی سے بچنے کیلئے شیوسینا کے خود کش اسکواڈ کی مدد سے بڑے پیمانے پر ممبئی میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا اور بعد ازاں میڈیا کے ذریعے بڑی واقعے کو پاکستان کی کارروائی قرار دے کر اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔

بقیہ
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
القاعدہ القاعدہ کی رٹ لگانے والے ذرا کچھ پہلوں پر بھی غور کرلیں تو مناسب ہو گا درج ذیل خبر ایسے ایک ممکنہ پہلو کی عکاس ہے
انتہا پسندوں کا اثر کچھ معاشروں میں کہیں کم ہے تو کہیں زیادہ، مگر یہ حقیقت ہے کہ ہر ہر قوم میں ایسے انتہا پسند موجود ہوتے ہیں۔
اور یہ انتہا پسند [چاہے کسی قوم سے انکا تعلق ہو] انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں، اور دوسروں سے نفرتیں پھیلانے میں سب سے آگے۔ ان میں دوسروں کے مذہب، نظریات کچھ برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہوتا اور اس لیے یہ دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے بلکہ اپنے سے مختلف دیگر تمام کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔

ہندو انتہا پسند اتنے ہی گھٹیا، نفرت آمیز، انسان دشمن ہیں جتنا کہ القاعدہ اور دیگر تمام کے تمام انتہا پسند۔

اور یہ کوشش اچھی نہیں کہ ہندو انتہا پسندی کے نام پر القاعدہ کی انتہا پسندی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے اور جو قتل و غارت القاعدہ کر چکی ہے اس سے اس کو معصوم بنا دیا جائے۔

////////////////////////////////////////////////////////////

از ابن حسن:
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیا میں اس قسم کی خبریں آنے لگی تھیں کہ اب بھارت پاکستنا ن پر حملہ کر سکتا ہے اور آئیندہ 48 گھنٹے بڑے اہم ہیں تو پاکستنانی قیادت کے منہ سے بھی سچ پھسل گیا تھا فورا ہمارے حکمرانوں‌نے کہنا شروع کردیا کہ قبائلی تو ہمارے بھائی ہیں اور یہ کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم مغربی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا لیں گئے اور دہشت گردی کے‌خلاف جنگ بند کر دیں گئیں اور یہ کہ ان سرحدوں کا دفاع خود قبائلی کریں گئے یعنی اب تک آپ غیر کی ایما پر جن سے جنگ کر رہے تھے اب ذرا وقت پڑا تو یاد آگیا کہ قبائلی آپ کے ملک کے شہری ہیں اور آپ کے بھائی ہیں؟

بھائی جی، یہ انڈیا سے جنگ کے خطرے کا وقت ہے۔ ایسی باتوں سے ایسے وقت میں پرہیز کرنا اچھا ہوتا۔
قبائلی کبھی بھی پاکستان کے دشمن نہیں تھے بلکہ ہمیشہ سے پاکستانی ہیں، مگر انہی قبائلیوں سے انتہا پسندوں کی جنگیں جاری ہیں۔
دشمن کا دشمن میرا دوست۔ اس اصول پر ہونے والے ان واقعات جس میں طالبانی خود کش حملہ آور انڈیا پر خود کش حملے کی بات کر رہے ہیں اور پاک حکومت اپنی فوج کو بڑے خطرے یعنی انڈیا کے خلاف مشرقی سرحد پر لانے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔ ان سب کا یہ مطلب نہیں کہ طالبانی خود کش سفاک قاتل جنہوں نے پاکستان میں ہزاروں معصوموں کی جانیں لے لی ہیں وہ دودھ کے دھلے ہو گئے ہیں اور معصوم فرشتے بن چکے ہیں۔

مومن ایک سوراخ سے صرف ایک بار ڈسا جاتا ہے۔

لیکن کوئی اگر پھر بار بار آنکھیں بند کر کے اسے بل میں ہاتھ ڈالے تو وہ بہت بدقسمت ہے۔ ہماری منزل صرف ایک ہے اور وہ ہے پاک سر زمین سے طالبانی فتنے کو مکمل طور پر ختم کر کے پاکستانی قانون کا پاک زمین پر نفاذ۔ اگر طالبان اپنے ہتھیار رکھ کر پاکستان کے خلاف بغاوت سے توبہ کریں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے، مگر اگر اپنے فتنے سے باز نہیں آتے تو سوائے ان کے خلاف لڑ کر انہیں ختم کر دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔
 
اور یہ کوشش اچھی نہیں کہ ہندو انتہا پسندی کے نام پر القاعدہ کی انتہا پسندی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے اور جو قتل و غارت القاعدہ کر چکی ہے اس سے اس کو معصوم بنا دیا جائے۔
ہر منظر نامہ کچھ اسباب و وجوہات کاحامل ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتاہے ہماری اس جدید دنیا میں جتنے واقعات کردار مناظر وقت حاضر میں ہماری نگاہوں سے گزر رہے ہیں وہ بھی اس قاعدے و کلیے سے مبرا نہیں ہیں‌ بش ، امریکا موجودہ جنگیں عالم اسلام کی بے کسی پھر القاعدہ ، طالبان کچھ اصلاحی کچھ مسلح جد وجہد کی حامل تنظیمیں یہ سب اچانک ہی کسی بگ بینگ کے نتیجے میں منصہ شہود پر نہیں آ گئں بلکہ یہ بھی اسباب و وجوہات کا نتیجہ ہیں ۔
القاعدہ اگر دہشت گردی کر رہی ہے تو پہلے آپ یہ بتائیے کہ دہشت گردی ہے کیا اس کی تعر یف کیجئے پھر یہ بتائئے کہ یہ دہشت گردی بلاجواز ہے یا ردعمل اور پھر اس کی وجوہات محدود ہیں یا غیر محدود یہ وجوہات ختم ہو چکی ہیں یا جاری ہیں اور پھر یہ کہ اگر اچانک القاعدہ ختم ہو جائے تو اس سے دنیا کے امن و سلامتی مظلوموں کے تحفظ و ان کے حقوق کے تحفظ میں کتنا مثبت فرق پڑے گا۔اگر آپ ان نکات کو سامنے رکھ کر گفتگو فرمائیں تو یہ مسئلہ جلد ہی مابین نبٹ جائے گا۔

ھائی جی، یہ انڈیا سے جنگ کے خطرے کا وقت ہے۔ ایسی باتوں سے ایسے وقت میں پرہیز کرنا اچھا ہوتا۔
قبائلی کبھی بھی پاکستان کے دشمن نہیں تھے بلکہ ہمیشہ سے پاکستانی ہیں، مگر انہی قبائلیوں سے انتہا پسندوں کی جنگیں جاری ہیں۔
دشمن کا دشمن میرا دوست۔ اس اصول پر ہونے والے ان واقعات جس میں طالبانی خود کش حملہ آور انڈیا پر خود کش حملے کی بات کر رہے ہیں اور پاک حکومت اپنی فوج کو بڑے خطرے یعنی انڈیا کے خلاف مشرقی سرحد پر لانے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔ ان سب کا یہ مطلب نہیں کہ طالبانی خود کش سفاک قاتل جنہوں نے پاکستان میں ہزاروں معصوموں کی جانیں لے لی ہیں وہ دودھ کے دھلے ہو گئے ہیں اور معصوم فرشتے بن چکے ہیں۔

مومن ایک سوراخ سے صرف ایک بار ڈسا جاتا ہے۔

لیکن کوئی اگر پھر بار بار آنکھیں بند کر کے اسے بل میں ہاتھ ڈالے تو وہ بہت بدقسمت ہے۔ ہماری منزل صرف ایک ہے اور وہ ہے پاک سر زمین سے طالبانی فتنے کو مکمل طور پر ختم کر کے پاکستانی قانون کا پاک زمین پر نفاذ۔ اگر طالبان اپنے ہتھیار رکھ کر پاکستان کے خلاف بغاوت سے توبہ کریں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے، مگر اگر اپنے فتنے سے باز نہیں آتے تو سوائے ان کے خلاف لڑ کر انہیں ختم کر دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔

خلط مبحث سے پرہیز کرنا اچھا ہوتا ہے اگر کوئی فریق اپنے ترکش میں واحد ہتھیار یہی رکھتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا موقف کمزور ہے۔

آپ تقریر طولانی کے بعد میرے صرف دو سوالات ہیں‌
1۔ اگر دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے تو پاکستان نے اس بات کو امریکا اور بھارت کے خلاف بطور دھمکی کہ کیوں استعمال کیا کہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم اس جنگ سے ہاتھ کینچ لیں گئے اور اگر طالبان آپ کے اتنے ہی بڑے دشمن ہیں کہ وہ آپ کی فورس ملٹری کے خلاف اور ہزروں افراد کے قاتل ہیں‌تو سرحدوں کی نگہبانی ان کے سپہرد کرنے کے کیا معنیِ کیا جنگ جیسے نازک مرحلے پر آپ اپنی مغربی سرحدوں کی نگہبانی اپنے دہشت گردوں کے سپرد کرتے ہیں محترمہ گھر پر حملہ ہو تو کیا گھر کی پاسبانی دشمنوں کے سپرد کیجاتی ہے؟
2۔اگر آپ حالت جنگ میں اپنی سرحدوں کی نگہبانی قبائلیوں کے سپرد کر سکتے ہیں تو ایک مرتبہ کلی طور پر امریکیوں‌کے بجائے قبائلیوں پر اعتماد اور ان کے ساتھ مل کر قبائلی علاقوں میں امریکی و بھارتی ایجنٹوں‌کے خلاف آپریشن کر کہ اس علاقے کو پاک کیوں‌نہیں کرلیتے۔ وہ کیا مجبوریاں‌ہیں‌جو آُپ کو اس سے روکتی ہیں۔
 
بھارت’’ہندوستان‘‘ سے اب اور کتنی جنگیں لڑنا باقی ہیں؟
تین جنگیں کونسی پاکستان کی مرضی سے شروع ہوئیں تھیں جو اب بچارے پاکستانی یہ بتائیں کہ ابھی کتنی جنگیں باقی ہیں؟ ویسے بھارت کا موڈ ایک اور جنگ کا بن تو رہا ہے دیکھیے کتنی دیر اور لگتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہر منظر نامہ کچھ اسباب و وجوہات کاحامل ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتاہے ہماری اس جدید دنیا میں جتنے واقعات کردار مناظر وقت حاضر میں ہماری نگاہوں سے گزر رہے ہیں وہ بھی اس قاعدے و کلیے سے مبرا نہیں ہیں‌ بش ، امریکا موجودہ جنگیں عالم اسلام کی بے کسی پھر القاعدہ ، طالبان کچھ اصلاحی کچھ مسلح جد وجہد کی حامل تنظیمیں یہ سب اچانک ہی کسی بگ بینگ کے نتیجے میں منصہ شہود پر نہیں آ گئں بلکہ یہ بھی اسباب و وجوہات کا نتیجہ ہیں ۔
القاعدہ اگر دہشت گردی کر رہی ہے تو پہلے آپ یہ بتائیے کہ دہشت گردی ہے کیا اس کی تعر یف کیجئے پھر یہ بتائئے کہ یہ دہشت گردی بلاجواز ہے یا ردعمل اور پھر اس کی وجوہات محدود ہیں یا غیر محدود یہ وجوہات ختم ہو چکی ہیں یا جاری ہیں اور پھر یہ کہ اگر اچانک القاعدہ ختم ہو جائے تو اس سے دنیا کے امن و سلامتی مظلوموں کے تحفظ و ان کے حقوق کے تحفظ میں کتنا مثبت فرق پڑے گا۔اگر آپ ان نکات کو سامنے رکھ کر گفتگو فرمائیں تو یہ مسئلہ جلد ہی مابین نبٹ جائے گا۔



خلط مبحث سے پرہیز کرنا اچھا ہوتا ہے اگر کوئی فریق اپنے ترکش میں واحد ہتھیار یہی رکھتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا موقف کمزور ہے۔

آپ تقریر طولانی کے بعد میرے صرف دو سوالات ہیں‌
1۔ اگر دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے تو پاکستان نے اس بات کو امریکا اور بھارت کے خلاف بطور دھمکی کہ کیوں استعمال کیا کہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم اس جنگ سے ہاتھ کینچ لیں گئے اور اگر طالبان آپ کے اتنے ہی بڑے دشمن ہیں کہ وہ آپ کی فورس ملٹری کے خلاف اور ہزروں افراد کے قاتل ہیں‌تو سرحدوں کی نگہبانی ان کے سپہرد کرنے کے کیا معنیِ کیا جنگ جیسے نازک مرحلے پر آپ اپنی مغربی سرحدوں کی نگہبانی اپنے دہشت گردوں کے سپرد کرتے ہیں محترمہ گھر پر حملہ ہو تو کیا گھر کی پاسبانی دشمنوں کے سپرد کیجاتی ہے؟
2۔اگر آپ حالت جنگ میں اپنی سرحدوں کی نگہبانی قبائلیوں کے سپرد کر سکتے ہیں تو ایک مرتبہ کلی طور پر امریکیوں‌کے بجائے قبائلیوں پر اعتماد اور ان کے ساتھ مل کر قبائلی علاقوں میں امریکی و بھارتی ایجنٹوں‌کے خلاف آپریشن کر کہ اس علاقے کو پاک کیوں‌نہیں کرلیتے۔ وہ کیا مجبوریاں‌ہیں‌جو آُپ کو اس سے روکتی ہیں۔

آپکے سوالات کے چکر میں میں آنے والی نہیں۔
امریکہ بھی ہمارے ساتھ مل کر متحدہ دشمن کے خلاف لڑتا رہا۔ مگر کیا ایسا کرنے سے اسکے تمام تر گناہ معاف ہو گئے اور وہ فرشتہ بن گیا؟
طالبان کی فطرت جبتک تبدیل نہیں ہوتی، وہ فتنہ ہیں اور فتنہ ہی رہیں گے۔
اور طالبان کی فطرت یہ ہے کہ جو کوئی ان جیسا نہیں، اور انکے بنائے ہوئے نظام اور شریعت سے مطابقت نہیں رکھتا، جو انکے ظلم و ستم کو نہیں مانتا، اس پر احتجاج کرتا ہے وہ انکا دشمن ہے اور اسے قتل و برباد کر دینا ہی طالبان کا مذہب ہے۔ ان میں دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے والا کوئی مادہ نہیں۔ جو بھی دوسرا ہے [جو ان سے مختلف ہے، وہ اسکے دشمن ہیں]
اپنی اسی فطرت کے باعث طالبان ہزاروں معصوم لوگوں کا خون کر چکے ہیں۔ اور انڈیا کا مسئلہ ختم ہو جانے کے بعد یہ اپنے چھوٹے دشمن [پاکستان] پر اپنا نظام قائم کرنے کے لیے اور بقیہ پورے پاکستان کو بندوق کے نالی کے زور پر اپنا جیسا بنانے کے لیے پھر سے جہاد کے نام پر خود کش حملوں اور قتل و غارت کا کاروبار شروع کر دیں گے۔

پاکستانی عوام کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہیے ہیں اور ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جانا چاہیے۔ طالبان وہ فتنہ ہیں جن سے جنگ ناگزیر ہے اور یہ ٹالی ہی نہیں جا سکتی [تاوقتیکہ انکی فطرت تبدیل نہ ہو جائے جو کہ بہت مشکل ہے]۔

اور یہ لوگ، جو کہ ان ہزاروں معصوموں کے ناحق خود بہہ جانے کے بعد بھی آج طالبان اور دہشتگردی کی بہانے بہانے وکالت کر رہے ہیں، انکے اس پروپیگنڈہ سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پھر ناجی صاحب کا اوپر والا کالم "دہشتگردی اور اسکی وکالت کرنے والے" پڑھیں۔
والسلام

پی ایس:
جس طرح غریب ہونے کے باوجود آپکو یہ حق نہیں کہ دوسرے کے منہ سے نوالہ چھین کر کھا جائیں، اسی طرح امریکہ کی غلطیوں کے نام پر القاعدہ و طالبان کو کسی علاقے میں زبردستی قتل و غارت کے ذریعے اپنا نظام نافذ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی القاعدہ نے گیارہ ستمبر کو جو امریکی شہریوں کا قتل عام کیا اسکی اجازت ہے، اور نہ ہی القاعدہ نے جو لاکھوں مسلمان شہریوں کو عراق میں جہاد کے نام پر ہلاک کر دیا ہے اسکی اجازت ہے، اور نہ ہی مسجد مدرسہ کے نام پر لال مسجد کو کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنے کا کوئی اختیار تھا۔ اگر یہ طبقات اپنی اصلاح کر لیتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ یہ وہ فتنہ ہیں کہ جنہیں مار دینا لازمی ہے ورنہ یہ فتنہ بڑھ کر ناقابل علاج ناسور بن جائے گا اور پورے معاشرے کو نفرتوں و خون میں نہلا کر ڈبو دے گا۔
 
آپکے سوالات کے چکر میں میں آنے والی نہیں
[ARABIC]أُوْلَ۔ئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَoمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَoصُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ o[/ARABIC]
 

فرخ

محفلین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:

قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔

مجھے اس بات سے شدید طور پر اتفاق ہے :hatoff:
 

فرخ

محفلین
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیا میں اس قسم کی خبریں آنے لگی تھیں کہ اب بھارت پاکستنا ن پر حملہ کر سکتا ہے اور آئیندہ 48 گھنٹے بڑے اہم ہیں تو پاکستنانی قیادت کے منہ سے بھی سچ پھسل گیا تھا فورا ہمارے حکمرانوں‌نے کہنا شروع کردیا کہ قبائلی تو ہمارے بھائی ہیں اور یہ کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم مغربی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا لیں گئے اور دہشت گردی کے‌خلاف جنگ بند کر دیں گئیں اور یہ کہ ان سرحدوں کا دفاع خود قبائلی کریں گئے یعنی اب تک آپ غیر کی ایما پر جن سے جنگ کر رہے تھے اب ذرا وقت پڑا تو یاد آگیا کہ قبائلی آپ کے ملک کے شہری ہیں اور آپ کے بھائی ہیں؟
نذیر ناجی جیسے بے غیرت اور بکے ہوئے لوگ جو پہلے نواز شریف کے ناک کا بال تھے پھر پرویز الہی کے طرف ہو گئے اور آج کل پھر شہباز شریف پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرہے ہیں یہ وہ صحافی ہیں
جن کا نعرہ یہ ہوتا ہے باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ۔نذیر ناجی نے پرویز الہی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیےشاید بھارت کی دلالی شروع کر دی ہے۔

اب میں کیا کروں، مجھے اس بات سے بھی شدید اتفاق ہے :grin:
 
پی ایس:
جس طرح غریب ہونے کے باوجود آپکو یہ حق نہیں کہ دوسرے کے منہ سے نوالہ چھین کر کھا جائیں، اسی طرح امریکہ کی غلطیوں کے نام پر القاعدہ و طالبان کو کسی علاقے میں زبردستی قتل و غارت کے ذریعے اپنا نظام نافذ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی القاعدہ نے گیارہ ستمبر کو جو امریکی شہریوں کا قتل عام کیا اسکی اجازت ہے، اور نہ ہی القاعدہ نے جو لاکھوں مسلمان شہریوں کو عراق میں جہاد کے نام پر ہلاک کر دیا ہے اسکی اجازت ہے، اور نہ ہی مسجد مدرسہ کے نام پر لال مسجد کو کسی اور کی زمین پر قبضہ کرنے کا کوئی اختیار تھا۔ اگر یہ طبقات اپنی اصلاح کر لیتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ یہ وہ فتنہ ہیں کہ جنہیں مار دینا لازمی ہے ورنہ یہ فتنہ بڑھ کر ناقابل علاج ناسور بن جائے گا اور پورے معاشرے کو نفرتوں و خون میں نہلا کر ڈبو دے گا

ہاں اگر اجازت ہے تو امریکا ،ایران ، طوری قبائل اور متحدہ کو ہے کہ جس کو چاہیں خون میں نہلا دیں اور جس کو چاہیں مار دیں ۔
رجحان + عقیدہ اور لسان = ؟
 

مہوش علی

لائبریرین
ہاں اگر اجازت ہے تو امریکا ،ایران ، طوری قبائل اور متحدہ کو ہے کہ جس کو چاہیں خون میں نہلا دیں اور جس کو چاہیں مار دیں ۔
رجحان + عقیدہ اور لسان = ؟

آپ لاکھ امریکہ کی برائیوں کو ڈھال بنائیں، یا ایران اور طوری قبائل کو بیچ میں گھسیٹ لائیں، مگر طالبان جو خود کش حملوں میں ہزاروں معصوموں کی جانیں لے چکی ہے، اور القاعدہ جو امریکہ نفرت کے نام پر عراق میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے، اس پر آپ کوئی پردہ نہیں ڈال سکتے۔
اور نہ ہی یہ عذر پیش کر کے طالبان کی فطرت کو تبدیل کر سکتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو ان سے مطابقت نہیں رکھتی وہ دشمن ہے اور اس کا قتل واجب۔
ذرا انڈیا کا مسئلہ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے، تو پھر یہی طالبان اپنی خونی خصلت کے ساتھ پھر بغیر نقاب کے سامنے آ جائیں گے۔
 
آپ لاکھ امریکہ کی برائیوں کو ڈھال بنائیں، یا ایران اور طوری قبائل کو بیچ میں گھسیٹ لائیں، مگر طالبان جو خود کش حملوں میں ہزاروں معصوموں کی جانیں لے چکی ہے، اور القاعدہ جو امریکہ نفرت کے نام پر عراق میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے، اس پر آپ کوئی پردہ نہیں ڈال سکتے۔
اور نہ ہی یہ عذر پیش کر کے طالبان کی فطرت کو تبدیل کر سکتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو ان سے مطابقت نہیں رکھتی وہ دشمن ہے اور اس کا قتل واجب۔
ذرا انڈیا کا مسئلہ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے، تو پھر یہی طالبان اپنی خونی خصلت کے ساتھ پھر بغیر نقاب کے سامنے آ جائیں گے۔

خونی خصلت کے حامل افراد و اقوام اور ان کے حامی کون ہیں یہ اب پوری دنیا جانتی ہے اور کون کسی کی خونی خصلت کی پردوہ پوشی کر رہا ہے یہ بھی پوری دنیا جاتنی ہے۔خون مسلم کی ارازانی کس نے کی ہے اور کون کون طبقات کس وجہ سے اس کی پشت بانی کر رہے ہیں یہ بھی اب کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین
ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں - حبیب جالب

ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں
اور کریں اپنی زمیں خوں رنگ کیوں

روشنی کے ہم تو خود ہیں منتظر
روشنی پر ہم اٹھائیں سنگ کیوں

اے ستم گر تو نے سوچا ہے کبھی
تجھ سے ہے ساری خدائی تنگ کیوں

امن و آذادی کے ہم تو ہیں نقیب
ہوں کسی غاصب سے ہم آہنگ کیوں
 

مغزل

محفلین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:
قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

معاف کیجئے گا مہوش صاحبہ
اس قول کا اطلاق ہر جگہ نہیں ہوتا ۔
سامنے کی بات ہے کہ کفار نے سرکار علیہ السلام کی شخصیت دیکھ کر ہی انہیں صادق اور امین مانا
اور جوق در جوق اسلام لائے ۔۔ اب اگر بش امن کی بات کرتا ہے تو مان کیوں نہیں لیتے، چنگیز
امن کا ڈھول پیٹے گا تو مان لیجئے گا، منفاقین اور موافقین میں تفریق کیجئے ۔۔ وگرنہ حضرت علی کرم
اللہ وجہہ کریم کا یہ قول سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کے آڑے آجائے گا۔
والسلام
 

ظفری

لائبریرین
چونکہ یہاں اب پہلے جیسا ماحول نہیں رہا کہ " انسان اپنا نکتہِ نظر بیان کرے اور پھر یہ امید کرے کہ اس پر اگر مخالفت ہوتی ہے تو اس کا رخ مثبت اور علمی بحث کی طرف ہوگا ۔" مگر یہاں جس طرح قصیدہ خوانی کی جاتی ہے ۔ اس ماحول کو سامنے رکھ کر یہ مناسب لگتا ہے کہ انسان خاموش ہی رہے ۔ مگر کچھ ایسی باتیں یہاں کہہ دیں جاتیں ہیں کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے ۔
اس ٹاپک پر ہونے والی بحث کے تناظر میں صرف یہ کہنے کہ جسارت کررہا ہوں کہ جب مسلمانوں کے مذہبی حلقوں ( میں لفظ علماء اور مولوی کہنے سے احتراز کر رہا ہوں ) نے جہاد کا قانون مسلمانوں پر اس طرح نافذ کردیا کہ لشکر تیار کرو اور پوری دنیا میں جو اسلام لانا نہیں چاہتا ان کے خلاف لڑنے نکل جاؤ ۔ کیونکہ قرآن کو سمجھنے والے یہی لوگ تھے سو انہوں نے تمام مسلمانوں کو یہ بارو کرادیا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا مذہب ہوگا ، اللہ کا قانون ہوگا اور جو اس کا انکار یا اس کی مخالفت کرے گا وہ ہم سے لڑنے کے لیئے تیار ہوجائے ۔ یا پھر جزیہ دے ۔ دوسرے درجے کا شہری بن کر رہے ۔ اور یہ کہ یہود اور نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے سو ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا گناہَ کبیرہ ہے ۔ ان سے دوستی کرنے والے واجب القتل ہیں ۔ ۔۔۔۔ چلو یہ تو ہوگئی ایک بات ۔ سو اب یہود اور نصاری کو کیا کرنا چاہیئے ۔ جزیہ دیں ، اسلامی ریاست میں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہیں ، یا اپنے آپ کو آپ کے قدموں میں گراکر اپنی شکست تسلیم کر لیں ۔
پتا نہیں کس دنیا کے باسیوں کی طرح پوری دنیا پر قابض ہونی کی بات کی جاتی ہے ۔جب یہود اور نصاری جانتے ہیں کہ مسلمان ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔ اور ہمارے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بھی وہی محاذ کھول لیا جو ہمارے مذہبی حلقوں نے صدیوں سے کھولا ہوا ہے ۔ جب ان کو معلوم ہے کہ ہم انہیں کسی بھی طور نہیں بخشیں گے تو انہوں نے بھی ہمارے خلاف سازشوں اور محاذ آرائی کا بازار گرم کر لیا ۔ مسلمان طاقت حاصل کرکے اسپین اور سندھ تک پہنچ گئے ۔ اور ہم توقع کررہے ہیں کہ اب یہ لوگ ہم پر غالب ہیں تو شاید ہمارے ساتھ رعایت برتیں گے ۔ اور جس طرح آج ہم کو مفلوج کیا ہوا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کے ظلم ہم پر بہت ہی بھاری ہیں ۔ ان کا تدارک ہونا چاہیئے ۔ جہاد کی جو اصطلاح ہمارے طاقت کے دور میں جو تھی سو تھی ۔ مگر آج جب ہم پستی میں اس اصطلاح کو اس دور میں استعمال کر رہے ہیں تو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون ہماری آستینوں میں جذب ہو رہا ہے ۔ اور ہم اس پر بھی شرمندہ نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی ان خطوط پر سوچ رہے ہیں کس طرح یہ خون خرابے کا دور ختم ہو اور امن حاصل ہو کہ ہم کو سنبھلنے کا موقع مل سکے اور ہم اپنی ارسرِ نو پھر سے تعمیر کرسکیں ۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ ہم صرف اپنی توانائیاں کوا حرام ہے کہ نہیں پر صرف کر رہے ہیں ۔ یہ بات تو خاصی لمبی ہوگئی کہ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہود اور نصاری کے ساتھ تعلقات جب صرف اسی بنیاد پر ہونگے کہ ان کے ساتھ جنگ " جہاد" کیا جائے تو ہمیں ان سے کس ردعمل کی توقع کرنی چاہیئے ۔ ظاہر ہے دو ہی راستے رہتے ہیں ۔ سرینڈر ہوجائیں یا پھر وہ بھی ہماری مذہبی فریضے کی طرح خود بھی ہم سے جنگ اپنا مذہبی فریضہ بنا لیں ۔ سو سرینڈر تو ایک چھوٹی سی بستی بھی نہیں ہوتی ۔ اور جبکہ یہ تو انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ پاورفل قوم بن چکے ہیں ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ شاید ہی کسی قوم یا ملک نے اتنی ترقی یا طاقت آج سے پہلے ان سے زیادہ حاصل کی ہو ۔ لہذا یہ اپنے پورے وسائل کے ساتھ آج ہمارے خلاف میدان میں ہیں ۔ اور ہم کہاں ہیں یہ بھی ہم جانتے ہیں ۔ مگر ہم اپنی کاہلی اور نااہلیوں چھپاتے ہوئے کو ان کے ہر ردعمل کو ظلم کا نام دیکر حقیقت سے بڑی ہی بے شرمی سے آنکھیں چرا تے ہیں ۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو ، مگر آتی نہیں
 
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:

قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔

اتنی اچھی بات شیئر کرنے کا شکریہ
 
Top