فراق دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ - فراق

فرخ منظور

لائبریرین
دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ
خزاں میں صبحِ بہارِ چمن کی آنچ نہ پوچھ

فضا ہے دہکی ہوئی، رقص میں ہیں شعلہء گل
جہاں وہ شوخ ہے اس انجمن کی آنچ نہ پوچھ

قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیرِ پردہء ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ

کرن سی تیر گئی جس طرف وہ آنکھ اٹھی
نگاہِ شوخِ غزالِ ختن کی آنج نہ پوچھ

فضا میں برق سی رہ رہ کے کوند جاتی ہے
سکوت میں بھی کسی کے دہن کی آنچ نہ پوچھ

حجاب میں بھی اُسے دیکھنا قیامت ہے
نقاب میں بھی رخِ شعلہ زن کی آنچ نہ پوچھ

پیامِ زیرلبی پھونک دے نہ پردہء دل
کسی کی نرمیِ طرزِ سخن کی آنچ نہ پوچھ

لپک رہے ہیں ہیں وہ شعلے کہ ہونٹ جلتے ہیں
نہ پوچھ موجِ شرابِ کہن کی آنچ نہ پوچھ

یہ سوز و ساز نہ جنت میں ہے نہ دوزخ میں
دلوں میں کیا ہے نشاط و محن کی آنچ نہ پوچھ

دیے ہی جاتی ہے ترغیبِ جرم آدم کو
غضب ہے سوزِ دلِ اہرمن کی آنچ نہ پوچھ

نہیں ہے سہل ہم آہنگیِ بنی آدم
دلوں میں کشمکشِ ما و من کی آنچ نہ پوچھ

فراق آئینہ در آئینہ ہے حسُنِ نگار
صباحتِ چمن اندر چمن کی آنچ نہ پوچھ

××××× رگھوپتی سہائے فراق گھورکھپوری
 

مرک

محفلین
اپکی پوسٹ کی ہوئی شاعری سمجھنے کے لیئے مجھے کسی بڑے شاعر کی طرف رجوع کرنا چاہیئے:(
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرا خیال تھا کہ دیارِ غیر میں رہنے والے لوگوں کو یہ غزل کافی پسند آئے گی - لیکن لگتا ہے کسی دیارِ غیر میں رہنے والے کو وطن کی آنچ نہیں آتی - :confused:
 

مکی

معطل
ایسا نہیں ہے سخنور صاحب، میں غزل کے عنوان سے ہی متوجہ ہوکر یہاں تک پہنچا ہوں.. مجھے غزل کافی پسند آئی، دیارِ غیر میں رہنے والوں کو وطن کی آنچ ہمیشہ آتی رہتی ہے.. :(
 

فرحت کیانی

لائبریرین
دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ
خزاں میں صبحِ بہارِ چمن کی آنچ نہ پوچھ


وہ مصرعہ یاد آ گیا کہ
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

بہت بہت شکریہ سخنور! :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ
خزاں میں صبحِ بہارِ چمن کی آنچ نہ پوچھ

فضا ہے دہکی ہوئی، رقص میں ہیں شعلۂ گل
جہاں وہ شوخ ہے اس انجمن کی آنچ نہ پوچھ

قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیرِ پردۂ ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ

کرن سی تیر گئی جس طرف وہ آنکھ اٹھی
نگاہِ شوخِ غزالِ ختن کی آنچ نہ پوچھ

فضا میں برق سی رہ رہ کے کوند جاتی ہے
سکوت میں بھی کسی کے دہن کی آنچ نہ پوچھ

حجاب میں بھی اُسے دیکھنا قیامت ہے
نقاب میں بھی رخِ شعلہ زن کی آنچ نہ پوچھ

پیامِ زیرلبی پھونک دے نہ پردۂ دل
کسی کی نرمیِ طرزِ سخن کی آنچ نہ پوچھ

لپک رہے ہیں وہ شعلے کہ ہونٹ جلتے ہیں
نہ پوچھ موجِ شرابِ کہن کی آنچ نہ پوچھ

یہ سوز و ساز نہ جنت میں ہے نہ دوزخ میں
دلوں میں کیا ہے نشاط و محن کی آنچ نہ پوچھ

دیے ہی جاتی ہے ترغیبِ جرم آدم کو
غضب ہے سوزِ دلِ اہرمن کی آنچ نہ پوچھ

نہیں ہے سہل ہم آہنگیِ بنی آدم
دلوں میں کشمکشِ ما و من کی آنچ نہ پوچھ

فراق آئینہ در آئینہ ہے حسُنِ نگار
صباحتِ چمن اندر چمن کی آنچ نہ پوچھ

( رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری)
 
Top