افتخار عارف دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو - افتخار عارف

فرذوق احمد

محفلین
السلام علیکم
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آوں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مّتعتبر ٹھرے
گلل گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
وہ کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لحجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیور دل کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
شاعر : افتخار عارف
کتاب : مہرِ دونیم
------------------------------ کا ش کوئی ایسا ہوتا -----------------------------------------
----------------------------------------مگر افسوس -----------------------------------------------
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کہ رہے
میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے میرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ آپ سب خواتین و حضرات کا - معذرت کہ فردا" فردا" شکریہ ادا کرنا ذرا مشکل محسوس ہو رہا تھا - :)
 

نور وجدان

لائبریرین
حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سر قرئیہ زر جوہر پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
 
Top