دیار حسن میں تم لاجواب ہو جیسے

طالش طور

محفلین
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
یاسر شاہ
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

دیار حسن میں تم لاجواب ہو جیسے
کسی چمن کا شگفتہ گلاب ہو جیسے

ترے وجود کا وہ احترام ہے دل میں
کہ تُو وفا کی مقدس کتاب ہو جیسے

وہ تیری جھیل سی آنکھیں کہ جیسے مے خانے
چھلکتی ان میں ہمیشہ شراب ہو جیسے

رخِ حسین ترا دیکھ کر یہ لگتا ہے
کوئی عروسۂِ نو محو خواب ہو جیسے

وہ تیرے جسم کی حدت ہے نرم شعلوں سی
طلوع صبح کا تُو آفتاب ہو جیسے

تری ادائیں کہ معصومیت کا منبع ہیں
وہ تمکنت کہ رخِ ماہتاب ہو جیسے

تمھارے حسن و ادا کے علوم کیسے پڑھوں
کہ خال و خد میں نیا اک نصاب ہو جیسے

نکلتا دیکھ کے بادل سے چاند مُجھ کو لگے
تمھارے رخ پہ سرکتا نقاب ہو جیسے

تری تلاش میں دل میرا دے صدا ایسے
ندائے حسرتِ خانہ خراب ہو جیسے

سبھی نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے طالش
کہ مجھ غریب کا یومِ حساب ہو جیسے
 

عرفان سعید

محفلین
رخِ حسین ترا دیکھ کر یہ لگتا ہے
کوئی عروسۂِ نو محو خواب ہو جیسے

وہ تیرے جسم کی حدت ہے نرم شعلوں سی
طلوع صبح کا تُو آفتاب ہو جیسے

تری ادائیں کہ معصومیت کا منبع ہیں
وہ تمکنت کہ رخِ ماہتاب ہو جیسے

نکلتا دیکھ کے بادل سے چاند مُجھ کو لگے
تمھارے رخ پہ سرکتا نقاب ہو جیسے
کیا کہنے!
بہت خوبصورت رومانوی منظر کشی ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
طور صاحب السلام علیکم دو ایک باتوں کی نشاندہی کرتا چلوں۔

دیار حسن میں تم لاجواب ہو جیسے
کسی چمن کا شگفتہ گلاب ہو جیسے
ایک ردیف زائد ہے ۔بات اتنی کافی تھی :
"دیار حسن میں تم لاجواب ہو جیسے کسی چمن کا شگفتہ گلاب ہو"
نکلتا دیکھ کے بادل سے چاند مُجھ کو لگے
تمھارے رخ پہ سرکتا نقاب ہو جیسے
"نقاب" مستند شعرا نے بطور تانیث باندھا ہے۔لہذا "سرکتی" کر دیں۔
وہ تیرے جسم کی حدت ہے نرم شعلوں سی

طلوع شب کے سورج میں شعلے کہاں ہوتے ہیں ۔اسے "کرنوں" کر سکتے ہیں۔

نکلتا دیکھ کے بادل سے چاند مُجھ کولگے
تری تلاش میں دل میرا دے صدا ایسے
ان دو مصرعوں کی بندش سست ہو گئی ہے۔
 
Top