شاہد شاہنواز
لائبریرین
2012ء کی دو طویل غزلیں ہیں جن کی غلطیوں کی نشاندہی او ر اگر ہو سکے تو اصلاح کی درخواست کر رہا ہوں۔۔۔ جو اشعار ناقابل برداشت لگ رہے ہوں، ان کو بھی پہچاننا چاہتا ہوں۔۔
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب
دیا سمجھ کے گئے تھے وہ جب جلا کے مجھے
کسی نے مڑ کے بھی دیکھا نہ آزما کے مجھے
میں گردِ عشقِ خداوند کا اک ذرہ ہوں
سلام کرتے ہیں جھونکے سبھی ہوا کے مجھے
میں ایک سنگ تھا گر وہ مجھے گرا دیتا
میں آئینہ تھا اگر دیکھتا اٹھا کے مجھے
قبولیت کا یقیں مجھ کو گر نہیں ہوتا
حسین لفظ نہ لگتے مری دعا کے مجھے
انہیں یہ علم نہ تھا میں بھی ایک ہیرا ہوں
جو ایک سکہ سمجھ کر گئے چلا کے مجھے
یقین اپنے میں سارے وہیں پہ چھوڑ آیا
جہاں گمان ملے تیرے نقشِ پا کے مجھے
زمیں سے نیچے نہ تھے جو زمیں کے اوپر تھے
برے وہ لفظ لگے میری التجا کے مجھے
ہزاروں سال سے سویا ہوں اُن کو علم نہ تھا
جگانے آئے تھے جو لوگ گُدگُدا کے مجھے
جب ان کا کاٹ دیا سر تو میں بھی پچھتایا
بتا رہے تھے مطالب عدو وفا کے مجھے
میں کیا ہوں جان لیں تو برسوں تک نہ سو پائیں
ڈرا رہے تھے جو خنجر دِکھا دِکھا کے مجھے
میں چھوڑ آیا ترا شہر ، پر سبھی رستے
اُسی مقام پہ لائے گھما پھرا کے مجھے
غریب کر گئے کچھ لوگ راہِ الفت میں
عجیب منزلوں کا ایک شخص پا کے مجھے
عجیب وقت ہے شاہد کسی نے کم سمجھا
کسی نے پیش کیا ہے بڑھا چڑھا کے مجھے
اک کلی تھی جو کھل گئی ہے ابھی
زندگی مسکرا اٹھی ہے ابھی
زندگی مثل سنگ ساکن تھی
مثل باد صبا چلی ہے ابھی
راہ جس میں بہت اندھیرا تھا
مشعلوں سے بھری پڑی ہے ابھی
رنگ تھا یاس کا، اترنے لگا
دھول تھی، دھول اڑ رہی ہے ابھی
اس کی آنکھیں کھلیں تو ہم سمجھے
دور شمع کوئی جلی ہے ابھی
دیکھئے مان کر جئیں کہ مریں
اک نصیحت تو اس نے کی ہے ابھی
عشق سے ایک انسیت ہم کو
درد سے ایک دوستی ہے ابھی
جان لے کر بھی ان کے چہرے پر
اک قیامت کی سادگی ہے ابھی
جن کو شمع بھی چھو نہیں پائی
ان پتنگوں میں سرکشی ہے ابھی
میری منزل نہ بن سکی منزل
راہ بھی راہ دیکھتی ہے ابھی
ہم کو مرنا تھا، زندگی لیکن
اک مصیبت بنی کھڑی ہے ابھی
اس سے پہلے مرا نصیب نہ تھی
میری قسمت مجھے ملی ہے ابھی
جیسے کوئی مکان خالی ہو
شہنواز ایسی شاعری ہے ابھی۔۔۔
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب
دیا سمجھ کے گئے تھے وہ جب جلا کے مجھے
کسی نے مڑ کے بھی دیکھا نہ آزما کے مجھے
میں گردِ عشقِ خداوند کا اک ذرہ ہوں
سلام کرتے ہیں جھونکے سبھی ہوا کے مجھے
میں ایک سنگ تھا گر وہ مجھے گرا دیتا
میں آئینہ تھا اگر دیکھتا اٹھا کے مجھے
قبولیت کا یقیں مجھ کو گر نہیں ہوتا
حسین لفظ نہ لگتے مری دعا کے مجھے
انہیں یہ علم نہ تھا میں بھی ایک ہیرا ہوں
جو ایک سکہ سمجھ کر گئے چلا کے مجھے
یقین اپنے میں سارے وہیں پہ چھوڑ آیا
جہاں گمان ملے تیرے نقشِ پا کے مجھے
زمیں سے نیچے نہ تھے جو زمیں کے اوپر تھے
برے وہ لفظ لگے میری التجا کے مجھے
ہزاروں سال سے سویا ہوں اُن کو علم نہ تھا
جگانے آئے تھے جو لوگ گُدگُدا کے مجھے
جب ان کا کاٹ دیا سر تو میں بھی پچھتایا
بتا رہے تھے مطالب عدو وفا کے مجھے
میں کیا ہوں جان لیں تو برسوں تک نہ سو پائیں
ڈرا رہے تھے جو خنجر دِکھا دِکھا کے مجھے
میں چھوڑ آیا ترا شہر ، پر سبھی رستے
اُسی مقام پہ لائے گھما پھرا کے مجھے
غریب کر گئے کچھ لوگ راہِ الفت میں
عجیب منزلوں کا ایک شخص پا کے مجھے
عجیب وقت ہے شاہد کسی نے کم سمجھا
کسی نے پیش کیا ہے بڑھا چڑھا کے مجھے
اک کلی تھی جو کھل گئی ہے ابھی
زندگی مسکرا اٹھی ہے ابھی
زندگی مثل سنگ ساکن تھی
مثل باد صبا چلی ہے ابھی
راہ جس میں بہت اندھیرا تھا
مشعلوں سے بھری پڑی ہے ابھی
رنگ تھا یاس کا، اترنے لگا
دھول تھی، دھول اڑ رہی ہے ابھی
اس کی آنکھیں کھلیں تو ہم سمجھے
دور شمع کوئی جلی ہے ابھی
دیکھئے مان کر جئیں کہ مریں
اک نصیحت تو اس نے کی ہے ابھی
عشق سے ایک انسیت ہم کو
درد سے ایک دوستی ہے ابھی
جان لے کر بھی ان کے چہرے پر
اک قیامت کی سادگی ہے ابھی
جن کو شمع بھی چھو نہیں پائی
ان پتنگوں میں سرکشی ہے ابھی
میری منزل نہ بن سکی منزل
راہ بھی راہ دیکھتی ہے ابھی
ہم کو مرنا تھا، زندگی لیکن
اک مصیبت بنی کھڑی ہے ابھی
اس سے پہلے مرا نصیب نہ تھی
میری قسمت مجھے ملی ہے ابھی
جیسے کوئی مکان خالی ہو
شہنواز ایسی شاعری ہے ابھی۔۔۔