فرخ منظور
لائبریرین
دیدنی
میری پلکوں کو مت دیکھو
اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے
میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے
میرے چہرے کو مت دیکھو
اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے
اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں
اُس سینے سے لو نہ لگاؤ جس کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں
اب میرے قاتل کو چاہو
میرا قاتل مرہم مرہم، دریا دریا، ساحل ساحل
قاضیِ شہر کا ماتھا چومو
جس کے قلم میں زہرِ ہلاہل، جس کے سخن میں لحنِ سلاسل
اب اُس رقص کی دھُن پر ناچو
جس کی گَت پر لُٹ گیا قاضی، جس کے لَے پر بِک گیا قاضی
کراچی، 21 مئی 70
(مصطفیٰ زیدی)
میری پلکوں کو مت دیکھو
اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے
میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے
میرے چہرے کو مت دیکھو
اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے
اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں
اُس سینے سے لو نہ لگاؤ جس کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں
اب میرے قاتل کو چاہو
میرا قاتل مرہم مرہم، دریا دریا، ساحل ساحل
قاضیِ شہر کا ماتھا چومو
جس کے قلم میں زہرِ ہلاہل، جس کے سخن میں لحنِ سلاسل
اب اُس رقص کی دھُن پر ناچو
جس کی گَت پر لُٹ گیا قاضی، جس کے لَے پر بِک گیا قاضی
کراچی، 21 مئی 70
(مصطفیٰ زیدی)