یاسر شاہ
محفلین
ایک دوکان کے باہر لکھا دیکھا " ہر طرح کے دیدہ زیب برقعے یہاں دستیاب ہیں " تو سوچ میں پڑ گیا کہ برقعہ تو پردے کے لئے تھا اور پردے کی علّت ہے اپنی زینت چھپانا -یہ کیا کہ برقعہ ہی سراپا زینت بنا دیا جائے - پردہ تو اس لئے ہے تاکہ کوئی مستورہ اگر بضرورت باہر نکلے تو لائقِ التفات اور باعثِ کشش نہ ٹھہرے' تاکہ جو زیب ہے وہ دیدوں سے چھپا رہے نہ کہ پردے ہی کو دیدہ زیب کر دیا جائے -گویا مستورہ نہ ہوئی داغ کی محبوبہ ہوگئی :
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
لہٰذا دیدہ زیب برقعوں کا عجب کرشمہ دیکھا کہ لوگ بےپردہ خواتین کو چھوڑ کر برقعہ پوشوں کو دیکھنے لگے ہیں -دیکھتے بھی کیا ہیں تاڑتے ہیں جیسے یہ دیکھنے ہی کی چیز ہوں -
پچھلے دنوں ہمارے دفتر کے ڈپٹی چیف ایک سلسلۂ گفتگو میں کہنے لگے :"یار میزان بینک والوں کا انتظام بہت اچھا ہے -صاف ستھرا ماحول -ہر چیز پریزنٹ ایبل (presentable)-عملے کی خواتین بھی پردے میں تھیں مگر چہرہ کھلا ہوا......... " ابھی ان کی بات پوری نہ ہو پائی تھی کہ میں نے لقمہ دیا :".....اور سارے چھاڑ یں باز (نظر باز )وہیں دیکھ رہے ہونگے ؟" سب نے قہقہہ لگایا -ایک مسخرے نے تو جلتی پہ تیل بھی چھڑکا "سر ! آپ کو چھاڑ یں باز کہہ رہا ہے -"
میں نے بھی صفائی پیش کرنے کی بجائے فورا موضو ع بدلا :"سر کل رات میں بن کباب لے رہا تھا- بن کباب والا بن کم بنا رہا تھا اور ایک جانب ٹکٹکی باندھے زیادہ دیکھ رہا تھا -جب میں نے تجسّس میں اس کی نگاہ کا پیچھا کیا تو ایک دیدہ زیب برقعہ نظر آیا -میری نظر بھی کچھ لمحے وہیں ٹک سی گئی-برقعہ تھا کہ تاروں کی بارات -نقاب کی تراش ایسی کہ جبیں نمایاں ہو رہی تھی اور کچھ یوں' گویا مہینے کا نیا چاند- پھر برقعے کی فٹنگ ایسی کہ خالقِ شعر "صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے- کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے؟ "کو جواب مل رہا ہو"
ڈپٹی صاحب پہلے تو کچھ سوچنے لگے پھر جلے بھنے تو تھے ہی فورا پھٹ پڑے :"مولانا اسلام کیا یہی سکھاتا ہے کہ آدمی میلا کچیلا گندا رہے-کیا پریزنٹ ایبل(presentable) ہونا حرام ہے ؟'' -"نہیں سر اسلام تو صفائی ستھرائی کو پسند کرتا ہے مگر ساتھ ساتھ غیرت اور حمیّت کا بھی درس دیتا ہے -عورت اپنے مرد کے لئے پریزنٹ ایبل ہو اور مرد اپنی عورت کے لئے -"
وہی مسخرے صاحب بولے آخر باس کی خوشامد بھی تو کرنی تھی :"تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا پرانے زمانے کا جالی والا برقعہ پہنایا جائے عورتوں کو "- "ہاں تو اس میں حرج ہی کیا ہے -ان برقعوں سے تو لاکھ درجہ اچھا ہے -کوئی پہنے تو پتہ ہی نہیں چلتا جوان ہے کہ بوڑھی 'پتلی ہے کہ موٹی -آخر پردہ بھی تو اللہ جل جلالہ کے لئے کرنا ہے تو کیوں نہ ڈھنگ سے کیا جائے - "خیر میں نے تو صاف بات کہہ دی -ہنسنے والے ہنسے 'فقرے کسنے والوں نے فقرے کسے-
بعد میں تادیر سوچتا رہا کہ یہ "پریزنٹ ایبل (presentable)ہونا "بھی عجب اصطلاح ہے -اردو میں اس سے مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ انسان کو خصوصاً عورت کو پیشکش بنا دیا جائے -میری میری نہ ہو 'تیری تیری نہ ہو سب کی ہو اور ذرا سبکی نہ ہو -یہ ہے تہذیب نو اور نئی روشنی -
بہر کیف میرا گمان غالب ہے کہ ان دیدہ زیب برقعوں کی ایجاد اور تخلیق میں کسی مرد کا دماغ ہی کارفرما ہوگا - مشہور مقولہ ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے - اسی مقولے کا ایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ عورت کی رسوائی میں اکثر کسی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے جو شہر کے شرفاء میں بھی شمار ہورہا ہوتا ہے - گویا عورت خود تو رسوا ہوئی مگر مرد کو دنیوی کامیابی سے ہمکنار کر گئی -
ربط:
شاہِ سخن
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
لہٰذا دیدہ زیب برقعوں کا عجب کرشمہ دیکھا کہ لوگ بےپردہ خواتین کو چھوڑ کر برقعہ پوشوں کو دیکھنے لگے ہیں -دیکھتے بھی کیا ہیں تاڑتے ہیں جیسے یہ دیکھنے ہی کی چیز ہوں -
پچھلے دنوں ہمارے دفتر کے ڈپٹی چیف ایک سلسلۂ گفتگو میں کہنے لگے :"یار میزان بینک والوں کا انتظام بہت اچھا ہے -صاف ستھرا ماحول -ہر چیز پریزنٹ ایبل (presentable)-عملے کی خواتین بھی پردے میں تھیں مگر چہرہ کھلا ہوا......... " ابھی ان کی بات پوری نہ ہو پائی تھی کہ میں نے لقمہ دیا :".....اور سارے چھاڑ یں باز (نظر باز )وہیں دیکھ رہے ہونگے ؟" سب نے قہقہہ لگایا -ایک مسخرے نے تو جلتی پہ تیل بھی چھڑکا "سر ! آپ کو چھاڑ یں باز کہہ رہا ہے -"
میں نے بھی صفائی پیش کرنے کی بجائے فورا موضو ع بدلا :"سر کل رات میں بن کباب لے رہا تھا- بن کباب والا بن کم بنا رہا تھا اور ایک جانب ٹکٹکی باندھے زیادہ دیکھ رہا تھا -جب میں نے تجسّس میں اس کی نگاہ کا پیچھا کیا تو ایک دیدہ زیب برقعہ نظر آیا -میری نظر بھی کچھ لمحے وہیں ٹک سی گئی-برقعہ تھا کہ تاروں کی بارات -نقاب کی تراش ایسی کہ جبیں نمایاں ہو رہی تھی اور کچھ یوں' گویا مہینے کا نیا چاند- پھر برقعے کی فٹنگ ایسی کہ خالقِ شعر "صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے- کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے؟ "کو جواب مل رہا ہو"
ڈپٹی صاحب پہلے تو کچھ سوچنے لگے پھر جلے بھنے تو تھے ہی فورا پھٹ پڑے :"مولانا اسلام کیا یہی سکھاتا ہے کہ آدمی میلا کچیلا گندا رہے-کیا پریزنٹ ایبل(presentable) ہونا حرام ہے ؟'' -"نہیں سر اسلام تو صفائی ستھرائی کو پسند کرتا ہے مگر ساتھ ساتھ غیرت اور حمیّت کا بھی درس دیتا ہے -عورت اپنے مرد کے لئے پریزنٹ ایبل ہو اور مرد اپنی عورت کے لئے -"
وہی مسخرے صاحب بولے آخر باس کی خوشامد بھی تو کرنی تھی :"تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا پرانے زمانے کا جالی والا برقعہ پہنایا جائے عورتوں کو "- "ہاں تو اس میں حرج ہی کیا ہے -ان برقعوں سے تو لاکھ درجہ اچھا ہے -کوئی پہنے تو پتہ ہی نہیں چلتا جوان ہے کہ بوڑھی 'پتلی ہے کہ موٹی -آخر پردہ بھی تو اللہ جل جلالہ کے لئے کرنا ہے تو کیوں نہ ڈھنگ سے کیا جائے - "خیر میں نے تو صاف بات کہہ دی -ہنسنے والے ہنسے 'فقرے کسنے والوں نے فقرے کسے-
بعد میں تادیر سوچتا رہا کہ یہ "پریزنٹ ایبل (presentable)ہونا "بھی عجب اصطلاح ہے -اردو میں اس سے مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ انسان کو خصوصاً عورت کو پیشکش بنا دیا جائے -میری میری نہ ہو 'تیری تیری نہ ہو سب کی ہو اور ذرا سبکی نہ ہو -یہ ہے تہذیب نو اور نئی روشنی -
بہر کیف میرا گمان غالب ہے کہ ان دیدہ زیب برقعوں کی ایجاد اور تخلیق میں کسی مرد کا دماغ ہی کارفرما ہوگا - مشہور مقولہ ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے - اسی مقولے کا ایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ عورت کی رسوائی میں اکثر کسی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے جو شہر کے شرفاء میں بھی شمار ہورہا ہوتا ہے - گویا عورت خود تو رسوا ہوئی مگر مرد کو دنیوی کامیابی سے ہمکنار کر گئی -
ربط:
شاہِ سخن