نور وجدان
لائبریرین
عشق کیا ہے؟
کیا آسان ہے؟
یہ تن آسانی کا سوگ ہے
یہ بے سروسامانی کا عالم ہے
یہ حَیا کی تقدیس ہے
جیسے دلوں میں اترتی تمجید ہو
عشق بس اک کلمہ ہے؟
عشق کی عین میں کیا اسرار ہے؟
عین سے عشق، عین سے دید، عین سے لا اور عین سے الا اللہ کا سفر
عین نفی اثبات کا سفر ہے
جب اللہ کو واحد مانا گیا تو
ملائک نے عرضی پیش کی
" انسان تو خود رولا سیاپا ہے"
مگر فرمایا گیا
"وجہِ بشر تخلیق کون ہے؟
وجہِ منظر نوید کون ہے؟
کس کے واسطے مشّکل ہوا؟
کائنات کی آیات سے اظہار کا سلسلہ!
لا کے واسطے سجائی گئی کائنات
الا اللہ سے بنائی گئی کائنات
میم کی مثال کوئی نہیں ہے"
خُدا نے چاہا کہ وہ خود کو دیکھے
لاکھ آئنے ہوئے، کامل اک ہوا
عشق نے ہر آئنے میں تھا جھانکا
کچھ دھندلائے کچھ دھندلائے سے
کچھ شفاف شفاف سے،
کچھ نور علی النور کی مثال
جس آئنے نے جھلک المصور کی پائی
تو لگ لگئی لگن کی بازی
جلی جس سے دل کی وادی
دیکھنے دکھانے کا سلسلہ جاری!
عہد کن کا وقت تھا! دید کا موقع تھا
فلک پر جب سب نے کہا
ہم نے مانا! خدا کو مانا.
ہم نے جانا! انبیاء کی تقدیس کو ..
ہم نے پہچانا، محمد کی میم کو
سب گنگ زبان میں ہم کلام تھے
جو بول رہا تھا، وہی سن رہا تھا
بس اک بازگشت تھی
بس اک صدائے کن تھی
وہ بازگشت بھی آئنہ تھی
"
خاک کی جستجو ہے صدائے کن
گونجی ہے کو بہ کو صدائے کن
ماننے سے ہوا یقین کا سفر
خاک کے پتلے میں صور کی پھونک
قم باذن کی صدا
اقراء بسم ربک الذی خلق
دید کرکے، قلم.بنائے گئے
الذی علم بالقلم
قلم نے لوح مبین کی کنجی بتلائی
خدا کی ہستی کی باتیں دکھائیں
علم الا نسان ما لم یعلم
اقرا وربک الاکرم
کرم تھا نا، ورنہ مارے جاتے
لفی خُسر میں گرائے جاتے
اس نے سکھایا قلم سے ہر ذات کو
آئنے نے یوں آئنے کو جانا
جس نے اسکو دیکھا
اسکی تن کی لاگی لگی ایسی کہ نہ بجھی
دید ہوئی اسکی مگر
لا الہ الا اللہ مکمل نہ تھا
اک سفر درپیش رہا
انبیاء سے انبیاء تلک
جزو سے کل تلک.
کلمہ اور نقطے تلک کا سفر
نور علی النور کی مثل
نقطہ نور سے بھرتا رہا
نقطہ مکمل ہوگیا تھا
لا الہ الا اللہ کی مکمل تمجید
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
محمد جو عالم کی کائنات ہیں
ہر دل میں رسالت پر تعینات ہیں
جب نقطہ ان انوارات سے مکمل ہوگیا
تو خاک نے صدا سنی
ھو المصور
وہ خاص قلم ... .
جن کے ہم امتی
جن کے لیے یہ آوازہ اٹھا
ورفعنا لک ذکرک
جن کے لیے کہا ...
سنقرئک فلا تنسی
ما ودعک ربک، وما قلی
تسلی، دلاسہ دیا گیا
آسانی کی گئی ...
تسکین دی گئی ...
فان مع العسر یسری
یہ ندا بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی
رہ حیات طویل رہی اور یقین کے سفر میں یقین کے عالی پیکر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عاجز رہے ...
سیہ بدلی میں معجز نور پوشیدہ تھا
طٰہ تو خشیت مارے گھبرا کے کملی میں رہے اکثر
اور پھر فرمایا گیا
وجاء الحق
وذھق الباطل سے الیوم اکملت تلک سب نے دیکھا
تکلیف سہی گئی
درد کو سب سے لیا گیا
سب کو شیریں محبت دی گئی
درود کی تقسیم تھی ...
اللہ نے کہا محبوب کی محبت کی قسم
فاذکرونی اذکرکم ... محبوب کی محبت خدا نے بانٹی
ہم نازاں ہوئے کہ ان کے امتی ہیں
عشق کی شرحیں جب کھلیں تو ہم نے دیکھا
یتیمی کا دکھ ...
تنہائی کا غم ...
قربانی سے کام چلتا رہا
جب بوطالب نے کہا کہ "رک جاؤ"
تب قسمیں کھائیں گئیں چاند اور سورج کی
یہ یقین کی قسمیں، یہ ایمان پر گواہی ...
عشق کا کلمہ شروع ہوا زبانی
شعب کی گھاٹی اور تنگی کا عالم
بھوک سے، پیاس سے بے چینی کا عالم
دیمک نے سب کھالیا جب،
اللہ تو باقی رہا تھا!
اللہ ہی باقی ہے
گریہ دیکھا؟
سب خاموشی سے سہا گیا
جدائی کا غم
محبوب بیوی کا
محبوب چچا کا
عالم الحزن رکھا گیا نام
اور وہ عالی مرتبت دل میں رہے مثبّت
اللہ کافی ہے! اللہ کافی! اللہ کافی!
انسان آیا اکیلا اور جانا بھی اکیلا ہے
یہ عشق تھا جب خندق کی زمین میں
پتھر چار چار اٹھاتے رہے
دو دو پتھر پیٹ پر باندھتے رہے ...
بھوک پیاس سے اک بار پھر آزمایا گیا ...
پائے مضبوط میں شکن نہ تھی
قدم ایسے کہ کشتیاں جلا دی جائیں ...
امید پہ قائم سویرے کی...
طائف کا وہ منظر!
ہائے وہ خون کا زمین تک بہنا
وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھنا ...
وہ سراپا دعا
وہ سراپا دعا ان کے لیے جو تھے قابل بددعا
اشک آنکھوں میں،
راتوں کو جاگ جاگ کے دعا مانگنا
یہی تو عشق تھا!
نہ دیکھا گیا خود کو
بس جو خدا نے بشر میں دیکھا
بشر نے اسکو دیکھا جانا اور پہچانا ...
جذبات ہوئے بہت مگر خدا کی رہ میں جذبات کی بڑی قربانی دی
وہ تخلیق ... خالق کی محبوب ترین ... ..
ہاں اس عشق سے بڑھ کے جب چاقو چلا تھا گردن پر ...
ادھر نواسہ ء رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نوک سناں سر کٹایا گیا
ہاں اس عشق سے بڑھ کے جو گریہ ء یعقوب کا سبب رہا ...
کامل ہوش میں جدائی کو سہا اور تڑپ کو سینے میں چھپادیا گیا ...
کہاں بھول سکے تھے محبوب ترین بیوی کو ...
ہاں، اس عشق سے بڑھ کے عیسی نے پتھروں میں نعرہ خدا لگایا ...
بھوک پیاس، تنگی کی بات الگ .
طائف میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا گیا
ہاں! اس استقلال سے بڑھ کے، جو نوح علیہ سلام نے دکھائی بآلاخر بددعا کو ہاتھ اٹھ گئے
یہاں نسلوں کے بار تک اٹھائے گئے
رت جگوں میں الغفور سے تار ملائے گئے ...
یہ عشق تھا جس کو ہوش کی نماز میں ادا کیا گیا
یہ دیوانگی تھی، جس میں جنون کی پردہ دری کی گئی
یہ دید کا مقام تھا