کاشفی
محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی
دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
تاروں کی چھاؤں ہے، در آ میرے دلِ خراب میں
کس سے کہوں میں داستاں طولِ شب فراق کی
جاگ رہا ہوں ایک میں، سارا جہاں ہے خواب میں
اُس سے ڈرو وہ فتنہء بزمِ حیات جسے
شیب میںتابِ مے نہ ہو، عشق نہ ہو شباب میں
عرش سے آئی یہ صدا، بخش دئے ترے گناہ
یاد کیا کسی کو یوں کل شبِ ماہتاب میں
یوں تو حریمِ ناز میں کتنے ہی دل ہوئے تھے پیش
حُکمِ شکستگی ہوا میرے ہی دل کے باب میں
مضطر و بیقرار ہوں جوش وہ خود مرے لئے
کاش اک ایسی رَو بھی ہو دہر کے انقلاب میں
تاروں کی چھاؤں ہے، در آ میرے دلِ خراب میں
کس سے کہوں میں داستاں طولِ شب فراق کی
جاگ رہا ہوں ایک میں، سارا جہاں ہے خواب میں
اُس سے ڈرو وہ فتنہء بزمِ حیات جسے
شیب میںتابِ مے نہ ہو، عشق نہ ہو شباب میں
عرش سے آئی یہ صدا، بخش دئے ترے گناہ
یاد کیا کسی کو یوں کل شبِ ماہتاب میں
یوں تو حریمِ ناز میں کتنے ہی دل ہوئے تھے پیش
حُکمِ شکستگی ہوا میرے ہی دل کے باب میں
مضطر و بیقرار ہوں جوش وہ خود مرے لئے
کاش اک ایسی رَو بھی ہو دہر کے انقلاب میں