ش زاد
محفلین
دیر لگتی ہے کہاں خاک کو پتھر ہوتے
وقت کو ٹھیرتے اور آنکھ کو منظر ہوتے
دیکھتے ہم بھی ہواؤں کے نگر کے اس پار
ہم بھی آوارہ صِفت کاش کہ بے گھر ہوتے
ہم بھی چُھو آتے سبھی چاند ، ستارے ، سورج
کاش تجسیم کی اس قید سے باہر ہوتے
خوب غزلوں میں ترے عشق کے چرچے کرتے
میر و غالب کی طرح ہم جو سُخنور ہوتے
آئینہ بن کے ترے سامنے آتے پہلے
اور پھِر خوُد ہی ترے ہاتھ میں پتھر ہوتے
عشق کو کوئی دوا کوئی دُعا راس نہیں
اس کے بیمار کو دیکھا نہیں بہتر ہوتے
ش زاد
وقت کو ٹھیرتے اور آنکھ کو منظر ہوتے
دیکھتے ہم بھی ہواؤں کے نگر کے اس پار
ہم بھی آوارہ صِفت کاش کہ بے گھر ہوتے
ہم بھی چُھو آتے سبھی چاند ، ستارے ، سورج
کاش تجسیم کی اس قید سے باہر ہوتے
خوب غزلوں میں ترے عشق کے چرچے کرتے
میر و غالب کی طرح ہم جو سُخنور ہوتے
آئینہ بن کے ترے سامنے آتے پہلے
اور پھِر خوُد ہی ترے ہاتھ میں پتھر ہوتے
عشق کو کوئی دوا کوئی دُعا راس نہیں
اس کے بیمار کو دیکھا نہیں بہتر ہوتے
ش زاد