ناصر علی مرزا
معطل
تحریر خالدرحمٰن
پاکستانی معاشرہ کی عظیم اکثریت (۹۷فیصد) مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اور کسی بھی انسانی معاشرے کی طرح یہاں بھی لوگوں کی دینی ضروریات، عبادات کی ادائیگی، مذہبی تعلیم اور روزمرہ امور میں دینی راہنمائی کےکسی نہ کسی نظام کی موجودگی ناگزیر ہے۔ مدارس ومساجد اس ضرورت کو پورا کرتےہیں۔ یوں مدارس میں تبدیلی کی بحث کےضمن میں اس اہم ترین حقیقت کا ادراک ضروری ہےکہ بنیادی طورپر ان کا قیام معاشرے کی بعض اہم اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنےکےلیےعمل میں آتا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر ان ضروریات کو پورا کرنےکا ایسا نظام قائم ہو جس پر عام مسلمان کو اطمینان اور اعتماد بھی ہو اور اس تک ان کی رسائی بھی ممکن ہو تونجی طور پر مدارس کےقیام کی ضرورت خودبخود ختم ہو جائےگی۔
چنانچہ یہ سیدھا سادہ، طلب اور رسد کا معاملہ ہے۔ طلب موجود ہے۔ ہر نئی قائم ہونےوالی بستی میں ہےاور ملک کےہر علاقے میں ہے۔ محض ان علاقوں میں ہی نہیں جودینی رجحانات کےحوالہ سےمضبوط تر سمجھےجاتےہیں بلکہ وہاں بھی جہاں عمومی طور پر دینی رجحانات نسبتاً کم نمایاں ہیں۔ معاشرے کےان طبقات میں سےبھی، جوبظاہر آزاد خیال اورلبرل سمجھےجاتےہیں ایک بڑی تعداد اپنےبچوں کےلیےکم ازکم بنیادی دینی تعلیم (قرآن پڑھنےکی صلاحیت) کا انتظام کرنا چاہتی ہے۔ اس ہمہ گیر طلب کےمقابلہ میں حکومت نےعمومی طور پر جو تعلیمی نظام ترتیب دیا ہے وہ مقدار اور معیار کےاعتبار سےکسی بھی طرح معاشرہ کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ مسلم معاشرے کی کم ازکم دینی ضرورت قرآن کی تدریس کا تو اس میں کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں جہاں عمومی تعلیم کےلیےنجی تعلیمی اداروں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہےوہاں اس پرکسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیےکہ دینی تعلیم کےادارے بھی دن بدن بڑھتےجا رہےہیں اور ان میں سےاچھےاداروں میں داخلوں کےلیےدباؤ اس طرح بڑھ رہا ہے کہ اب بہت سےادارے داخلہ کےلیے باقاعدہ امتحانات منعقد کرتےہیں۔
طلب اور رسد کا یہی اصول مدارس کی داخلی صورتحال پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ معاشرےمیں عمومی رجحانات کی روشنی میں مدارس سےتوقعات اگر محض دینی تعلیم کی فراہمی تک محدود ہیں تو کسی بیرونی دباؤ کےذریعہ مدارس کو اس کےعلاوہ کسی اور کام پر مجبورنہ کیا جا سکےگا۔ نہ ہی معاشرےمیں ا س عمل کو عمومی قبولیت حاصل ہو سکےگی کہ مدرسہ اپنی شناخت کو اس طرح تبدیل کر دےکہ دینی تعلیمی شناخت پس پشت چلی جائے۔ البتہ حالات و واقعات کی روشنی میں معاشرےکی توقعات میں تبدیلی واقع ہو جائےاور اپنےبنیادی مقصد،یعنی دینی تعلیم اور اس حوالہ سےدینی تعلیمی شناخت۔۔ کو متاثر کیےبغیر دینی اور عمومی تعلیم کےامتزاج اور مختلف سماجی و اقتصادی دائروںمیںان سےکسی وسیع کردارکی امید رکھی جا رہی ہو تو طلب و رسد کےاسی اصول کی بناء پر مدارس اپنےآپ کو تبدیل کرنےپر مجبور ہوں گے۔ خواہ اس سلسلہ میں بیرونی طور پر ان پر کوئی دباؤ ہویا نہ ہو۔ بلکہ اگر یوں کہا جائےتو غلط نہ ہو گا کہ اس صورت میں وہ بیرونی تعاون کےحصول کےلیےفکرمند ہوں گےتاوقتیکہ اس بیرونی تعاون کےحصول کےساتھ کوئی مخصوص شرائط وابستہ نہ ہوں اور تعاون کرنےوالےافراد اور اداروںسےانہیں کوئی خدشات لاحق نہ ہوں۔
طلب و رسد کےپس منظر میں مدارس میں داخلی طور پر تبدیلی کا ایک اورعمل اس تناظر میںہےکہ مختلف شعبوں میں راہنمائی کےحصول کےلیے مدارس سےعام لوگوں کارابطہ کن امور پر ہےاور ا ن کی سرپرستی کرنےوالےافراد کی ان سےتوقعات کیا ہیں۔ اس ضمن میںیہ بات پیش نظر رہنی چاہیےکہ مدارس سےعام لوگوں کا رابطہ اب محض روزمرہ فقہی معاملات تک محدود نہیں بلکہ ایک جانب پیشہ ورانہ امور، مثلاً بنکاری، بیمہ کاری، اور دیگر حوالوں سےاسلامی قوانین کےبارےمیں استفسارات ہوتےہیں، دوسری جانب بیرونی ممالک میں پاکستانیوںکی بڑی تعداد کی موجودگی اور ان کی نئی نسلوں کی وہیں پر پرورش،اقلیتی معاشرےمیں اسلامی زندگی کےمسائل پر راہنمائی کی طالب ہوتی ہے۔ نیز نئی نئی ایجادات کےحوالہ سےپیدا ہونےوالےسوالات پر بھی لوگ ان سےراہنمائی کےطالب ہوتےہیں۔
چنانچہ راہنمائی کی یہ طلب اب محض اس محلہ یا علاقہ تک محدود نہیں جہاں مدرسہ واقع ہےبلکہ دوسرےملکو ں اور معاشروںتک پھیلی ہوئی ہے۔ ایسےمیں فطری طورپروہ مدارس جن سےاس ضمن میں رجوع کیا جاتا ہےاپنےآپ کو اس راہنمائی کےلیےتیار کرنےمیں دلچسپی رکھتےہیں۔ گلوبلائزیشن اور زندگی کےمختلف دائروں میں میڈیا کےبڑھتےہوئےاثرات نےبھی انہیں مجبور کیا ہےکہ وہ اپنےآپ کو محدود رکھنےکی بجائےوسیع تر دائرےمیں متحرک کریں اور نئےنئےآنےوالےسوالات کا سامنا کرنےکےلیےاپنےآپ کو تیار کریں۔ اس ضمن میںان بیرون ملک پاکستانیوں نےبھی ایک اہم کردار ادا کیا ہےجو مدارس کےساتھ مالی تعاون اور سرپرستی کرتےہیں۔ اپنےاپنےعلاقوں میں ان میں سےبہت سوں کی دلچسپی محض مدرسہ کےقیام کی حد تک ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسےجدید تقاضوں سےہم آہنگ کرنےمیں بھی دلچسپی رکھتےہیں۔
اس اعتبار سےدیکھا جائےتو بیرونی دباؤ کی مزاحمت کےباوجود ان مذکورہ عوامل کی بناء پر مدارس میں تبدیلی کےحوالہ سےایک فطری عمل جاری ہے۔ تبدیلی کےلیےاجتماعی فیصلوں کی رفتار سست ہےتاہم تبدیلی کا ایک عمل اس فکر اور طرزعمل کی بناء پر جاری ہےجو قائدانہ حیثیت کےمالک مدارس اورعلماء اپنےاپنےانفرادی دائروں میں اختیار کرتےہیں۔
مدارس کی تاریخ ،ان کی ساخت اور ان کےاندرونی نظام پر سرسری نگاہ ڈالنےسےیہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ ہر مدرسہ بنیادی طورپر اپنی جگہ ایک خودمختار ادارہ ہوتا ہےجس کی شناخت اس کےبانی ( اوراس کی جانشین قیادت) کےساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اب سےکچھ عرصہ قبل تک نظام ونصاب کےمعاملہ میں مدارس وفاق کےتحت کسی باہم مربوط نظام کےبجائےمادرعلمی کےنظام و نصاب کو اختیار کرتےتھے(وفاق المدارس العربیہ تأسیس ۱۹۵۹ء،تنظیم المدارس پاکستان تأسیس۱۹۶۰ء اورنشاۃ ثانیہ جنوری ۱۹۷۴ء،وفاق المدارس الشیعہ ۵۰ کی دہائی سےکام کر رہا ہےلیکن باقاعدہ رجسٹریشن ۱۹۸۳ء میں ہوئی۔رابطۃالمدارس الاسلامیہ نے۱۹۸۳ء میںکام کا آغاز کیا۔ وفاق المدارس السلفیہ نے۱۹۷۸ء میں آغاز کیا اور ۱۹۸۳ء میں رجسٹرڈ ہوئی)۔
گو انفرادی طورپر مدرسہ کی شناخت کا تعلق اب بھی بانی مدرسہ اور اس کی جانشین قیادت کےساتھ وابستہ ہےلیکن سیاسی ،سماجی اور ابلاغی دائروں میں اسلامی فکر،اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کےحوالہ سےجاری نظریاتی وعملی کشمکش نےمعاشرےمیں جس نوعیت کی تقسیم پیدا کی ہےاس نےمدارس کو باہم قریب تر کر دیا ہے۔ ان مسلسل تبدیل ہوتےہوئےحالات کےتحت اب تمام ہی مسالک کےمدارس اپنےاپنےوفاق کےنظام و نصاب کےساتھ جڑےہوئےہیں۔ وفاق کےطےکردہ نظام و نصاب میں اضافہ تو کوئی مدرسہ اپنےذمہ داران کےفیصلوں کےمطابق کر سکتا ہےلیکن اس نصاب میں کمی یا کسی جوہری تبدیلی کی صورت میں اس کی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ یوں اب مدرسہ کی شناخت وفاق کےساتھ بھی منسلک ہوگئی ہے۔
اس سےبھی بڑھ کر تبدیلی کا ایک اور رُخ یہ ہےکہ حکومتی دباؤ اور عالمی سطح پر غیر معمولی دلچسپی نے(جو اکثر صورتوں میں اضافی دباؤ کا سبب ہے) علیحدہ علیحدہ مسلک کی بنیا دپرقائم مدارس کےپانچ وفاقوں کو بھی باہم مربوط کر دیا ہے۔ چنانچہ اب ایک نیا ادارہ ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ وجود میں آ گیا ہے۔ اس وقت تک اس ادارہ کا کام حکومت سےمذا کرات میں مشترکہ موقف اور حکمت عملی اختیار کرنا ہےتاہم اس عمل میں وفاق ایک دوسرےسےقریب تر آ رہےہیں۔ فطری طور پر اس قربت کےغیر محسوس اثرات ان کےنظام ونصاب پر بھی پڑیںگے۔
اس حقیقت کا اندازہ اس سےکیا جا سکتا ہےکہ خود اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کی جانب سےمذا کرات کےعمل میں حکومت کو یہ تجویز دی گئی کہ آغاخان تعلیمی بورڈ کی طرح دینی مدارس کےتعلیمی امتحانات کےنظام کو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائےیا پھر دینی مدارس کےوفاقوں کےنظام امتحانات کو مربوط اور یکساں معیار پر رکھنےکےلیےحکومتی سطح پر کوئی نگران بورڈ قائم کیا جائے۔ مرکزی حکومت یہ تجویز اصولی طورپر منظورکر چکی ہے،تاہم ’’انٹرمدرسہ بورڈ‘‘ کا قیام ابھی تک عمل میںنہیں آ سکا۔ اس فیصلہ کےمطابق چےئرمین اور وائس چیئرمین سمیت اس بورڈ کےکل سات ارکان ہوں گے،جن میںوائس چےئرمین اور دو ارکان اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کےنامزدکردہ ہوںگے۔ تین ارکان حکومت (وزارت ہائےتعلیم،مذہبی امور اور داخلہ سےایک ایک) کےنامزد کردہ ہوںگے۔ اس بورڈ کا چےئرمین کون ہو گا،اس پر ابھی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ نیز تجویز کوعملی شکل دینےکےلیےقانون سازی کا مرحلہ بھی درپیش ہو گا۔
اسی طرح مرکزی سطح پر وزارتِ تعلیم کےتحت ’’انٹربورڈ کمیٹی آف چےئرمین‘‘ یہ فیصلہ کر چکی ہےکہ منظورشدہ دینی مدارس کےطلبہ جو شہادۃ الثانویہ العامہ کی سند رکھتےہوں اور کسی سرکاری تعلیمی بورڈ یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سےمیٹرک کےاُردو، انگریزی، ریاضی اور مطالعہ پاکستان کےمضامین پاس کر چکےہوں، وہ میٹرک کےمساوی ہونےکا سرٹیفیکیٹ (SSEC) حاصل کرسکتےہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء سےاطلاق ہو گا۔
نیز جو طلبہ شہادۃ الثانویہ الخاصہ کی سند رکھتےہوں اور اُرد ،انگریزی اور ہیومنیٹیز گروپ میں سےکوئی سےدواختیاری مضامین پاس کر چکےہوں وہ انٹرمیڈیٹ کےمساوی ہونےکا سرٹیفیکیٹ (HSSEC) حاصل کر سکتےہیں۔ [حوالہ: حکومت پاکستان،وزارت ِتعلیم،انٹربورڈ کمیٹی آف چےئرمین۔ چٹھی نمبر IBCC/ES/3780-02 بتاریخ ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء]
عالمی حالات اور خطہ میںہونےوالی تبدیلیوںنےمدارس کےذمہ داران کو ایک اوراندازسےبھی جائزہ لینےاور تبدیلیوںکی جانب متوجہ کیا ہے۔ اسےسمجھنےکےلیےجامعہ عثمانیہ پشاور کےمہتمم مفتی غلام الرحمن (جوصوبہ سرحد میںایم ایم اےکی حکومت کےدوران قائم ہونےوالےتعلیمی کمیشن کےسربراہ بھی تھے) کی تحریر سےاس اقتباس پر نظر ڈالنامفید ہو گا :
اسلامی سیاست کرنےوالوں کےلیےضروری ہےکہ وہ بلند ہمتی کا مظاہرہ کر کے رجال سازی پر توجہ دیں۔ ہم نےافغانستان کےحوالہ سےدیکھا کہ طالبان کو چھ سال حکومت کا موقع ملالیکن رجال کار کےفقدان بلکہ قحط الرجال کا اندازہ بہت جلد ہوا۔ اس لیےضروری ہےکہ ہماری سیاسی جماعتیںاپنی کارکر دگی پرنظرثانی کریں۔ صرف زندہ باد تک جدوجہد کو محدود نہ رکھیںاور نہ کسی انتخابی موقع تک اپنی سرگرمیاں محدود رکھیںبلکہ ضروری ہےکہ جہد مسلسل اپنی عادات بنائیں اورہر وقت انتخابات کےایام سمجھتےہوئےمحنت کریں۔
دینی مدارس کی اس میدان میںبھی کارکر دگی مایوس کن ہے۔ ہمارےسب کےارادےآسمان سےباتیں کرتےہیںدنیا کےکونےکونےتک یہ پرواز کےلیےپر تولتےہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتےکہ وہاں کےتقاضےکیا ہیں؟ وہاںکی ضروریات کیا ہیں؟ وہاںکن حالات سےہمارا سامنا پڑےگا؟ بدقسمتی سےہم نعروںکےمیدان میںگرم رہتےہیںلیکن عملی میدان کی خبر نہیںلیتے۔ آج پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤںکی مانند ہو چکی ہے۔ فاصلےختم ہوئےہیںاور ایک کونےسےدوسرےکونےتک پہنچنا گھنٹوںکی بات ہےاور یہ بھی ایک نا قابل انکار حقیقت ہےکہ دنیا کےتقاضےمختلف ہیں،ان کےادراک کےبغیر میدان عمل میںمتحرک رہنا مشکل ہے۔ اس لیےہمارےتعلیمی اداروںکی ذمہ داری ہےکہ وہ نونہال طلبہ کی تربیت میںعصری مشکلات کا ادراک ضرور کریںخاص کربڑی دینی جامعات جن کو وسائل میسر ہوںوہ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کر کےاس میدان میںجوہر کمالات دکھائیں۔ اور دوسرےمدارس کےلیےایک قابل عمل راہ متعین کریں۔ ہمارےجامعہ عثمانیہ جیسےنو وارد مدارس کی خواہش بہت ہےلیکن بدقسمتی سےظروف اور وسائل کی تنگ دامنی اور تجربہ نہ ہونےکی وجہ سےآگےقدم لینا مشکل ہےبلکہ ہمارےجیسےناتجربہ کاروںکےلیےخطرات زیادہ ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ ہواندھوںکی طرح ہاتھ پاؤںمارتےہوئےگمراہی کےشکار ہوںاللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ ہاںجب امہات مدارس اس میدان میںپیش قدمی کریںتو چھوٹےمدارس کےلیےچلنا آسان ہو گا یہ بھی ضروری ہےکہ اس معاملہ پر مدارس کےباہمی مباحث کا اہتمام ہو۔ چاہیےکہ یہ ذمہ داری مدارس کی تنظیمیںوفاق المدارس جیسےادارےنبھائیںاور اگر یہ ادارےغفلت کا مظاہرہ کریںتو پھر بڑی بڑی دینی جامعات خود کسی قدم لینےکےلیےبسم اللہ کریںایسا نہ ہو کہ ہمارےطلبہ کل مستقبل میںناکامی کےشکار ہوکر سب کچھ ہمار ےکندھوںپر ڈال دیں(ماہنامہ العصر،جامعہ عثمانیہ پشاور،فروری ۲۰۰۸ء، ص ۳۔۴)۔
مذکورہ بالا تناظر کو پیش نظر رکھا جائےتو یہ بات سا منےآتی ہےکہ مدارس کی بقاء کےلیےناگزیر ہےکہ وہ خود اپنی سطح پر اپنےآپ کو عصری حالات اور ضروریات کےنقطۂ نظر سےتیا ر کریں تاکہ وہ معاشرہ سےبالکل غیر متعلق نہ ہو جائیں۔ مدارس میںاس امر کا احساس کسی نہ کسی درجہ میںموجود ہےاور وہ اپنی اپنی سطح پر کچھ اقدامات بھی کر رہےہیں۔ تاہم روایت پسندی اور احتیاط کا طرزعمل اور بسا اوقات وسائل کی قلت ایسےاقدامات کی راہ میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔
اپنی شناخت کو برقرار رکھتےہوئےعلم وفن کےمیدانوںمیں ہونےوالی ترقی اور اس حوالہ سےنئےدائروںمیںآگےبڑھنےکی اندرونی خواہش کےتناظر میںاقدامات کی رفتار کیا ہے۔ روایت پسندی یا تبدیلی کےبارےمیںعمومی طورپر احتیاط (یاخوف) کا رویہ،تبدیلی کےحوالہ سےمطلوبہ ماحول اور مطلوب انسانی وسائل کی کیفیت کیا ہے،مجموعی طور پر یہ عمل کس طرح ہورہا ہے،اس کی نوعیت اور علامتیںکیا ہیں،اور موجودہ رجحانات کو دیکھتےہوئےآئندہ مدارس میں تبدیلیوں کا کیا رخ ہو گا؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کا جواب "دینی مدارس- تبدیلی کے رجحانات" کتاب میں بڑی دینی جامعات کے ذمہ داران کےانٹرویوز کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔
ماخذ: "دینی مدارس - تبدیلی کے رجحانات" از خالد رحمٰن، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد
نوعیت: کتاب کا ایک باب