عمیر اسلم
محفلین
یہ تحریر کسی بھی فرقہ ، ذات ، تنظیم سے قطعہ نظر ہے ، نہ ہی کسی کے اوپر یہ تنقیدی تحریر ہے ، بلکہ ہماری زبوں حالی پہ ایک نظر ہے ۔
بنیادی طور پہ دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں زندگی کس طرح گذارنی ہے ، جب جب قومیں بگڑیں اللہ پاک نے قوموں کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے اور حلال اور حرام کا فرق سمجھایا ، مگر انسان روز اول سے ہی نافرماں اور سرکش رہا ہے ۔ آج کے وور میں بھی ہم کچھ طبقات میں بٹ چکے ہیں۔
طبقہ اول (من چاہی زندگی)
یہ وہ طبقہ ہے جو پیدائشی مسلمان تو ہے ، کلمہ پڑھا ہوا ہے ، مگر ایمان کی دولت سے محروم ہے ، ان کا ماننا ہے کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ، جو عیش کرنے ہیں یہیں کر لو ، آخرت کے بعد کون دوبارہ اُٹھے گا ، یہ ہر حرام کام کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک مسجد میں چندہ دیکر جان چھڑالینا ہی کافی ہوتا ہے۔(زیادو تر امراء اس طبقے میں آتے ہیں)
طبقہ دوئم (کچھ اپنی کچھ رب کی)
یہ وہ لوگ ہیں جو مصلحت پسند ہیں ، کلمہ کے قائل ہیں مگر دنیا کی محبت بھی دل میں ہیں ، یہ لوگ حرام کو حلال کرنے کے لیے تاویل یا دلائل کا سہارا لیتے ہیں ، کبھی نماز پڑھ لی کبھی چھوڑ دی ، ان کے ایمان کا لیول ڈانو ڈول ہوتا رہتا ہے ، جن اسلامی تعلیمات پہ عمل نہیں کرسکتے ، "اللہ بہت رحم کرنے والا ہے" ان کی اُمید ہوتی ہے اور اسی اُمید پہ گناہ کر لیتے ہیں (مڈل کلاس اور کچھ لوئر کلاس لوگ اس طبقے میں آتے ہیں)
طبقہ سوئم ( انتہا پسند ، دلپسند)
یہ وہ لوگ ہیں جو سختی کے ساتھ دین کہ ہر ہر عمل کو اپنانا فرض سمجھتے ہیں ، عقائد میں بڑے سخت ہوتے ہیں ، اور جبرا" دینی احکام پہ خود بھی عمل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی کروانا چاہتے ہیں ، نیت کے بہت صاف ہوتے ہیں ، مگر کبھی کبھی اپنی من پسند دنیی احکام کو فرض احکام پہ ترجیح دے دیتے ہیں ۔
طبقہ اصل (معتدل اور متقی)
یہ وہ لوگ ہیں جو دل و دماغ سے اللہ اور مرنے ک بعد جی اُٹھنے کی زندگی کے قائل ہیں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ، دنیا سے انہیں کوئی رغبت نہیں ہوتی ، اللہ سے مغفرت کی اُمید رکھتے ہیں اور اُس کے عذاب کے ڈر سے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، نبی کریم کی ہر ہرسنت کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں ۔ حکمت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور دعوت للہ کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں ، روزی کماتے ہیں مگر اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق۔ (ان کا تعلق کسے بھی طبقے سے ہو سکتا ہے اور یہ نمایاں نہیں ہوتے نہ اپنے اعمال کی نمائش کرتے ہیں)
ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کے ہم کون سے طبقے میں آتے ہیں۔ جزاکم اللہ
بنیادی طور پہ دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں زندگی کس طرح گذارنی ہے ، جب جب قومیں بگڑیں اللہ پاک نے قوموں کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے اور حلال اور حرام کا فرق سمجھایا ، مگر انسان روز اول سے ہی نافرماں اور سرکش رہا ہے ۔ آج کے وور میں بھی ہم کچھ طبقات میں بٹ چکے ہیں۔
طبقہ اول (من چاہی زندگی)
یہ وہ طبقہ ہے جو پیدائشی مسلمان تو ہے ، کلمہ پڑھا ہوا ہے ، مگر ایمان کی دولت سے محروم ہے ، ان کا ماننا ہے کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ، جو عیش کرنے ہیں یہیں کر لو ، آخرت کے بعد کون دوبارہ اُٹھے گا ، یہ ہر حرام کام کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک مسجد میں چندہ دیکر جان چھڑالینا ہی کافی ہوتا ہے۔(زیادو تر امراء اس طبقے میں آتے ہیں)
طبقہ دوئم (کچھ اپنی کچھ رب کی)
یہ وہ لوگ ہیں جو مصلحت پسند ہیں ، کلمہ کے قائل ہیں مگر دنیا کی محبت بھی دل میں ہیں ، یہ لوگ حرام کو حلال کرنے کے لیے تاویل یا دلائل کا سہارا لیتے ہیں ، کبھی نماز پڑھ لی کبھی چھوڑ دی ، ان کے ایمان کا لیول ڈانو ڈول ہوتا رہتا ہے ، جن اسلامی تعلیمات پہ عمل نہیں کرسکتے ، "اللہ بہت رحم کرنے والا ہے" ان کی اُمید ہوتی ہے اور اسی اُمید پہ گناہ کر لیتے ہیں (مڈل کلاس اور کچھ لوئر کلاس لوگ اس طبقے میں آتے ہیں)
طبقہ سوئم ( انتہا پسند ، دلپسند)
یہ وہ لوگ ہیں جو سختی کے ساتھ دین کہ ہر ہر عمل کو اپنانا فرض سمجھتے ہیں ، عقائد میں بڑے سخت ہوتے ہیں ، اور جبرا" دینی احکام پہ خود بھی عمل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی کروانا چاہتے ہیں ، نیت کے بہت صاف ہوتے ہیں ، مگر کبھی کبھی اپنی من پسند دنیی احکام کو فرض احکام پہ ترجیح دے دیتے ہیں ۔
طبقہ اصل (معتدل اور متقی)
یہ وہ لوگ ہیں جو دل و دماغ سے اللہ اور مرنے ک بعد جی اُٹھنے کی زندگی کے قائل ہیں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ، دنیا سے انہیں کوئی رغبت نہیں ہوتی ، اللہ سے مغفرت کی اُمید رکھتے ہیں اور اُس کے عذاب کے ڈر سے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، نبی کریم کی ہر ہرسنت کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں ۔ حکمت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور دعوت للہ کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں ، روزی کماتے ہیں مگر اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق۔ (ان کا تعلق کسے بھی طبقے سے ہو سکتا ہے اور یہ نمایاں نہیں ہوتے نہ اپنے اعمال کی نمائش کرتے ہیں)
ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کے ہم کون سے طبقے میں آتے ہیں۔ جزاکم اللہ