ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
محفلین
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد (علامہ اقبال)
تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ سے کیا گیا حکومتی معاہدہ امن و امان کے لحاظ سے خوش آئیند ہونے کے باوجود کئی اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: لا تفسدوا فی الارضِ بعد اصلاحھا (کہ جب دھرتی پر کوئی قاعدہ و قانون نافذ ہو تو اس میں بگاڑ پیدا نہ کیا کرو) کیونکہ اللہ لا یحب المفسدین (اللہ تعالیٰ فسادیوں کو ناپسند کرتا ہے) نیز لا یجرمنکم شناٰنُ قوم۔۔۔۔۔۔۔ (یعنی لوگوں کی دشمنی تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ تم "عدل" کی روش کو چھوڑ دو، دشمن سے بھی معاملات میں عدل کی روش پر کاربند رہو کہ یہ امر تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے)۔ ان اللہ یامر بالعدل (اللہ تعالیٰ تو عدل ہی کا امر فرماتا ہے) و ینھیٰ عن الفحشاء (اور حدود شکنی سے روکتا ہے)۔ عدل کہتے ہیں ہر شے کو ٹھیک اس مقام پر رکھنا جہاں اس کو ہونا چاہیے اور فحشاء کا مطلب ہے حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ دینا۔ عدل کے بعد قرآن "احسان" کا ذکر فرماتا ہے یعنی بہترین حُسن کارانہ اندازِ زیست ۔ زندگی میں اس حُسن کا پیش خیمہ عدل ہی ہوتا ہے یعنی جب معاشرت میں ترتیب و تنظیم یعنی
harmony & discipline
کا ظہور ہوتا ہے تو اس تمدن میں آپ سے آپ نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ جن قوموں نے عدل کی اس روش کو اختیار کیا ان کا معیارِ زیست ( Quality of life) آپ سے آپ بہتر (better) ہوتا چلا گیا ۔ ان کی زندگی نظم و ضبط کے پیرائے میں ڈھل کر حسین و جمیل ہوتی چلی گئی۔ اس عدل کی بہترین مثال خود آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنة سے ملتی ہے اور ہمارے ہاں صرف حضرت قائدِ اعظم ؒ کی ذاتِ گرامی اس کی مصداق ہے کہ آپ نے انگریز کے قانون کی بھی خلاف ورزی نہ کی بنا برایں کبھی جیل نہ گئے۔ ہمارے ہاں عجب روش چل پڑی ہے کہ کسی کو اولی الامر یعنی Authority تسلیم کرنے کے باوجود ہم اس کی کامل اطاعت سے گریزاں رہتے ہیں جبکہ قرآن کا حُکم ہے کہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اُولیِ الامر منکم (کہ اللہ کی اطاعت کرو پھر اللہ کے رسول ﷺ کی اور پھر اپنے اولی الامر کی)۔ ہم اپنے اولی الامر یعنی نظمِ اجتماعی کو قبول کرنے کے باوجود فساد کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں پھر رشوت، سفارش، proxy، توڑپھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا وہ بازار گرم ہوتا ہے کہ معاشرے میں حُسن کی بنیاد یعنی عدل ہی ناپید ہو جاتا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہیں یعنی ہمیں قانون شکنی کا سبق نہ تو قرآن سے ملتا ہے نہ سُنت سے بلکہ ہمارے ماضی کی غلط کاریاں ہمارے حال کی حدود شکنی کے لئے جواز کا ایندھن فراہم کرتی ہیں ۔ ہماری تاریخ کے بہت سے اوراق قانون شکنی اور خلافِ عدل سرگرمیوں کے داغوں سے آلودہ ہیں ۔ کبھی قرونِ اولیٰ میں مسلمہ و متفقہ حکومتوں کے خلاف بڑی مقدس ہستیاں خروج کرتی رہی ہیں اور مسلمانوں کے مابین خانہ جنگی و کشت و خون کا وہ بازار گرم ہوا ہے جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لیتا اور کبھی قیامِ پاکستان سے پہلے کسی گستاخ کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے صلے میں قاتل کو غازی اور شہید گردانا جاتا رہا ہے۔ پھر آج کا باغی کیوں نہ معتبر ٹھہرے اور آج گورنر کا محافظ اسے قتل کرکے غازی اور شہید کیوں نہ بنے۔ اللہ تعالی تو بغاوت سے منع کرتا ہے مگر ہمارے مُلا وپیر آئے دن بغاوت کو اپنا شعار بنائے رہتے ہیں۔ ان نے ایسا pressure group بنا رکھا ہے جو نظمِ مملکت کو چلنے ہی نہیں دیتا حالانکہ بانئ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے اس امر کو مسلم لیگ کا کارنامہ قرار دیا تھا کہ اس نے عوام الناس کو "اس رجعت پسند اور تنگ نظر گروہ کی جکڑبندیوں سے آزاد کر دیا ہے جسے مولوی یا مولانا کہتے ہیں" ۔ قائداعظمؒ نے باور کروایا تھا کہ" پاکستان میں theocracy یعنی مذہبی پیشواؤں کی حکومت اور اجارہ داری نہیں ہو گی کہ وہ بزعمِ خویش خدائی مشن کے ٹھیکیدار بن جائیں"۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج مُلا و پیر کو اقبال اور جناح کے پاکستان میں خدائی عطا کر دی گئی ہے جبکہ اقبال ؒ بھی جا بجا صوفی و مُلا کی مذمت و مرمت کرتا ہے۔
نہ صوفی سے نہ مُلا سے ہے غرض مجھ کو
وہ دل کی موت یہ اندیشہ و نظر کا فساد
کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
ببندِ صوفی و ملا اسیری
حیات از حکمتِ قرآں مگیری
(تو صوفی وملا کی زنجیروں میں جکڑا جا چکا ہے بنا بر ایں حکمتِ قرآن سے تو زندگی حاصل ہی نہیں کر پایا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیلِ اللہ فساد (علامہ اقبال)
تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ سے کیا گیا حکومتی معاہدہ امن و امان کے لحاظ سے خوش آئیند ہونے کے باوجود کئی اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: لا تفسدوا فی الارضِ بعد اصلاحھا (کہ جب دھرتی پر کوئی قاعدہ و قانون نافذ ہو تو اس میں بگاڑ پیدا نہ کیا کرو) کیونکہ اللہ لا یحب المفسدین (اللہ تعالیٰ فسادیوں کو ناپسند کرتا ہے) نیز لا یجرمنکم شناٰنُ قوم۔۔۔۔۔۔۔ (یعنی لوگوں کی دشمنی تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ تم "عدل" کی روش کو چھوڑ دو، دشمن سے بھی معاملات میں عدل کی روش پر کاربند رہو کہ یہ امر تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے)۔ ان اللہ یامر بالعدل (اللہ تعالیٰ تو عدل ہی کا امر فرماتا ہے) و ینھیٰ عن الفحشاء (اور حدود شکنی سے روکتا ہے)۔ عدل کہتے ہیں ہر شے کو ٹھیک اس مقام پر رکھنا جہاں اس کو ہونا چاہیے اور فحشاء کا مطلب ہے حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ دینا۔ عدل کے بعد قرآن "احسان" کا ذکر فرماتا ہے یعنی بہترین حُسن کارانہ اندازِ زیست ۔ زندگی میں اس حُسن کا پیش خیمہ عدل ہی ہوتا ہے یعنی جب معاشرت میں ترتیب و تنظیم یعنی
harmony & discipline
کا ظہور ہوتا ہے تو اس تمدن میں آپ سے آپ نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ جن قوموں نے عدل کی اس روش کو اختیار کیا ان کا معیارِ زیست ( Quality of life) آپ سے آپ بہتر (better) ہوتا چلا گیا ۔ ان کی زندگی نظم و ضبط کے پیرائے میں ڈھل کر حسین و جمیل ہوتی چلی گئی۔ اس عدل کی بہترین مثال خود آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنة سے ملتی ہے اور ہمارے ہاں صرف حضرت قائدِ اعظم ؒ کی ذاتِ گرامی اس کی مصداق ہے کہ آپ نے انگریز کے قانون کی بھی خلاف ورزی نہ کی بنا برایں کبھی جیل نہ گئے۔ ہمارے ہاں عجب روش چل پڑی ہے کہ کسی کو اولی الامر یعنی Authority تسلیم کرنے کے باوجود ہم اس کی کامل اطاعت سے گریزاں رہتے ہیں جبکہ قرآن کا حُکم ہے کہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اُولیِ الامر منکم (کہ اللہ کی اطاعت کرو پھر اللہ کے رسول ﷺ کی اور پھر اپنے اولی الامر کی)۔ ہم اپنے اولی الامر یعنی نظمِ اجتماعی کو قبول کرنے کے باوجود فساد کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں پھر رشوت، سفارش، proxy، توڑپھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا وہ بازار گرم ہوتا ہے کہ معاشرے میں حُسن کی بنیاد یعنی عدل ہی ناپید ہو جاتا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہیں یعنی ہمیں قانون شکنی کا سبق نہ تو قرآن سے ملتا ہے نہ سُنت سے بلکہ ہمارے ماضی کی غلط کاریاں ہمارے حال کی حدود شکنی کے لئے جواز کا ایندھن فراہم کرتی ہیں ۔ ہماری تاریخ کے بہت سے اوراق قانون شکنی اور خلافِ عدل سرگرمیوں کے داغوں سے آلودہ ہیں ۔ کبھی قرونِ اولیٰ میں مسلمہ و متفقہ حکومتوں کے خلاف بڑی مقدس ہستیاں خروج کرتی رہی ہیں اور مسلمانوں کے مابین خانہ جنگی و کشت و خون کا وہ بازار گرم ہوا ہے جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لیتا اور کبھی قیامِ پاکستان سے پہلے کسی گستاخ کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے صلے میں قاتل کو غازی اور شہید گردانا جاتا رہا ہے۔ پھر آج کا باغی کیوں نہ معتبر ٹھہرے اور آج گورنر کا محافظ اسے قتل کرکے غازی اور شہید کیوں نہ بنے۔ اللہ تعالی تو بغاوت سے منع کرتا ہے مگر ہمارے مُلا وپیر آئے دن بغاوت کو اپنا شعار بنائے رہتے ہیں۔ ان نے ایسا pressure group بنا رکھا ہے جو نظمِ مملکت کو چلنے ہی نہیں دیتا حالانکہ بانئ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے اس امر کو مسلم لیگ کا کارنامہ قرار دیا تھا کہ اس نے عوام الناس کو "اس رجعت پسند اور تنگ نظر گروہ کی جکڑبندیوں سے آزاد کر دیا ہے جسے مولوی یا مولانا کہتے ہیں" ۔ قائداعظمؒ نے باور کروایا تھا کہ" پاکستان میں theocracy یعنی مذہبی پیشواؤں کی حکومت اور اجارہ داری نہیں ہو گی کہ وہ بزعمِ خویش خدائی مشن کے ٹھیکیدار بن جائیں"۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج مُلا و پیر کو اقبال اور جناح کے پاکستان میں خدائی عطا کر دی گئی ہے جبکہ اقبال ؒ بھی جا بجا صوفی و مُلا کی مذمت و مرمت کرتا ہے۔
نہ صوفی سے نہ مُلا سے ہے غرض مجھ کو
وہ دل کی موت یہ اندیشہ و نظر کا فساد
کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
ببندِ صوفی و ملا اسیری
حیات از حکمتِ قرآں مگیری
(تو صوفی وملا کی زنجیروں میں جکڑا جا چکا ہے بنا بر ایں حکمتِ قرآن سے تو زندگی حاصل ہی نہیں کر پایا)۔