دین-2

تصوف، دین اور سیاست کے حوالے سے شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے دوسرے لیکچر کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ رب العٰلمین۔ وصل اللہ علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین و اشر ف المرسلین و علیٰ آلہ وصحبہ والتابعین۔ امّا بعد:
پچھلے لیکچر میں ہم دین کے بارے میں بات کر رہے تھے، اور اس لیکچر میں بھی ہم دین کے معانی پر گفتگو کریں گے تاکہ جو کچھ پہلے کہا گیا ہے اسکے اطراف و جوانب کا احاطہ کیا جاسکے۔
جیسا کہ ہم نے واضح کیا کہ دین اللہ کی وہ رسّی ہے جو بندوں اور انکے پروردگار کے درمیان لٹکائی گئی ہے۔ اور یہ بھی ہم نے بیان کیا کہ یہ رسّی وسیلہ ہے غایت نہیں ہے، ان معنوں میں کہ دین کی غرض و غایت وصول الی اللہ ہےیعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ملنا، جبکہ اسکے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کی زیادہ تر تعداد تدیّنِ تاریخی کی روش پر گامزن ہے جس پر پچھلے لیکچر میں بات ہوئی تھی۔
اللہ نے دین کو اپنی جانب لیجانے والا رستہ قرار دیا ہے۔ اور ایسا کرنا لازمی طور پر اپنے اندر کوئی مقصد اور حکمت رکھتا ہے۔ دین اور شریعت کا قیام اپنے اندر ایک مقصد اور حکمت رکھتا ہے۔ جس طرح لوگوں کے مختلف اعمال کیلئے مختلف نیتیں ہوتی ہیں، اسی طرح اللہ بھی اپنے اعمال اور افعال میں کچھ مقاصد رکھتا ہے۔ اور دین کیلئے اللہ کا ایک مقصد نہیں بلکہ دو مقاصد ہیں۔
پہلا مقصد، یا قصد کا مرتبہِ اولیٰ یعنی دین کا اوّلین مقصد، سلوک الی اللہ ہے، ان معنوں میں کہ بندہ درجہ بدرجہ دین کے مختلف مراحل اور مراتب طے کرے، اور ہر درجے کے طے کرنے سے قرب الی اللہ میں ترقی ہوتی جائے، اللہ کے نزدیک ہوتا جائے، حتیٰ کہ اس مقام پر جاپہنچے جسے صوفیہ کی اصطلاح میں وصول کہا جاتا ہے۔ پس وصول الی اللہ ہی دین کا مقصدِ اولیٰ ہے، اور دین کی نہایت تک جاپہنچنا یہی ہے کہ اسکی غرض و غایت یعنی وصول تک جاپہنچیں۔ دین کی نہایت تک پہنچنے سے ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ اسکے بعد بندے سے دین کے احکامات و فرائض اٹھا لئے جاتے ہیں، جیسا کہ بعض نا فہم لوگ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ' صوفیہ وصول کے زعم میں ترکِ عبادات کی دعوت دیتے ہیں'، لیکن ہماری بات کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ جس چیز کو اللہ نے بندوں کیلئے مشروع کیا، اسکا رفع ( abolish)کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ اور اگر مقامِ وصول کے بعدشرع کی پابندیوں سے کوئی مبّرا کیا جاتا تو یقیناّ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے، اور انہوں نے ایسا نہیں کیا جبکہ وہ سیّد الواصلین ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ وصول سے مراد ہے بندے کا علم باللہ سے متحقق ہوجانا۔ اس تحقق (Realization) سے بندے کو اپنے نفس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ یعنی حقیقتِ ربوبیّت کے ساتھ ساتھ اسکو اپنے نفس کی حقیقتِ عبدیت کی معرفت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ یہ علم دینا چاہے، وہ تمام حقائقِ وجود کو جان لیتا ہے۔ پس یہ دین کا قصدِ اوّل ہے، ان معنوں میں کہ دین اسی لئے بنایا گیا ہے۔
لیکن چونکہ یہ وصول، ہر انسان کے بس کی بات نہیں، کیونکہ یہ انبیاء اور انکے وارثین یعنی اولیاء کی صفات میں سے ہے، جو انبیاء کے قدم بہ قدم انکی راہ پر چلتے ہیں، یہی لوگ اولیاء ہیں، اور انکے علاوہ اور کسی کو یہ صفت (یعنی وصول) حاصل نہیں ہوتی۔ جب ہم لفظ اولیاء استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ولایتِ خاصّہ ہے، ولایتِ عامّہ نہیں۔ کیونکہ بعض لوگوں نے غلط فہمی سے ولایت کی ان دونوں اقسام کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ ولایتِ عامّہ تو تمام مؤمنین کو حاصل ہے جبکہ ولایتِ خاصّہ فقط انبیاء اور وارثینِ نبوت کا نصیب ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہم اگلے کسی لیکچر میں اس پر تفصیل سے بات کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ہم نے کہا کہ یہ ہر کسی کا نصیب نہیں کہ ولی ہوجائے، مطلب اسکا یہ ہے کہ ہر انسان خواص میں سے نہیں ہوسکتا۔ اور ہم سبھی، یہ جانتے ہیں کہ دین عوام کیلئے بھی ہے اور خواص کیلئے بھی۔ اور قرآن میں جو ابرار اور مقربین کا فرق بیان کیا گیا ہے، یا اصحاب الیمین اور سابقین کی تفریق بیان ہوئی ہے، وہ یہی عوام اور خواص کی تفریق ہے۔ لوگوں کی غالب اکثریت، عوام سے تعلق رکھتی ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں یہ تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ مراتب کے زینوں(Hierarchy) پر چڑھتے چڑھتے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے، حتیٰ کہ زندگی کے ہر شعبے میں ان مراتب کا اختتام فردِ واحد(Top position) پر ہوتا ہے. اور یہ خلق میں اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سرّ ہے۔
اور بیشک خواص کی تعداد قلیل ہوتی ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ اسکی رحمت بندوں میں سے صرف خواص تک محدود رہے، پس اس نے دین کا ایک دوسرا مقصد بھی رکھا ، یعنی دوسری حکمت ۔ اور وہ ہے دین پر ایمان کی رُو سے عمل کرنا، علم اور شہود کے ساتھ نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ۔
کیونکہ اولیاء یعنی خواص جس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کیلئے یعنی عوام کیلئے غیب کا درجہ رکھتا ہے۔ اور یہ بات ایسی نہیں ہے جیسا کہ حجاب میں پڑی ہوئی عقل کے حامل لوگ اکثر کہتے ہیں کہ " جو شخص بھی یہ زعم رکھتا ہے کہ اسکے پاس غیوب میں سے کسی غیب کا علم ہے، وہ وحی اور قرآن و سنت کے خلاف بات کر رہا ہے"۔ اس بات میں بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اور اصولِ دین سے جہالت کی بناء پر یہ بات کہہ دی جاتی ہے۔ غیب دراصل غیوب ہیں۔ چنانچہ جو بات ایک قوم کیلئے شہادت ہے دوسری کیلئے غیب کا درجہ رکھتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو ایسی باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو دوسرے لوگوں سے پوشیدہ اور انکے حق میں غیب ہوتی ہیں، تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان لوگوں کے پاس ہر غیب کا علم ہے۔ غیوب کا احاطہ تو صرف اللہ سبحانہ کیلئے مخصوص ہے، جہاں تک شہود کی بات ہے (جو کسی دوسری قوم کیلئے غیب کا درجہ رکھتا ہے)، تو یہ عین ممکن ہے۔ کیونکہ مراتب مختلف قسم کے ہیں اور ان میں بہت وسعت ہے ۔ دین میں مراتب صرف ایک نہیں ہیں۔ اور ہم ان شاءاللہ تعالیٰ،مراتبِ دین پر اگلے لیکچرز میں بات کریں گے۔
اب ہم واپس دین کے دوسرے مقصد کی طرف لوٹتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اسکی رحمت کا دائرہ وسیع ہو، تو اس نے دین کا ایک ثانوی مقصد بھی رکھا اور وہ ہے دین کی وجہ سے لوگوں کا جنت میں دخول۔ دین کا پہلا اور اوّلین مقصد ہے اللہ کی معرفت جو خواص کا نصیب ہے، جبکہ دوسرا مقصد ہے جنت۔ جنت میں کون داخل ہونگے؟ یعنی مومنین کی اکثریت۔ اور مومنین کی اکثریت کون ہے؟ کیا وہ خواص العباد ہیں؟ نہیں !۔ کیونکہ جنت اگر چہ عوام اور خواص دونوں کیلئے ہے، اس میں بھی مراتب اور درجات ہیں۔ اور وہ جنت جسکا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے بندوں کیلئے ذکر کیا ہے، اورجس کیلئے کئی اقسام کے اقوال بیان ہوئے اور مناظر بیان ہوئے ہیں، یہ سب کچھ خواص سے زیادہ عوام کی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اگرچہ خواص کیلئے بھی اس جنت میں مدخل ہے۔ چونکہ عوام دین کا مقصدِاوّل یعنی معرفتِ الٰہیہ اور علم باللہ نہ حاصل کرسکے، لیکن ایمان پر برقرار رہے اور ایمان کی بنیاد پر اعمال سرانجام دیتے رہے اور اللہ اور اپنے نفس کی معرفت سے آگاہ نہ ہوسکنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے انکے ایمان اور انکے اعمال پر انہیں جس شئےسے نوازا، وہ جنت ہے۔ اور وہ ظاہری طور پر خواص کے ساتھ متشابہت رکھتے ہیں ۔
اس ساری بات سے ہمار ی مراد یہ ہے کہ تدیّن کے دو مرتبے ہیں۔ ایک تدیّنِ اصلی، جو صرف خواص کیلئے ہے اور خواص سے ہماری مراد انبیاء اور انکے وارثین ہیں۔ انکے تدیّن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی عبادات ، معاملات ، اقوال اور افعال میں انکے اسرار کےعلم پر ہوتے ہیں۔ اور جہاں تک عوام کی بات ہے، تو انکو ان اسرار میں دخل نہیں، چنانچہ انکے اعمال ایمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایمان کی رُو سےنماز کی اس ہئیت اور صورت کی تصدیق کی، اور ادا کرنے لگے۔ ایمان کی رُو سے حج کے مخصوص طریقے کی تصدیق کی ، چنانچہ اسکے مطابق ادا کرنے لگے۔ اور یہ سب ایمان کی جہت سے کیا ، علم کی جہت سے نہیں۔ اور اس علم سے تو فقہاء اور علمائے شرع کی اکثریت بھی ناواقف ہے۔ چنانچہ وہ ان اسرار کو علمِ غیب سمجھتے ہوئے اس بات کو ناممکن سمجھتے ہیں کہ کسی کو انکا علم حاصل ہوسکے۔ حالانکہ خواص کی ایک کثیر تعداد ہر زمانے میں ان اسرار کا ادراک کرتی رہی ہے۔
دین کے ان دونوں مقاصد کے حوالے سے جب دین پر عمل کے دو میدان (Planes)بن گئے ، تو اب جائز نہیں کہ دین کے علم اور فہم و ادراک کو عوام کی سطح تک ہی محدود سمجھاجائے۔ لیکن یہی کچھ ہوا ابنِ تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کے ساتھ، جب انہوں نے دین کو ایک ہی مرتبے میں یعنی عوام کی سطح میں ہی محصور کردیا، اور یہی سمجھے کہ دین کے علم، فہم اور ادراک کا اس سے بلند کوئی اور مرتبہ نہیں۔ چنانچہ وہ جہل میں مبتلا ہوئے، ظلم کیا اور بھٹک گئے۔
اور دین ۔۔۔جیسا کہ ہم ان شاء اللہ اگلے لیکچرز میں بھی بیان کریں گے۔۔۔ عمودی ہے، افقی نہیں۔ ہم نے یہ بات اسلئے کہی تاکہ وہ لوگ جو صورت سے معنی کی طرف پہنچتے ہیں، انکے لئے ہماری بات کو سمجھنا مشکل نہ رہے، کہ دین اپنی حقیقت میں افقی نہیں بلکہ عمودی ہے۔ ابنِ تیمیہ اور وہ لوگ جو اسکے راستے پر چلے، انہوں نے دین کو افقی میدان میں محصور کردیا، اور دین میں جو تقسیمات اور امتیازات انہوں نے بیان کئے، وہ سب کے سب افقی ہیں، یعنی ایک قسم ،دوسری قسم کے ساتھ ساتھ اسکے دائیں یا بائیں ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین اور اسکے مراتب عمودی ہیں۔ اور یہ مراتب باہم ایک دوسرے سے اوپر اور نیچے ہیں۔ ہم یہ مثال اس لئے بیان کر رہے ہیں تاکہ تفاصیل کے بیان کے وقت انکو سمجھنا دشوار نہ لگے۔
اب ہم اپنے زمانے اور پہلے زمانے کے تدیّن کا یعنی اولین اور آخرین کے تدیّن کا ایک دوسرے کے ساتھ تقابل کرتے ہیں۔ احادیث میں آخری زمانوں کا کافی ذکر ملتا ہے، جو صدرالاسلام یعنی صحابہ کے زمانے اور قرونِ اولیٰ کو آخری زمانوں سے واضح طور پر ممتاز کردیتا ہے۔ یعنی کس طرح وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ کس طرح احکام بدل جائیں گے اگرچہ کسی کو یہ حق نہیں کہ دین کے احکامات کو تبدیل کرسکے، کیونکہ حرام حرام ہے اور حلال حلال، سوائے اسکے کہ بعض احکامات کا دارومدار ارد گرد کے حالات و ظروف (Circumstances ) سے ہوتا ہے، چنانچہ ان حالات و ظروف کے بدلنے سے ان احکاما ت کا بدلنا لازم تھا۔
آخر الزمان میں لوگو ں کی مذہبی حالت اور تدیّن کے بارے میں احادیث میں سے ایک حدیث مبارکہ ہے جسکو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے بیان کیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " إنَّ أمامَ الدَّجَّالِ سنينَ خدَّاعةً يُكَذَّبُ فيها الصَّادقُ ، ويصدَّقُ فيها الكاذبُ ، ويخوَّنُ فيها الأمينُ ، ويؤتَمنُ فيها الخائنُ ، ويتَكَلَّمُ فيهاالرُّوَيْبضةُ.قيلَ: وماالرُّوَيْبضةُ؟قالَ: الفُوَيْسقُ يتَكَلَّمُ في أمرِ العامَّةِ. "
("دجّال سے پہلے کے کچھ سال مکر و فریب والے سال ہونگے۔ جن میں سچے کو جھٹلایا جائے گا، اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی، جن میں امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا اور امانت خائن کے سپرد کی جائے گی، اور اس زمانے میں میں رویبضہ کلام کیا کریں گے"۔ پوچھا گیا کہ رویبضہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا" گھٹیا لوگ، جو امورِ عامّہ میں گفتگو کیا کریں گے")
انہی معنوں میں اور روایات بھی ہیں جن میں الفاظ قدرے مختلف ہیں، لیکن کم و بیش سب سے مفہوم ایک جیسا ہی برآمد ہوتا ہے۔
إنَّ أمامَ الدَّجَّالِ سنينَ خدَّاعةً۔
(دجال سے پہلے کچھ سال مکر و فریب والے سال ہونگے) دجّال کے بارے میں تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ وہ آخری زمانے میں نکلے گا اور اور ہمارے اور اسکے زمانے میں اب کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا۔ اور ہم نے اپنی دوسری کئی کتب میں بیان کیا ہے کہ دجّال کے مددگار لوگ، اپنے لیڈر کے آنے کیلئے اپنے زعم اور توہم کے مطابق ، اسکی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اور لازم ہے کہ ہمیں کتاب و سنّت کے نور سے اس بات کا علم ہو کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور آگے آنے والے وقتوں میں کن باتوں کا سامنا ہوگا، تاکہ گروہِ دجّال کیلئے لقمہِ تر ثابت نہ ہوں۔ "ان امام الدجال سنین خدّاعہ"،دجال سے پہلے کے کچھ سال دھوکے اور مکرو فریب کے سال ہونگے۔ خدّاعہ (Deceptive)یعنی انسان کیلئے بہت مشکل ہوجائے گا کہ اس پر اصل بات واضح ہوسکے۔ چنانچہ وہ شدتِ لبس(confusion)کی وجہ سے حق اور باطل میں تمیز نہیں کر پائے گا۔ چنانچہ کئی قسم کی آراء (opinions ) ، اور توجیھات اور عقل کیلئے قابلِ قبول ہونے کی وجہ سے اسکے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ اور یہ بات ہمارے زمانے کےمیڈیا میں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ عصرِ حاضر کے بیشتر اخبارات اور چینلز دجال کے منبر کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو جانیں۔
ويصدَّقُ فيها الكاذبُ ، ويخوَّنُ فيها الأمينُ
(اور ان میں سچے کو جھٹلایا جائے گا اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی)۔یہان اگر ہم صحابہ کرام ، تابعین رضی اللہ عنھم، اور اوّلین کے تدیّن کو اپنے زمانے کے تدیّن کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انکے زمانے میں سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہا جاتا تھا، جبکہ ہمارے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا ٹھہرایا جاتا ہے۔ یعنی اقدار اور معیار بالکل برعکس ہوگئے۔ تدیّن اور دینداری بدل گئی۔ چنانچہ حالت یہ آن پہنچی ہے کہ بجائے اسکے کہ تدیّن اللہ کے ساتھ بندے کو ملاتا، وہ اسے اس سےجدا کرنے لگا۔ اور بجائے اسکے کہ وہ بندے کو جنت کے قریب لیکر جاتا، اس سے دور کرنے لگا۔ ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ اس امت میں سے جس نے بھی دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دی ہے، اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا اور اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا، لیکن موجودہ تدیّن، اقدار اور معیارات کے الٹ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کی دنیوی زندگی میں لازمی طور پر اثر پذیر ہوگا۔ اور ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے فتنوں میں داخل ہورہے ہیں جنکے اول اور آخر کو ایک دوسرے سے الگ کرکے پہچانا نہیں جاسکے گا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہر مسلمان اس بلاء یعنی آزمائش سے گذرے گا۔ اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ ہمارا گمان ہے اور ہمیں یہی حق لگتا ہے۔ کہ بیشک لوگ جانتے ہونگے کہ فلاں آدمی سچا ہے، لیکن اسکے باوجود اسکو جھٹلائیں گے۔ لوگوں میں سے ایک گروہ ہوتا ہے جو اس صفت پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اوّل میں تھا کہ وہ انہیں صادق سمجھتے تھے لیکن اسکے باوجود انکو جھٹلاتے بھی تھے۔ اور جس طرح لوگوں کی یہ قسم اس زمانے میں پائی جاتی تھی، یقینی بات ہے کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ چنانچہ لوگوں میں سے وہ کسی کے بارے میں جانتے ہیں کہ فلاں شخص سچا ہے ، لیکن اسکے باوجود جھٹلا دیتے ہیں۔ تو یہی تو وہ جحود یعنی ہٹ دھرمی ہے جسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ " فانہ لایکذبونک ولٰکن الظالمین فی آیات اللہ یجحدون" کہ یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے لیکن یہ ظالم لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔
لیکن آخر الزمان میں اس بات کا چلن تھوڑے سے مختلف انداز سے ہے۔ اور وہ یہ کہ چونکہ اس زمانے میں سچ کو جاننا بہت مشکل ہے ، سچ جھوٹ کے ساتھ مخلوط (mixed) ہوگیاہے اور یہ خلط اس قدر ہوچکا ہے کہ لوگوں کیلئے یہ امتیاز کرنا دشوار ہوچکا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ چنانچہ وہ سچے کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ سچا ہے۔ کس لئے؟ کیونکہ ذرائع ابلاغ کی اثر انگیزی کی شدت کی وجہ سے اب وہ اس علم پر نہیں رہے کہ سچ اور جھوٹ کو پہچان کر ان میں امتیاز کرسکیں۔
اور ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی سیاسی واقع رونما ہوتا ہے اور اسکے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں پے درپے مختلف قسم کی تاویلات، توجیھات اور تفسیرات مختلف جہتوں سے آنا شروع ہوجاتی ہیں، چنانچہ آپ کسی تجزیہ کار کا تجزیہ سنتے ہیں تو اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں اور جب اسکے مخالف کوئی رائے سامنے آتی ہے اور دوسرا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے تو آپ اسے بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ کبھی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بات درست ہے اور کبھی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں۔ ایسا لوگوں کی عقول کے ساتھ کھیلے جانے والے کھیل کی شدت کی وجہ سے ہے۔
چنانچہ یہ تجزیہ نگار، خصوصاّ جس طرح کے تجزیہ نگار ہمیں عالمِ عرب میں دکھائی دیتے ہیں، یہ عوام کی سادہ لوحی یا حماقت کا فائدہ اٹھا کر انہیں گمراہ کرنےکی دیدہ و دانستہ کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ شعوری طور پر لوگوں کی عقول کے ساتھ کھلواڑ نہ بھی کرتے ہوں ، تب بھی اس سارے عمل کا نتیجہ ایک ہی نکل رہا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کیلئے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی صلاحیت، پہلے کی طرح نہیں ہے ۔ چنانچہ جب وہ یہ امتیاز نہیں کرپاتے اور کسی ایسے کلام کو سنتے ہیں جس میں سچ اور جھوٹ کا احتمال ہو اور اقدار اور معیارات کے الٹ جانے کی وجہ سے وہ سچ اور جھوٹ کو سمجھ نہیں پاتے، چنانچہ اسکا آخر ی نتیجہ یہ نکلنے لگے گا کہ وہ سچے کو جھٹلا دیں گے اور جھوٹے کی تصدیق کر بیٹھیں گے۔
اور جب اس زمانے میں ، معاشرے میں یہ صفت غالب ہوگئی، تو اب لازم ہے کہ ہم اس سے ایک قاعدہ برآمد کریں، اور وہ یہ کہ آخر الزمان میں جو شخص حق کی جستجو کرنا چاہے، لازم ہے کہ وہ اپنے نتائج کو الٹ کر دیکھے۔ یہ ایک عمومی بات ہے اگرچہ ضروری نہیں کہ یہ نتیجہ ہر تفصیل کیلئے ہمیشہ درست ہی نکلے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ لگے کہ فلاں آدمی سچا ہے، تو اسے چاہئیے کہ اپنے نتیجے کو اسکے برعکس کرکے دیکھے۔ اور اسے جھوٹا سمجھے۔، اور جس کے بارے میں اسے محسوس ہو کہ وہ جھوٹا ہے، اسکو سچا جانے۔ چنانچہ جو بات اسکے نزدیک درست ہے وہ غلط ہوجائے گی اور جو بات غلط ہے وہ درست قرار پائے گی۔ لیکن یہ بات عموم کیلئے کہی ہے ، تفاصیل کیلئے نہیں۔ اور ہم اس وقت جس چیز کا تقاضا کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ کم از کم اس بات کیلئے تیار ہوں کہ وہ اپنے اخذ کردہ نتائج سے واپس پلٹ سکتے ہیں۔ چنانچہ آج کے انسان کو اب چاہئیے کہ وہ اپنے معیارات اور موجودہ اقدار پر اتنا بھروسہ نہ کرے کہ صرف انکے ذریعے سچ تک پہنچا جاسکتا ہے۔اگر وہ حق تک پہنچنے کی طلب رکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ وہ شروع سے لیکر آخر تک، ایک مرتبہ پھر نظر دوڑائے، ۔ اگر نہیں اور اسکو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، اور اسکے نزدیک حق اور باطل برابر ہے۔۔۔تو ہم ایسے شخص سے مخاطب ہی نہیں ہیں۔
ويخوَّنُ فيها الأمينُ ، ويؤتَمنُ فيها الخائنُ
(اور ان میں امانت دار کو خائن ٹھہرایا جائے گا جبکہ امانتیں خائن کے سپرد کی جائیں گی)یہ اسی طرح ہے جیسا سچے اور جھوٹے کے ساتھ ہوا ہے، چنانچہ مثال کے طور پر ہم سیاست سے تعلق رکھنے والے مناصب میں دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کو یہ مناصب سونپے گئے ہیں، ان کی ایک کثیر تعداد خائن ہے۔ اور امانت دار لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی انکو پوچھتا بھی نہیں ۔ عموماّ ایسا ہی ہوتا ہے اگرچہ استثناء (Exceptions) بھی پایا جاتا ہے جسے یاد رکھنا چاہئیے تاکہ ہم ظلم میں نہ پڑ جائیں۔ لیکن عمومی طور پر یہی ہے جو معاشرے میں نظر آرہا ہے کہ آئے دن ہم اخبارات میں یہ خبریں بھی پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں ذمہ دار شخص کا مواخذہ ہونا چاہئیے کیونکہ اس نے فلاں کام میں ناجائز طور پر مال کمایا یا اسی طرح کے دیگر الزامات جن کی تفصیل میں ہم جانا نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم اچھی طرح انہیں جانتے ہیں۔ لیکن صورتِ حال واضح ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کس طرح لوگوں کی اقدار اور معیارات پہلے سے برعکس ہو گئے ہیں جسکی طرف حدیث نے بھی اشارہ کیا۔اور یہ موجودہ زمانے میں ہورہا ہے۔
ويتَكَلَّمُ فيهاالرُّوَيْبضةُ.قيلَ: وماالرُّوَيْبضةُ؟قالَ: الفُوَيْسقُ يتَكَلَّمُ في أمرِ العامَّةِ
("اور اس زمانے میں میں رویبضہ کلام کیا کریں گے"۔ پوچھا گیا کہ رویبضہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا" گھٹیا لوگ، جو امورِ عامّہ میں گفتگو کیا کریں گے")
لازم ہے کہ ہم اس بات پر ذرا رکیں اور اسکی تفصیل میں جائیں۔۔ الرویبضہ کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تعریف کے مطابق رویبضہ فویسق کو کہا گیا ہے جو اپنے معاملات میں شرع کو مدِ نظر نہیں رکھتا، بلکہ اپنی ہوائے نفس کو مدِ نظر رکھتا ہے۔ اور دوسری روایت میں الرویبضہ کیلئے " الرجل التافہ" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی وہ شخص جسکی کوئی قدروقیمت نہ ہو، نہ کوئی علم، نہ کوئی ادراک ایک بے قیمت شخص۔،یعنی عوام العوام۔ عوام میں سے بھی ایک عام آدمی۔ اور ایسا شخص امورِ عامّہ یعنی سیاست وغیرہ پر گفتگو کیا کرے گا۔ اور آجکل جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ذرا گہرائی کی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے امور پر زیادہ تر گفتگو کرنے والوں کا تعلق اسی عوام العوام کے طبقے سے ہے۔، جنہیں نہ سیاست کی کوئی سمجھ ہوتی ہے اور نہ کسی اور بات کی۔ لیکن زمانہ اب انکا زمانہ ہے چنانچہ ایسے لوگ دوسروں کے امام بن گئے ہیں اور ہمارے لئے لائحہ ِعمل طے کرنے لگے اور ہماری راہ متعین کرنے لگے۔ اور ہم ان لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور یہ زمانے کے عجیب ترین امور میں سے ایک امر ہے۔
لیکن ایک مؤمن جو اللہ کا قصد رکھتا ہے، لازم ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھے، اگرچہ ہم اس زمان میں ہیں جس میں اقدار و معیارات پہلے سے برعکس ہوچکے ہیں، اور اس سے جو نتائج نکل رہے ہیں وہ بھی ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ پس ایک مؤمن کیلئے لازم ہے کہ وہ وہ اس روشِ عام سے اپنے آپ کو الگ کرے، تاکہ اس گمرہی سے نکل سکے۔ اور امور کو انکی حقیقت کے مطابق دیکھے پھر جو اس پر ظاہر ہو اسکے مطابق عمل کرے۔ یعنی لازم ہے کہ وہ حق کی پیروی کرے خواہ دوسروں کے نزدیک اور لوگوں کی اکثریت کے نزدیک اسے باطل سمجھا جارہا ہو۔ اور لازم ہے کہ وہ باطل سے مجتنب رہے، اگرچہ لوگ اس باطل کو حق سمجھ رہے ہوں۔
اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسکے لئے بہت شجاعت درکار ہے، اور بہت قوتِ برداشت چاہئیے، جو معمولی نہ ہو۔
اور جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اس زمانے کے معیار کی زندگی بسر کرے، اور آسانیوں میں گذر بسر ہو، کوئی مسئلہ کبھی پیدا نہ ہو، تو ہر زمانے میں ایسی زندگی گذارنے والے گذرے ہیں کہ جنکا طرزِ حیات حیوانات و بہائم جیسا رہا ہے، یعنی کھانا، پینا، اور خاموش رہنا، نہ انہیں امورِ عامّہ میں کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ دین سے کوئی دلچسپی۔
یہ ایک عمومی تصویر ہے ہماری موجودہ حالت کی، یعنی آخر الزمان اور ہمارے اس زمانے میں مسلمانوں کی حالت کی۔ ہم نے یہ سب اسلئیے کہا تاکہ ہم سب جان لیں کہ آجکل کا معروف فقہ ، فقہ نہیں ہے (اصلی معنوں کے اعتبار سے) اور نہ ہی رائج دین، اصلی دین ہے۔ اور جس بات کو آجکل تقویٰ سمجھا جاتا ہے وہ اصل تقویٰ نہیں۔ چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو ٹٹولیں، اور اپنے آپک کو بے لگام نہ چھوڑیں، تاکہ گروہِ دجال کے جال میں نہ پھنس سکیں کہ یہ روشِ عام اس گروہ کی مصلحتوں کے عین مطابق ہے۔ اور وہ اپنی اس کج روی پر مطمئن ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
(لیکچر کے بقیہ حصے کا ترجمہ)
پچھلے لیکچر(دین-1) میں ہم نے عبودیت اور ربوبیت کا ذکر کیا تھا اور یہ کہ کچھ لوگ اپنے تدیّن کے باعث عبودیت سے ربوبیت کی صفات کی طرف جا نکلتے ہیں۔ ہم اپنی اس بات کی کچھ مزید تفصیل یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ لازم ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ یہ بات بندے اور اسکے رب کے درمیان(confined) محصور ہے ، چنانچہ بندہ اپنے نفس کی کیفیت یا رویے(attitude) کے اعتبار سے یا تو عبد ہوگا یا رب۔ دونوں باتیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے علاوہ کچھ اور ہوسکے۔ مطلب یہ ہے کہ بندہ تو بندہ ہی ہے، چاہے صفات وہ ربوبیت ہی کی کیوں نہ اختیار کرنا چاہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے تدیّن کی بناء پر ربوبیت کی صفات اپناتا جاتا ہے چنانچہ لوگوں کو اس مقام سے دیکھتا ہے گویا وہ غلام ہوں ، اس سے نیچے ہوں۔ اور جو کوئی بھی لوگوں کو اپنے سے فروتر دیکھتا ہے، جانے انجانے میں وہ رب ہی بن رہا ہے۔
ربوبیت کی صفات معروف ہیں۔ ربوبیت کی صفات میں علمِ مطلق (Absolute Knowledge)، قدرتِ کاملہ(Absolute Power)، اور ارادہِ نافذہ(Implementing Will)، اور دیگر وہ تمام صفات ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتا ہے۔ چنانچہ بندوں میں سے کوئی بھی شخص، جسکو اپنے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ علمِ محیط(Encompassing knowledge) رکھتا ہے خواہ کسی ایک مسئلے پر ہی، تو وہ دراصل اپنے نفس میں ربوبیت کا اعتقاد رکھ رہا ہے، اور لوگوں پر رب کی حیثیت سے نظر ڈال رہا ہے، کیونکہ علمِ محیط اللہ کے سوا کسی کیلئے نہیں۔ اور جس شخص کو بھی یہ اصرار ہے کہ وہ دوسروںسے زیادہ جاننے والا ہے اور وجود میں اس سے زیادہ علم والا کوئی نہیں، تو وہ اپنے آپ کو ربوبیت کی صفت سے ہی تو موصوف کر رہا ہے۔
اور اگر لوگ اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ لوگوں کی غالب اکثریت اسی صفت پر ہے۔ حتیٰ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں سے جاہل ترین آدمی بھی، دوسروں کے سامنے اپنی رائے سے اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اگر وہ کچھ کہہ بیٹھا ہے اور بعد میں اسے پتہ چلتا ہے ، یا اسے بتاسیا جاتا ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ وہ غلط تھا، تو اسکے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بات سے رجوع کرلے، بلکہ مزید بحث مباحثہ اور دشمنی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اور اس ربوبیت سے نیچے نہیں اترتا جسکا وہ اپنے نفس میں اعتقاد رکھ رہا ہوتا ہے۔اور اسے اس بات کا پتہ بھی نہیں چلتا، بیشک اسے اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا۔
اور یہ صفت، صفتِ ربوبیت، رب کے کمال کی دلیل ہے۔ جب ہم نے کہا کہ علمِ مطلق کی صفت صرف اللہ سبحانہ کو سزاوار ہے اور اسکے حق میں یہ ایک کمال ہے، لیکن اسی صفت کو بندہ اگر اپنے آپ سے منسوب کرے یا اپنے جیسے دوسرے بندوں سے منسوب کرے، تو وہ اسکے حق میں نقص بن جاتی ہے۔ چنانچہ کمال اور نقص کا مسئلہ اسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ صفات جو حق تعالیٰ کے حق میں کمال ہیں، وہی صفات بندے کے حق میں اسکے نقص کی دلیل ہیں۔ کیونکہ یہ اسکے لئے نہیں ہیں۔ اورکسی بھی شخص، نے جب کسی ایسی صفت کا دعویٰ کیا جو اس کیلئے نہیں تھی، وہ کمال کی بجائے نقص میں جا داخل ہوا۔
اور عبودیت میں جو صفات کمال کی حامل ہوتی ہیں وہ ربوبیت کی صفات کے برعکس ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر بندہ یہ جانتا ہو کہ وہ جاہل ہے۔ کیونکہ بندہ جاہل ہی ہوتا ہے۔ " واللہ یعلم و انتم لاتعلمون"(اور اللہ جانتا ہے ، جبکہ تم نہیں جانتے) صدق اللہ العظیم۔ اور یہ بات علی الاطلاق درست ہے، کہ ہم علم نہیں رکھتے۔ اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ اگر ہم علم نہیں رکھتے تو پھر لوگوں کے ساتھ علم کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ ۔ ہم یہ کہتے ہیں یہ ضروری ہے کہ کلام کو اسکے متعلقہ مراتب اور متعلقہ حضرات(Reference planes) کے مطابق سمجھا جائے۔ ہمارا جہلِ تام (Absolute ignorance) پر ہونا ہماری حقیقت ہے۔ رہی یہ بات کہ ہم لوگ جب علم سے متصف کئے جاتے ہیں تو یہ علم افاضہ الٰہی اور جودِ الٰہی کی جہت سے ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ عالم کو علم اللہ کی جانب سے ملتا ہے" وما اوتیتم من علم الّا قلیلا" (اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ بہت قلیل)۔ یہ علم وہ ہے جو اس نے عطا کیا ہے۔ آیت سے بات واضح ہورہی ہے کہ علم ہمارا اپنا نہیں ہے بلکہ ہمیں دیا گیا ہے۔ اور صفت وہ ہوتی ہے جو ذاتی ہو۔ صفت چاہے حق سبحانہ کی ہیلئے ہو یا بندوں کیلئے، وہ ذاتی ہی ہوتی ہے۔ اور ہم اپنی ذاتیت کی جہت سے جہّال ہیں، جہلِ مطلق اور جہلِ تام پر ہیں۔ واللہ یعلم و انتم لاتعلمون۔ ہم نہیں جانتے، وہ جانتا ہے۔ اور اگر ہماری یہ صفت ہر دم ہمارے پیشِ نظر رہے، اور اس پر ہم کوئی اضافہ نہ کریں، اور اس حقیقت سے کبھی حجاب میں نہ رہیں، اور اسے کبھی نہ بھولیں، تو یہی عبودیت کا کمال ہے۔ اور اس کمال کا اتمام(Completion) انبیاء اور انکے وارثین کے سوا اور کسی میں نہیں پایا جاتا۔
علم کی طرح قدرت کی صفت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ قدرتِ مطلقہ ربوبیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اور جب یہ حق تعالیٰ کے حق میں کمال ہے، تو اگر بندہ پنے نفس میں قدرت کا زعم رکھے تو یہ اسکے لئے نقص کی حیثیت رکھتی ہے۔
چنانچہ پہلی صفت یعنی علم کا زعم، اس میں زیادہ تر علماؑ گرفتار ہوتے ہیں اور انکے نفوس میں ربوبیت داخل ہوتی ہے جب انہیں دوسرے سے زیادہ عالم ہونے کا وہم لاحق ہوجائے۔ یا کسی ایک علمی مسئلے میں بھی انہیں سب سے زیادہ عالم ہونے کا زعم ہوجائے۔ کیونکہ کسی ایک مسئلے میں بھی ہم لوگ علم کے اعتبار سے اسکی ہر جہت کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
یہی حال قدرتِ کاملہ کا ہے۔ اور اسکے زعم میں زیادہ تر حکّام گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں جو تصرف عطا کیا ہوتا ہے وہ اسی کے سبب اپنی حقیقت سے حجاب میں پڑ جاتے ہیں ۔ چنانچہ جس طرح علماء کا علم انکا اپنا نہیں ہے، اسی طرح حکّام کا تصرف اور قدرت انکی اپنی صفت نہیں ہے۔ چنانچہ جب حاکم یہ دیکھتا ہے کہ لوگوں میں اسکا تصرف اور اسکی قدرت چل رہی ہے، تو وہ ربوبیت میں جا داخل ہوتا ہے۔ اور یہیں سے وہ بندگی میں ناقص قرار پاتا ہے۔ چنانچہ جتنی اس میں ربوبیت ہوگی اتنا ہی وہ ناقص ہوگا۔
اور یہی معاملہ ارادے کی صفت کا بھی ہے، الیٰ غیر ذالک۔
ہماری اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر بندے کا دین سلامت رہے یعنی اسکا تدیّن سلامتی پر رہے، تو اسکا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ عبودیت میں زیادہ سے زیادہ راسخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اسے وصل حاصل ہوتا ہے اگر وہ واصلین میں سے ہو تو، جیسا کہ ہم نے آغاز میں بیان کیا۔ چنانچہ وہ عبودیت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اسکی عبودیت کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اور اگر اس میں ربوبیت کی جس قدر رمق باقی رہ گئی ہو تو وہ اسی قدر ناقص سمجھا جاتا ہے۔
لیکن آج کے دور میں ہم دین کو اس منطق سے نہیں دیکھتے۔ کیونکہ اس دور میں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آدمی اگرچہ مذہبی ہوتا ہے، لیکن اسے اپنے نفس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ یہ عبد بن رہا ہے یا رب۔ لفظ رب سے ہم ذرا صرفِ نظر کرتے ہپیں کیونکہ حقیقت میں تو تمام انسان اللہ کے بندے یعنی اسکے عباد ہی ہیں، انہیں یہ ربوبیت کا زعم ہی لاحق ہوتا ہے، حقیقت نہیں۔
چنانچہ جب ہم صورتِ حال دیکھتے ہیں انسان کی، تو اسکا قول و فعل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اسکے ساتھ کیا معاملہ چل رہا ہے۔ چنانچہ ہم نے کئی بار دیکھا کہ آدمی اللہ کیلئے اتنا غصہ نہیں کرتا جتنا اپنے نفس کیلئے کرتا ہے۔ نوبت یہاں تک ہے کہ گویا اللہ کیلئے کبھی بھی غضب میں نہیں آتا، اسکے سامنے حرمات اللہ کی ہتک کی جارہی ہو، نفس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی تم نے اسکے لباس کا کونا چھوا، تو تمہارے اس فعل پر بہت زیادہ ملامت کرنے لگے گا۔ اور بعید نہیں کہ ارد گرد کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تم پر حملہ کربیٹھے۔
اور مصیبت یہ ہوئی کہ یہ صفت مھض افراد تک مھدود نہیں رہی، بلکہ جماعتوں کی سطح تک بھی سرایت کرچکی ہے۔ اگر مسئلہ صرف افراد تک رہتا تو اتنا پریشان کن نہیں تھا۔ مرض جب چند افراد میں محصور رہے تو اتنا تباہ کن نہیں ہوتا جتنا متعدی ہونے کی شکل میں ہوتا ہے۔کیونکہ اس وقت وہ مرض وباء کی صورت اختیار کرکے انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ چنانچہ اب ربوبیت کی صفات سے اتصاف ایک وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ چنانچہ یہاں اس دور میں اب افراد ہی نہیں بلکہ جماعتیں ہیں جو ربوبیت کی صفات لئے ہوئے ہیں۔
چنانچہ اسی روش پر چلتے چلتے، دین اب دین نہیں بلکہ کوئی اور صورت اختیار کرگیا، اور ان نتائج تک پہنچانے لگا جو اسکا مقصد (Objective) نہیں تھے۔ اور نہ ہی انکی نیت (intention)تھی۔ چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچی اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے دین کے ذریعے دنیا ملنے لگی۔ چنانچہ لوگوں میں سے کئی لوگ تدیّن اختیار کرتے ہیں تاکہ اسکے ذریعے لوگوں پر اثرانداز ہوں اور وہ لوگ اپنا مال عطیہ کریں۔ اور کچھ لوگ تدیّن کو اسلئیے اختیار کرتے ہیں تاکہ اسکے ذریعے سیاسی مقاصد میں کامیاب ہوں، تاکہ انکی جماعت کامیاب ہو، یا حکومتی مناصب حاصل ہوں۔
چنانچہ تدیّن میں انحراف (Deviation) آجانے سے اسکی غایات اور نتائج میں بھی انحراف آگیا۔ چنانچہ لوگ اپنے آپ سے یہ نہیں پوچھتے کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اور کیا ہم وحی کے موافق چل رہے ہیں یا مخالف؟
ہم پچھلے لیکچر اور اس لیکچر میں دین اور تدیّن کے معانی کے حوالے سے جو کچھ آسانی سے بیان ہوسکا، وہ بیان کر رہے ہیں۔ اور ان شاء اللہ اگلے لیکچرز میں ہم دین کی تفاصیل میں بھی جائیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ ملتبس کو کسی قدر واضح کرپائے، یا یہ کہ کم از کم اگلے لیکچرز میں واضح کرپائیں گے۔ اور امید کرتے ہیں کہ جو کچھ ان لیکچرز میں ابھی تک بیان ہوا ہے، وہ اس امتِ شریفہ کی خدمت کیلئے ہے اور اگلے لیکچرز میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اور ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمام دیکھنے اور سننے والوں کیلئے توفیق طلب کرتے ہیں۔
وصل اللہ و سلم علیٰ سیدنا محمد نور ابصارنا و بصائرنا و علیٰ آلہ و صحبہ۔ والحمد للہ رب العالمین۔
(اور االلہ کی سلامتی اور درود ہوں ہمارے آقا اور سردار محمد پر جو ہماری آنکھوں اور ہماری بصیرتوں کا نور ہیں۔ اور انکی آل پر اور اصحاب پر۔ اور سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے)۔
 

الشفاء

لائبریرین
ذہن کے دریچے کھولتی ایک بہترین شیئرنگ، خوبصورت ترجمے کے ساتھ۔۔۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔
پچھلے لیکچر کا لنک بھی اس دھاگے میں لگا دینا مفید رہے گا۔۔۔:)
 
آخری تدوین:
Top