دیوار پہ دستک۔ 515 پاکستانیوں کی شہادت۔ منصور آفاق

منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک
515
پاکستانیوں کی شہادت
منصور آفاق
آئو اپنے اپنے شیطانوں کو کنکریاں ماریں۔اُس روایت پر عمل کریں جو ابراہیم علیہ اسلام سے چلی ہے ۔اُس علامت کو اپنی زندگیوں پر محیط کریںجومناسکِ حج سے طلوع ہورہی ہے۔ اُس وقت کو یاد کریں جب دست پیغمبر سے کنکر نکلے اور شیطان ِ بزرگ کے ماتھے میں پیوست ہوگئے ۔آئیے کنکریاں مارنے کا یہ متبرک عمل بار بار کریں ۔کم از کم سات بار ضرورکریں۔اپنے اپنے شیطانوں کو ہم جانتے ہیں پہچانتے ہیں۔ہمیں خبرہے نواح ِ ذات میںکتنے شیطان آباد ہیں۔کتنے خون کی طرح رگوں میںدوڑ رہے ہیں۔ مکر و ریا کے کتنے انعام یافتہ لمحے ہمیںروز گزارنے پڑتے ہیں۔ہم کتنے ایسے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہیں۔ انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دئیے ہیںجن کے ایک ایک لفظ میں ہزار ہزار دامِ فریب چھپے ہوتے ہیں۔ہمیں سب معلوم ہے ۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قبائے زہد و تقوی میں کتنے ابلیس موجود ہیں۔
شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا عمل ایک ایسی علامت ہے جسے ہم نے اپنی بستیوں میں کبھی پھیلنے نہیں دیا۔معززین ِ شہر کے چہروں سے کبھی سفیدنقابیں نہیں نوچیں۔کبھی برے کو برا نہیں کہا کیونکہ برائی طاقت ور ہوتی ہے ۔اس کے پاس دھن کے ڈھیر ہوتے ہیں۔وہ وسائل سے مالا مال ہوتی ہے ۔شیطانوں کوکنکریاںمارنے کا عمل صرف ہمارے گرد و نواح میںہی نہیں دوران ِحج بھی کبھی کبھی خطرناک ہوجاتا ہے ۔حج کی تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوںسے اس عمل کے دوران حادثات ہوتے چلے آرہے ہیں۔لوگوں کا خیال تھاکہ شیطان کو کنکریاں مارنے والے جس راستے سے جاتے تھے چونکہ انہیں اسی راستے سے پلٹنا ہوتا تھااس لئے اکثربھگدڑ مچ جاتی ہے ۔لوگ کچلے جاتے ہیں۔پھر آنے اور جانے کے راستے الگ کردئے گئے مگر حادثے جاری رہے ۔شیطانوں سے ٹکرانا آسان نہیں ہوتا۔ابھی ڈیڑھ مہینہ پہلے جو سانحہ ء منیٰ ہوا۔اُس کے متعلق کچھ احتجاجی آواز یںسماعتوں سے ٹکرائیںمگر ہم پاکستانیوں نے اللہ کی مرضی قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی۔بے شک موت برحق ہے مگر اللہ قاتلوں کے ساتھ نہیں ۔پھر زلزلہ آگیا مگر اس معاملے میں اپنا رویہ تھوڑا مختلف ہے ۔ اگرچہ زلزلوں کا شمار قدرتی آفات میں ہوتا ہے مگرہم مسلسل ہر اُس تدبیر پر غورکر رہے ہیں جوہمیں زلزلوں سے محفوظ رکھ سکے ۔موجودہ زلزلے میں اڑھائی سو کے قریب لوگ شہید ہوئے ۔بے شک یہ بھی ایک بڑا سانحہ تھا ۔اِس کا دکھ بھی کوئی کم نہیں مگر سانحہ ء منٰی کے شہیدوں کی نئی تعدادکسی چیخ کی طرح میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔پانچ سو پندرہ پاکستانی شہید ہو گئے اورکوئی بولا ہی نہیں۔کوئی آواز ہی نہیں سنائی دی ۔ لوگوں تک درست تعداد پہنچ ہی نہیں سکی۔کیا کہا جائے وزرات ِ مذہبی امور سے۔جسے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد بھی یہ علم نہیں ہوسکا کہ سانحہ ء منٰی میں کتنے پاکستانی شہید ہوئے تھے۔اب جب سعودی وزارت صحت نے مکمل اعداد و شمار شائع کئے ہیںتو کسی نے مذہبی امور کے حکام کے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالا۔بس پچھلے گلی میں کہیں کہہ دیا گیا کہ شہداء کی کل تعداد 7477ہے جن میں 515پاکستانی ہیں۔میرے خیال ہے اس اعلان کے بعد صرف وفاقی وزیرمذہبی امور کو ہی نہیں وزارت کے بہت سے بیور و کریٹس کو بھی مستعفی ہو جانا چاہئے۔ماضی ء قریب میںمذہبی امور کی وزارت میں ایک سیکنڈل یہ ہوا تھاکہ کچھ پاکستانی کو منیٰ کو خیمے نہیں مل سکے تھے اور ایک وفاقی وزیر کو کافی عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیں۔یہ نااہلی تو اُس سے ہزار گنہ بڑھ کر ہے مگرپوچھنے والے شاید ان دنوں بلدیاتی انتخابات میں مصروف ہیں۔کیا عجیب بات ہے کہ جنہوں نے حج کے لئے لوگ بھیجے وہاں رہائشیں دیں ان کی نگہداشت کیلئے ان سے ایک فیس وصول کی ۔ان لوگوں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کتنے حجاج شہید ہوئے ہیں۔ان کی بیان کردہ تعداد ابھی تک ایک سو اٹھ سے نہیں بڑھی تھی ۔پچھلے دنوں جب ایک برطانوی اخبار نے یہ دعویٰ کیا تھا سانحہ ء منٰی میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد 236ہے تو اس کی سختی سے تردید کر دی گئی تھی۔ حج کے موقع پر ساڑھے سات ہزار کے قریب حجاج کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔حج کی تاریخ میں اس سے بڑا سانحہ نہیں ہوامگرابھی تک اس بات کا بھی فیصلہ نہیں ہوسکا کہ اتنے ہولناک واقعہ اصل سبب کیا ہے۔
حج ابر اہیم علیہ السلام سے شر وع ہوا۔ اللہ تعالی نے کہا''اے ابراہیم تم انسانوں کو دعوت دو کہ وہ حج کیلئے آئیں۔ عر بو ں نے بھی اسے اختیا ر کئے رکھا لیکن حج کی رو ح ختم ہورہ گئی حج ایک رسم بن کر رہ گیا۔اسکی حیثیت مکہ میں منعقد ہونے والے ایک میلہ سی ہو گئی ۔حضورسرورِ کائنات آئے تو حج کی روح پھر زندہ ہوئی ۔مقاصد سامنے آئے کہ رنگ و نسل قومیت و وطنیت کے بت توڑ کر تمام نوع انسانی ایک مقام پر لایاجائے جس کی قیادت وہ امت کرے جو امن اور انصاف کی نگہبان ہو۔ رحمت اللعا لمین نے حجتہ الو دا ع کے موقع پر فرمایا۔ کسی عر بی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کوکسی عر بی پر ،کسی گو ر ے کو کسی کالے پر، کسی کا لے کو کسی گو رے پر، کوئی فضلیت نہیںبجز تقو ی ۔
دنیا بھر کے لاکھوںمسلما ن ہر سال فر یضہ جج ادا کرتے ہیں مگرسچ یہ ہے کہ حج کے مقا صد حقیقی نگا ہو ں سے او جھل ہوتے جا رہے ہیں ۔یہ عظیم فریضہ آہستہ آہستہ بے رو ح رسم بنتا جارہاہے۔اسی سبب اتنے خوفناک سانحے سامنے آرہے ہیں ۔صرف اسباب وعلل کی تمنامیں حجاج کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگرانہیں سنبھا لنا ، مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔مقدس ترین مقام پربد نظمی بڑھ رہی ہے ۔آسمان پوچھتا ہے کہ یہ کیسے حجاج ہیں جو دوسروںاپنے پا ئو ں تلے کچل کرخدا تک پہنچنا چاہتے ہیں۔کیا قیامت ہے کہ ایک دفعہ جو گر جا تا ہے پھر اسے دوبارہ اٹھنا نصیب نہیں ہو تا۔علامہ اقبال نے اس عمل طو ا ف و حج کا ہنگا مہ کہا تھا جب مقا صد فنا ہو جائیں تو فر ائض رونق ء ہنگا مہ ہی بن کر رہ جا تے ہیں ۔
ہے طواف حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
 
Top