منصور آفاق
محفلین
منصورآفاق
رنگ اس طاقت کو کہتے ہیں جو ہمیں ایک حسیاتی تجربے سے دوچار کرتی ہے ۔رنگوں کی فلاسفی پر بحث کی جائے تو ایسے سوالات سامنے آجاتے ہیں کہ رنگوں کی فطرت کیا ہے ؟ ان کی اصلیت کیسی ہی؟ اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیاہر شخص میں رنگوں کو سمجھنے کی اتنی قابلیت ضروری ہے کہ وہ ان کا صحیح تصور کرتے ہوئے انہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پراستعمال کر سکے ؟ لمحہ ء موجود کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں رنگوں کے بے تحاشا استعمال نے معنی کے اعتبار سے انہیں ایک وسیع بصری فرہنگ سے وابستہ کر دیا ہے ۔رنگوں کی معنویت مختلف تہذیبوں اور ادوار میںبدلتی بھی رہتی ہے ۔ایک وقت تھا کہ رومن تہذیب میں جامنی رنگ طاقت ، اقتدار اور اشراف کا رنگ سمجھا جاتاتھا اور بڑے لوگ جامنی رنگ کے فرغل پہنتے تھے ۔ ابھی دوسری جنگِ عظیم سے پہلے یورپ اور امریکہ میں سرخ رنگ بہت زیادہ پہنا جاتا تھالیکن جنگ ختم ہونے کے بعد لوگوں نے ہلکے نیلے رنگ کے ملبوسات پہننے شروع کردئیے ۔۔ شاید امن کی علامت کے طور پر ۔ ۔ ۔ رنگوں کو دیکھ کر انہیں استعمال کرنے والے کی شخصیت کو کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہی۔مصوری کی تنقید کے باب میں تویہ کام بہت ہواہے مگرادب میں شایدہی کسی نے کیا ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی تخلیق کار کے رنگوں کو دیکھ کر اس کی لاشعوری گرہیں کھولی جاسکتی ہیں ۔ غالب کی شاعری میں سبز رنگ کی کثرت ہے اور شاید یہی چیز اسے پچھلی دو صدیوں سے مرجھانے نہیں دے رہی۔کیونکہ سبزرنگ کائنات انسانی شخصیت کوسب سے زیادہ فرحت پہنچانے رنگ ہی۔ زندگی کا رنگ ہے ۔ نمو کا رنگ ہے ۔ نرم روی کا رنگ ہے ۔کشادہ دلی کا رنگ ہی۔ اس وقت رنگوں کے وساطت سے میں ساقی فاروقی کے کینوس کودیکھنا چاہ رہا ہوں ۔
ساقی فاروقی کی شاعری میں جو رنگ بہت بِکھرا دکھائی دیتا ہے وہ سرخ رنگ ہی۔یہ رنگ رنگوں کی دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ رنگ ہے ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگرکسی شخص کو کسی ایسے کمرے میں قید کردیا جائے جہاں اس کی نگاہ صرف سرخ رنگ میں محدود ہو کر رہ جائے تو وہ شخص کچھ عرصہ میں نفسیاتی مریض ہو جائے گا۔ خودرنگ بنانے والے نے اس رنگ کا استعمال بہت کم کیا ہی۔ کائنات کو دیکھا جائے توسورج کے طلوع و غروب میں اس رنگ کی عمل داری نظر آتی ہے یا کہیں کہیں پھولوں ،پھلوں اور سبزیوں میں یہ رنگ جھلکتا ہے ورنہ کائنات میں سفیدی اور سیاہی کے بعدصرف ہرے اور نیلے رنگ کی جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں۔سرخ رنگ کی وحشت کو چھپانے کیلئے فطرت بھی اسے ڈھانپتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جانداروں میں یہ رنگ لہو کی صورت میں دوڑتا پھرتاہے مگر بدن کے لباس کے اندر۔ہرر نگ کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں سرخ رنگ جہاں غصہ ، تشدد، ظلم اوربے رحمی کا عکاس ہے وہاں اس میں جرات، بہادری ،خوشی اور مہم جوئی کی علامت بھی موجود ہے۔سرخ رنگ کی اِنفرادیت اور شِدت کے اظہار کیلئے یہی بات بہت ہے کہ یہ رنگ بتدریج ایک طرف پیلے رنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دوسری سمت نیلے رنگ میں ۔ اسے فطرت کے ہرے رنگ میں تبدیل ہونے کیلئے ان دونوں رنگوں میں سے کسی ایک رنگ میں سے گزرنا ضروری ہے۔۔ انیسویں صدی کے آغاز میں روس میں آنے والے اشتراکی انقلاب کے ساتھ یہ رنگ بہت ابھرکر سامنے آیا اور اسے حتمی طور پرانقلاب کے رنگ کا اعزاز حاصل ہو گیا ۔پوری دنیا کے انقلابیوں نے اِسے اپنے ماتھے پر سجا لیا۔اردو اد ب میں بھی اسی رجحان کے تحت سرخ رنگ کثرت سے استعمال ہوا۔ خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب میں اس رنگ کی پر چھائیاں بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں ۔ جہاں تک میرے علم میں ہے ساقی فاروقی نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند تحریک سے کبھی وابستہ نہیں رہے اور اشتراکیت سے ان کی وابستگی صرف اِس حد تک ہے کہ انہوں نے اپنے کتے کانام ’’کا مریڈ‘‘ (مرحوم )رکھا ہوا تھا ۔اس لئے ساقی فاروقی کی شاعری کے سرخ رنگ سے لتھڑے ہوئے ہونے کی وجہ کسی طرح کی نظریاتی وابستگی نہیں ۔ ساقی فاروقی کے پاس سرخ رنگ کا استعمال مثبت اور منفی دونوں رویوں میں موجود ہے اپنے قطعی مفہوم کے ساتھ بھی اور تفصیلی اعتبار سے بھی ۔ انہوں نے جہاں بھی سرخ رنگ کو بکھیرا ہے وہاں اسے معنویت سے محروم نہیں ہونے دیا۔وہ جب کہتے ہیں ’’غصہ کی سرخ شال میں ‘‘ تو یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سرخ شال کیوں کالی کیوں نہیں کیونکہ سرخ رنگ غصہ کی علامت ہے ۔ ان کے پاس ’’پان دار بوسے ، شہوت کے سرخ ڈورے ، مہندی کے رنگ،سرکش خون فروش،خونی کار، رات کی خونیں تصویریں ،شرمیلی سی بیر بہوٹی،لال چھڑی ،بھل بھل بہتے خون میں لت پت،میلی صبح میں سرخ رنگ ،آنگن کی دلہن ،سورج ڈوب رہا تھا، انگاروں کی بھٹی ،سرخ گلاب ،مقتل ، افق سرخ تھا،سرخ زہر میں بچھی زرد زرد بالیاں،سرخ لبوں کا دھیان ‘‘جیسی بے شمار علامتیں موجود ہیں جو اُن کی شاعری کے پورے منظر نامے کو سرخ کئے ہوئے ہیں مگر اس تصویر میں سب سے اہم کردار خون کا ہے۔ خون سے ساقی فاروقی کی رغبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کانام بھی اپنی ایک نظم’’بلڈ بینک ‘‘ کے عنوان پررکھا ہوا ہے۔ وہ اپنی اس نظم میں کہتے ہیں ’’پھر ان گنت سیال موتی سیلِ خوں میں بہہ گئی‘‘اور یہ سیلِ خوںمجھے ان کی نظم ’’جوئے خوں‘‘ کی طرف لے جاتا ہے ’’ کوئی دیکھے مجھے ۔ بہہ رہی ہوں یونہی ۔ سالہاسال سے ‘‘۔خون بہنے کی علامت ساقی کے پاس ایک ایسی عجیب و غریب وسعت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے جو مقتل کی صبح سے شروع ہوتی ہے ،ٹیلی ویژن کی شریانوں سے پھوٹ پھوٹ کر بہتی ہوئی مہواری کے مردہ لہو تک پہنچ جاتی ہے اور سرچشمہ ء خون یعنی زخم ان کے پاس ایک ایسا استعارہ ہے جو ہر لمحہ اپنا مفہوم بدل لیتا ہے ۔ جب وہ کہتے ہیں ’’زخم سے معافیاں نہ مانگ‘‘تو یہاں زخم کی معنویت کچھ اور ہے مگر’’نئے زخموں کی بدحواس زمیں‘‘ اور’’ جو زخم کہ سرخ گلاب ہوئے ‘‘ میں زخم کسی اور تفہیم سے بھر جاتا ہے۔اور جب یہ کہتے ہیں’’مگر نگاہِ سیپی کے ایک زخم کا سوگ‘‘ یا ’’خون سے دائرہ ء خواب بنانا ہو گا‘‘تو زخم کا مطلب ہی بدل جاتا ہے۔
ساقی فاروقی کی بیشتر نظمیں سرخ رنگ میں ملبوس ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کے پسِ منظر میں ساقی کی وہ جبلت کار فرما ہے جو کسی ’’انتباہ ‘‘کو دیکھ کر انسان کواس کے برعکس عمل کرنے پر مجبور کرتی ہی۔ سرخ نشان خطرے کی علامت ہے ۔ لوھے یا انسان کو گرم کیا جائے تو وہ سرخ ہو جاتا ہے ۔بیل کے سامنے سرخ کپڑا لہرا یا جائے تو وہ طیش میں آکرحملہ کر دیتا ہی۔لال جھنڈی لہرانے سے ٹرین یا ٹریفک روکی جاسکتی ہے ۔ریڈ لائٹ ایریاء دنیا کے ہر معاشرہ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔فٹ بال کے میدان میں سرخ کارڈ دِکھا کر کھلاڑی کو میدان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔یعنی ساقی فاروقی نے خطرے کے نشان سے بغاوت کرتے ہوئے اردو ادب میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جسے مشرقی تہذیب کی ضِدسمجھا جاسکتا تھا۔ شاعری میں جنسیات ساقی کا ایک اہم موضوع ہے اور جنسیات میں بھی کراہت آمیزجنسی تعلق ۔ اگرچہ جنسیات کا رنگ نیلا ہے مگر ساقی کے پاس اس کی وحشیانہ کراہت آمیزی نے اسے خون سے لت پت کردیا ہے۔ میں سرخ رنگ کے اظہار کے مثبت پہلو نظر انداز نہیں کررہامگر میرے نزدیک اس مثبت عمل کی تہہ میں بھی کوئی منفی رویہ موجود ہے جس طرح اسٹیشنوں پر سامان اٹھانے والے قلیوں کی وردی سرخ ہوتی ہے اور اسی اسٹیشن پر جب کسی بڑی شخصیت نے اترنا ہوتا ہے تو وہاں ریڈ کارپٹ یعنی سرخ قالین بِچھایا جاتا ہی۔
ساقی کے پاس موجود سرخ رنگ اپنی تمام تر شِدت ، بے رحمی اور وحشت کے ساتھ جنسیت سے وابستہ ہے ’۔’ سرخ لب ، مشرقی دلہن کی سرخ لباسی ،شب باشی کا زندہ لہو ، عورت کا مردہ لہو، شہوت کے سرخ ڈورے ، سرخ آبدوزیں، سرخ جزیرے، نافِ زخم، شہ رگ میں اترتا ہوانامردی کا ٹوٹا استرا، خبروں کی خوں پاشی، زرخیز بدن پر کھِلتے ہوئے سرخ دھبے، پتلیوں میں جمع ہوا خون، لہو میں صدا کے ہلکوری، بستر پر پہلی جنگِ عظیم‘‘ان بے شمار لال لال مثالوں میں سے فقط چندحوالے ہیں جِن سے میں یہ کہنے پر حق بجانب ہوں کہ مجموعی طور پر ان کی شاعری سے ’’ریپ‘‘ ہوتی ہوئی زندگی کا تصور ابھرتا ہے یعنی دست درازی سے نبرد آزما ، زخم زخم ،لہو لہان زندگی۔
رنگ اس طاقت کو کہتے ہیں جو ہمیں ایک حسیاتی تجربے سے دوچار کرتی ہے ۔رنگوں کی فلاسفی پر بحث کی جائے تو ایسے سوالات سامنے آجاتے ہیں کہ رنگوں کی فطرت کیا ہے ؟ ان کی اصلیت کیسی ہی؟ اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیاہر شخص میں رنگوں کو سمجھنے کی اتنی قابلیت ضروری ہے کہ وہ ان کا صحیح تصور کرتے ہوئے انہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پراستعمال کر سکے ؟ لمحہ ء موجود کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں رنگوں کے بے تحاشا استعمال نے معنی کے اعتبار سے انہیں ایک وسیع بصری فرہنگ سے وابستہ کر دیا ہے ۔رنگوں کی معنویت مختلف تہذیبوں اور ادوار میںبدلتی بھی رہتی ہے ۔ایک وقت تھا کہ رومن تہذیب میں جامنی رنگ طاقت ، اقتدار اور اشراف کا رنگ سمجھا جاتاتھا اور بڑے لوگ جامنی رنگ کے فرغل پہنتے تھے ۔ ابھی دوسری جنگِ عظیم سے پہلے یورپ اور امریکہ میں سرخ رنگ بہت زیادہ پہنا جاتا تھالیکن جنگ ختم ہونے کے بعد لوگوں نے ہلکے نیلے رنگ کے ملبوسات پہننے شروع کردئیے ۔۔ شاید امن کی علامت کے طور پر ۔ ۔ ۔ رنگوں کو دیکھ کر انہیں استعمال کرنے والے کی شخصیت کو کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہی۔مصوری کی تنقید کے باب میں تویہ کام بہت ہواہے مگرادب میں شایدہی کسی نے کیا ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی تخلیق کار کے رنگوں کو دیکھ کر اس کی لاشعوری گرہیں کھولی جاسکتی ہیں ۔ غالب کی شاعری میں سبز رنگ کی کثرت ہے اور شاید یہی چیز اسے پچھلی دو صدیوں سے مرجھانے نہیں دے رہی۔کیونکہ سبزرنگ کائنات انسانی شخصیت کوسب سے زیادہ فرحت پہنچانے رنگ ہی۔ زندگی کا رنگ ہے ۔ نمو کا رنگ ہے ۔ نرم روی کا رنگ ہے ۔کشادہ دلی کا رنگ ہی۔ اس وقت رنگوں کے وساطت سے میں ساقی فاروقی کے کینوس کودیکھنا چاہ رہا ہوں ۔
ساقی فاروقی کی شاعری میں جو رنگ بہت بِکھرا دکھائی دیتا ہے وہ سرخ رنگ ہی۔یہ رنگ رنگوں کی دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ رنگ ہے ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگرکسی شخص کو کسی ایسے کمرے میں قید کردیا جائے جہاں اس کی نگاہ صرف سرخ رنگ میں محدود ہو کر رہ جائے تو وہ شخص کچھ عرصہ میں نفسیاتی مریض ہو جائے گا۔ خودرنگ بنانے والے نے اس رنگ کا استعمال بہت کم کیا ہی۔ کائنات کو دیکھا جائے توسورج کے طلوع و غروب میں اس رنگ کی عمل داری نظر آتی ہے یا کہیں کہیں پھولوں ،پھلوں اور سبزیوں میں یہ رنگ جھلکتا ہے ورنہ کائنات میں سفیدی اور سیاہی کے بعدصرف ہرے اور نیلے رنگ کی جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں۔سرخ رنگ کی وحشت کو چھپانے کیلئے فطرت بھی اسے ڈھانپتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جانداروں میں یہ رنگ لہو کی صورت میں دوڑتا پھرتاہے مگر بدن کے لباس کے اندر۔ہرر نگ کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں سرخ رنگ جہاں غصہ ، تشدد، ظلم اوربے رحمی کا عکاس ہے وہاں اس میں جرات، بہادری ،خوشی اور مہم جوئی کی علامت بھی موجود ہے۔سرخ رنگ کی اِنفرادیت اور شِدت کے اظہار کیلئے یہی بات بہت ہے کہ یہ رنگ بتدریج ایک طرف پیلے رنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دوسری سمت نیلے رنگ میں ۔ اسے فطرت کے ہرے رنگ میں تبدیل ہونے کیلئے ان دونوں رنگوں میں سے کسی ایک رنگ میں سے گزرنا ضروری ہے۔۔ انیسویں صدی کے آغاز میں روس میں آنے والے اشتراکی انقلاب کے ساتھ یہ رنگ بہت ابھرکر سامنے آیا اور اسے حتمی طور پرانقلاب کے رنگ کا اعزاز حاصل ہو گیا ۔پوری دنیا کے انقلابیوں نے اِسے اپنے ماتھے پر سجا لیا۔اردو اد ب میں بھی اسی رجحان کے تحت سرخ رنگ کثرت سے استعمال ہوا۔ خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب میں اس رنگ کی پر چھائیاں بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں ۔ جہاں تک میرے علم میں ہے ساقی فاروقی نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند تحریک سے کبھی وابستہ نہیں رہے اور اشتراکیت سے ان کی وابستگی صرف اِس حد تک ہے کہ انہوں نے اپنے کتے کانام ’’کا مریڈ‘‘ (مرحوم )رکھا ہوا تھا ۔اس لئے ساقی فاروقی کی شاعری کے سرخ رنگ سے لتھڑے ہوئے ہونے کی وجہ کسی طرح کی نظریاتی وابستگی نہیں ۔ ساقی فاروقی کے پاس سرخ رنگ کا استعمال مثبت اور منفی دونوں رویوں میں موجود ہے اپنے قطعی مفہوم کے ساتھ بھی اور تفصیلی اعتبار سے بھی ۔ انہوں نے جہاں بھی سرخ رنگ کو بکھیرا ہے وہاں اسے معنویت سے محروم نہیں ہونے دیا۔وہ جب کہتے ہیں ’’غصہ کی سرخ شال میں ‘‘ تو یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سرخ شال کیوں کالی کیوں نہیں کیونکہ سرخ رنگ غصہ کی علامت ہے ۔ ان کے پاس ’’پان دار بوسے ، شہوت کے سرخ ڈورے ، مہندی کے رنگ،سرکش خون فروش،خونی کار، رات کی خونیں تصویریں ،شرمیلی سی بیر بہوٹی،لال چھڑی ،بھل بھل بہتے خون میں لت پت،میلی صبح میں سرخ رنگ ،آنگن کی دلہن ،سورج ڈوب رہا تھا، انگاروں کی بھٹی ،سرخ گلاب ،مقتل ، افق سرخ تھا،سرخ زہر میں بچھی زرد زرد بالیاں،سرخ لبوں کا دھیان ‘‘جیسی بے شمار علامتیں موجود ہیں جو اُن کی شاعری کے پورے منظر نامے کو سرخ کئے ہوئے ہیں مگر اس تصویر میں سب سے اہم کردار خون کا ہے۔ خون سے ساقی فاروقی کی رغبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کانام بھی اپنی ایک نظم’’بلڈ بینک ‘‘ کے عنوان پررکھا ہوا ہے۔ وہ اپنی اس نظم میں کہتے ہیں ’’پھر ان گنت سیال موتی سیلِ خوں میں بہہ گئی‘‘اور یہ سیلِ خوںمجھے ان کی نظم ’’جوئے خوں‘‘ کی طرف لے جاتا ہے ’’ کوئی دیکھے مجھے ۔ بہہ رہی ہوں یونہی ۔ سالہاسال سے ‘‘۔خون بہنے کی علامت ساقی کے پاس ایک ایسی عجیب و غریب وسعت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے جو مقتل کی صبح سے شروع ہوتی ہے ،ٹیلی ویژن کی شریانوں سے پھوٹ پھوٹ کر بہتی ہوئی مہواری کے مردہ لہو تک پہنچ جاتی ہے اور سرچشمہ ء خون یعنی زخم ان کے پاس ایک ایسا استعارہ ہے جو ہر لمحہ اپنا مفہوم بدل لیتا ہے ۔ جب وہ کہتے ہیں ’’زخم سے معافیاں نہ مانگ‘‘تو یہاں زخم کی معنویت کچھ اور ہے مگر’’نئے زخموں کی بدحواس زمیں‘‘ اور’’ جو زخم کہ سرخ گلاب ہوئے ‘‘ میں زخم کسی اور تفہیم سے بھر جاتا ہے۔اور جب یہ کہتے ہیں’’مگر نگاہِ سیپی کے ایک زخم کا سوگ‘‘ یا ’’خون سے دائرہ ء خواب بنانا ہو گا‘‘تو زخم کا مطلب ہی بدل جاتا ہے۔
ساقی فاروقی کی بیشتر نظمیں سرخ رنگ میں ملبوس ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کے پسِ منظر میں ساقی کی وہ جبلت کار فرما ہے جو کسی ’’انتباہ ‘‘کو دیکھ کر انسان کواس کے برعکس عمل کرنے پر مجبور کرتی ہی۔ سرخ نشان خطرے کی علامت ہے ۔ لوھے یا انسان کو گرم کیا جائے تو وہ سرخ ہو جاتا ہے ۔بیل کے سامنے سرخ کپڑا لہرا یا جائے تو وہ طیش میں آکرحملہ کر دیتا ہی۔لال جھنڈی لہرانے سے ٹرین یا ٹریفک روکی جاسکتی ہے ۔ریڈ لائٹ ایریاء دنیا کے ہر معاشرہ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔فٹ بال کے میدان میں سرخ کارڈ دِکھا کر کھلاڑی کو میدان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔یعنی ساقی فاروقی نے خطرے کے نشان سے بغاوت کرتے ہوئے اردو ادب میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جسے مشرقی تہذیب کی ضِدسمجھا جاسکتا تھا۔ شاعری میں جنسیات ساقی کا ایک اہم موضوع ہے اور جنسیات میں بھی کراہت آمیزجنسی تعلق ۔ اگرچہ جنسیات کا رنگ نیلا ہے مگر ساقی کے پاس اس کی وحشیانہ کراہت آمیزی نے اسے خون سے لت پت کردیا ہے۔ میں سرخ رنگ کے اظہار کے مثبت پہلو نظر انداز نہیں کررہامگر میرے نزدیک اس مثبت عمل کی تہہ میں بھی کوئی منفی رویہ موجود ہے جس طرح اسٹیشنوں پر سامان اٹھانے والے قلیوں کی وردی سرخ ہوتی ہے اور اسی اسٹیشن پر جب کسی بڑی شخصیت نے اترنا ہوتا ہے تو وہاں ریڈ کارپٹ یعنی سرخ قالین بِچھایا جاتا ہی۔
ساقی کے پاس موجود سرخ رنگ اپنی تمام تر شِدت ، بے رحمی اور وحشت کے ساتھ جنسیت سے وابستہ ہے ’۔’ سرخ لب ، مشرقی دلہن کی سرخ لباسی ،شب باشی کا زندہ لہو ، عورت کا مردہ لہو، شہوت کے سرخ ڈورے ، سرخ آبدوزیں، سرخ جزیرے، نافِ زخم، شہ رگ میں اترتا ہوانامردی کا ٹوٹا استرا، خبروں کی خوں پاشی، زرخیز بدن پر کھِلتے ہوئے سرخ دھبے، پتلیوں میں جمع ہوا خون، لہو میں صدا کے ہلکوری، بستر پر پہلی جنگِ عظیم‘‘ان بے شمار لال لال مثالوں میں سے فقط چندحوالے ہیں جِن سے میں یہ کہنے پر حق بجانب ہوں کہ مجموعی طور پر ان کی شاعری سے ’’ریپ‘‘ ہوتی ہوئی زندگی کا تصور ابھرتا ہے یعنی دست درازی سے نبرد آزما ، زخم زخم ،لہو لہان زندگی۔