منصور آفاق
محفلین
اس بات پر دنیا متفق ہے کہ صر ف آزادی ء اظہار ہی نہیں،ہر طرح کی معلومات اور تخیلات پر آسانی سے دسترس بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔پاکستانیوں کو یہ حق آزاد میڈیا نے فراہم کیااور ایک نیا پاکستان وجود میں آنے لگا ۔ایسے میںملک بھرمیں میڈیا پر ہونے والے حملے میری سمجھ میں نہیں آرہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیںکہ احتجاج کی کوریج پر کچھ پابندیاں عائد تھیں جنہیں عائد نہیں ہونا چاہئے تھا۔اسی سلسلے میںتحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے چینل بند کرنے کے اختیارات پیمبرا کو دینے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیا کی زبان بندی کی کسی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے۔باقی اپوزیشن بھی اس معاملے میں یہی سوچ رکھتی ہے۔ میڈیا کو بھی پیمرا کی بڑھتی ہوئی کاروائیوںپر تشویش ہے ۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے بھی پیدا شدہ حالات کی ذمہ داری حکومت اور پیمرا پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کو جس طرح کے سنسرشپ کے جال میں باندھا جارہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے ۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں پیمرا کے خلاف عدالت کے دروازہ پر بھی دستک دے چکے ہیں۔سو میڈیا کے لوگوں پر حملوں کا کوئی جواز نہیں۔میںحملہ کرنے والوں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں مگریہ بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں کا یہ ردعمل فطری ہے۔دراصل پاکستانی میڈیا اس وقت ہماری معاشرت کی آنکھ بن چکا ہے ۔اس نے ہر موسم میں لوگوں تک سچ پہنچایا ہے ۔ پھر جب اُسی سچ دکھانے والی آنکھ سے دکھائی دینا بند ہوجائے تو یقینامسائل پیدا ہو نگے۔ گذشتہ دنوں کے واقعات کی پردہ پوشی نے میڈیا پر عوامی اعتبارکو انتہائی سخت دھچکا پہنچایا ہے ۔ لوگ اب میڈیا کی کسی طرح کی محکومی کو بھی برداشت کرنے پر تیار نہیں۔حکومت کو بھی اس حوالے سے سوچنا ہوگا اورلوگوں کے اعتماد کی بحالی کیلئے بھی میڈیا کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا پڑے گا۔ لوگوں کو وہی میڈیا چاہئے جوپرویز مشرف کے دور میںچوبیس گھنٹے تک مسلسل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جلوس کی لائیو دکھا سکتا تھا جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کی ایک ایک لمحے کی رپورٹ لوگوں تک پہنچاسکتاتھا۔پیمرا سے خوف زدہ میڈیا لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہے۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اُن کے سوالوں کے جواب کہیں سے نہیں ملے۔لوگ پوچھتے ہیںکہ اچانک ممتاز قادری کو پھانسی کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔جب کہ تقریباً چھ سات ہزار لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے مگر عمل درآمد رکا ہوا ہے ۔یقینا یہ سوال اہم ہے مگر کسی کیلئے بھی اس سوال کاجواب دینا ممکن نہیں ۔لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ایک طویل عرصے کے انکار کے بعد اچانک سر تاج عزیز نے واشنگٹن میں طالبان قیادت کے پاکستان میں ہونے کا اعتراف کیسے کرلیا۔دونوں معاملات کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔کیا ممتاز قادری کی پھانسی دے کر طالبان کو فائدے دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس سزائے موت پر ہونے والے احتجاج سے تمام مکاتبِ فکر کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ۔کچھ لوگوں کے خیال میںممتاز قادری کے جنازے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستانی لوگ قریہ ء عشق رسول میں رہتے ہیںاوربقول علامہ اقبال ابلیس نے جواپنے فرزندوں کو پیغام دیا تھااس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے کہ
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدۖ اس کے بدن سے نکال دو
بے شک جناب ِابلیس کے ساتھ اظہارِ افسوس کیا جاسکتا ہے۔پاکستانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ (میرے نزدیک )مجھے بار بار ماضی میں لے جاتا رہا ۔جب بھی یہ نعرہ لگتا تھا کہ'' غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلامی ہیں''مجھے اپنے مرحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی یاد آجاتے تھے یہ انہی کا ایک شعر کا مصرعہ ہے ۔مکمل شعر یوں ہے ۔
جبیں پہ داغ دین کے ،گلے میں طوقِ مصطفی غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں
صرف یہی نہیں ان کی خود قسمتی دیکھئے کہ یہ نعرہ ''غلامی ء رسول میں موت بھی قبول ہے ''بھی انہی کے ایک شعر کا مصرعہ ہے ۔پورا شعر یوں ہے ۔
یہ مال اور منال کیا یہ جاہ اور جلال کیا غلامی ء رسول میں تو موت بھی قبول ہے
انسانی تاریخ میں ''موت '' سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں۔انسان ہر چیز پر قادر ہوا مگر موت کے آگے بے بس رہا ۔ سو موت کے خوف کی عمل داری انسانی دماغوں میںہمیشہ سے ہے اور شاید ہمیشہ رہے ۔انسانی معاشرہ کوامن و امان کو قائم دائم رکھنے میں بھی اس خوف کا اہم ترین ہاتھ ہے۔لیکن اگر موت کی تقسیم ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں میں آجائے تومنظر کراچی جیسا بن جاتا ہے ۔جس کی صورت احوال کچھ عرصہ پیشترایک شاعر نے یوں بیان کی تھی
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
بے شک کتے کی موت مرنے کا محاورہ بدلنے والے شہر کے معاملات بہت بہتر ہوچکے ہیں مگر اتنے بھی نہیںکہ کسی سمت سے آتی ہوئی گمنام گولی کا تصور ختم ہوجائے ۔یعنی مکمل طور پر ٹارگٹ کلنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ایسے حالات میں مصطفی کمال کا ایم کیو ایم سے اعلان ِبغاوت بڑے حوصلہ کی با ت ہے۔ان کا یہ عمل موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے۔ انہوں نے ایک حوصلہ پہلے بھی کیا تھا کہ صرف چھ ماہ کے بعد سینیٹر شپ چھوڑدی تھی حالانکہ لوگ اُس مقام تک پہنچنے کیلئے کیا کیا نہیں کرتے ۔دس پندرہ کروڑ تو کوئی بات ہی نہیں۔مصطفی کمال کی زندگی کو خطرہ تو اسی دن لاحق ہوگیا تھا جس دن وہ مستعفی ہوئے تھے۔ اسی لئے شاید وہ ملک بھی چھوڑ گئے تھے مگرجس انداز میںان کی واپسی ہوئی ہے کہ وہ ایسے خطروں کو پکارتی جارہی ہے ۔یقیناکسی کا یہ پیغام کسی کوجا چکا ہوگا کہ ''فلاں کے گھر کے پلائو یاد آرہاہے'' ۔میں مصطفی کمال کو ان کی اس جرات مندی پر سلام پیش کرتا ہوں وہ لوگ جوکہہ رہے ہیں کہ مصطفی کمال کی واپسی کی وجہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کو بچانا ہے۔چند دنوں میںحماد صدیقی اور ایم کیو ایم کے کچھ اور لوگ مصطفی کمال سے آملیں گے تومیں انکی بات اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ایک تومصطفی کمال قطعاً اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ رینجرزپر اثرانداز ہوسکیں۔دوسرایہ ضروری بھی نہیں کہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی مجرم ہوں کیونکہ ابھی تمام تر تفتیش یک طرفہ ہے ۔میری درخواست ہے کہ رینجرز اس سلسلے کی تمام معلومات پر ہر شخص رسائی دے ۔کیونکہ صر ف آزادی ء اظہار ہی نہیں،ہر طرح کی معلومات اور تخیلات پر آسانی سے دسترس بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اُن کے سوالوں کے جواب کہیں سے نہیں ملے۔لوگ پوچھتے ہیںکہ اچانک ممتاز قادری کو پھانسی کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔جب کہ تقریباً چھ سات ہزار لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے مگر عمل درآمد رکا ہوا ہے ۔یقینا یہ سوال اہم ہے مگر کسی کیلئے بھی اس سوال کاجواب دینا ممکن نہیں ۔لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ایک طویل عرصے کے انکار کے بعد اچانک سر تاج عزیز نے واشنگٹن میں طالبان قیادت کے پاکستان میں ہونے کا اعتراف کیسے کرلیا۔دونوں معاملات کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔کیا ممتاز قادری کی پھانسی دے کر طالبان کو فائدے دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس سزائے موت پر ہونے والے احتجاج سے تمام مکاتبِ فکر کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ۔کچھ لوگوں کے خیال میںممتاز قادری کے جنازے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستانی لوگ قریہ ء عشق رسول میں رہتے ہیںاوربقول علامہ اقبال ابلیس نے جواپنے فرزندوں کو پیغام دیا تھااس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے کہ
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدۖ اس کے بدن سے نکال دو
بے شک جناب ِابلیس کے ساتھ اظہارِ افسوس کیا جاسکتا ہے۔پاکستانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ (میرے نزدیک )مجھے بار بار ماضی میں لے جاتا رہا ۔جب بھی یہ نعرہ لگتا تھا کہ'' غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلامی ہیں''مجھے اپنے مرحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی یاد آجاتے تھے یہ انہی کا ایک شعر کا مصرعہ ہے ۔مکمل شعر یوں ہے ۔
جبیں پہ داغ دین کے ،گلے میں طوقِ مصطفی غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں
صرف یہی نہیں ان کی خود قسمتی دیکھئے کہ یہ نعرہ ''غلامی ء رسول میں موت بھی قبول ہے ''بھی انہی کے ایک شعر کا مصرعہ ہے ۔پورا شعر یوں ہے ۔
یہ مال اور منال کیا یہ جاہ اور جلال کیا غلامی ء رسول میں تو موت بھی قبول ہے
انسانی تاریخ میں ''موت '' سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں۔انسان ہر چیز پر قادر ہوا مگر موت کے آگے بے بس رہا ۔ سو موت کے خوف کی عمل داری انسانی دماغوں میںہمیشہ سے ہے اور شاید ہمیشہ رہے ۔انسانی معاشرہ کوامن و امان کو قائم دائم رکھنے میں بھی اس خوف کا اہم ترین ہاتھ ہے۔لیکن اگر موت کی تقسیم ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں میں آجائے تومنظر کراچی جیسا بن جاتا ہے ۔جس کی صورت احوال کچھ عرصہ پیشترایک شاعر نے یوں بیان کی تھی
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
بے شک کتے کی موت مرنے کا محاورہ بدلنے والے شہر کے معاملات بہت بہتر ہوچکے ہیں مگر اتنے بھی نہیںکہ کسی سمت سے آتی ہوئی گمنام گولی کا تصور ختم ہوجائے ۔یعنی مکمل طور پر ٹارگٹ کلنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ایسے حالات میں مصطفی کمال کا ایم کیو ایم سے اعلان ِبغاوت بڑے حوصلہ کی با ت ہے۔ان کا یہ عمل موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے۔ انہوں نے ایک حوصلہ پہلے بھی کیا تھا کہ صرف چھ ماہ کے بعد سینیٹر شپ چھوڑدی تھی حالانکہ لوگ اُس مقام تک پہنچنے کیلئے کیا کیا نہیں کرتے ۔دس پندرہ کروڑ تو کوئی بات ہی نہیں۔مصطفی کمال کی زندگی کو خطرہ تو اسی دن لاحق ہوگیا تھا جس دن وہ مستعفی ہوئے تھے۔ اسی لئے شاید وہ ملک بھی چھوڑ گئے تھے مگرجس انداز میںان کی واپسی ہوئی ہے کہ وہ ایسے خطروں کو پکارتی جارہی ہے ۔یقیناکسی کا یہ پیغام کسی کوجا چکا ہوگا کہ ''فلاں کے گھر کے پلائو یاد آرہاہے'' ۔میں مصطفی کمال کو ان کی اس جرات مندی پر سلام پیش کرتا ہوں وہ لوگ جوکہہ رہے ہیں کہ مصطفی کمال کی واپسی کی وجہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کو بچانا ہے۔چند دنوں میںحماد صدیقی اور ایم کیو ایم کے کچھ اور لوگ مصطفی کمال سے آملیں گے تومیں انکی بات اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ایک تومصطفی کمال قطعاً اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ رینجرزپر اثرانداز ہوسکیں۔دوسرایہ ضروری بھی نہیں کہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی مجرم ہوں کیونکہ ابھی تمام تر تفتیش یک طرفہ ہے ۔میری درخواست ہے کہ رینجرز اس سلسلے کی تمام معلومات پر ہر شخص رسائی دے ۔کیونکہ صر ف آزادی ء اظہار ہی نہیں،ہر طرح کی معلومات اور تخیلات پر آسانی سے دسترس بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
آخری تدوین: