منصور آفاق
محفلین
ثمینہ راجہ کی موت پر ایک بین
منصور آفاق
اجل کی زد پہ ہے میرا قبیلہ
میں قبریں گنتے گنتے تھک گیا ہوں
میرے قبیلے کے قبرستان میں ایک قبر اور کھود دی گئی ہے ۔ابھی یہاںملکہ ئ سخن ثمینہ راجہ کو دفن کیا جائے گا۔سفید کفن میں لپٹی ہوئی شاعری کی میت بس پہنچنے والی ہے۔شایدنظم کا جنازہ آرہا ہے کافور کی خوشبوہوا میں محسوس ہو رہی ہے۔دور تک سے کلمہ ئ طیبہ کا ورد سنائی دے رہا ہے۔نعت رسول مقبول کہنے والی شاعرہ آرہی ہے۔وہ جس نے کہا تھا
عالم ہست و بود میں ان کے سوا کے بھلا ہے کیا
پیش نظر خداکے بھی ۔۔جز رخ ِ مصطفی ہے کیا
ثمینہ راجہ بھی چلی گئی۔۔۔موت میں تیرا کیا کروں ۔اگر تُو پرندے کی طرح ہوتی تو میںتجھے چیرپھاڑ کر پھینک دیتا ۔اگر تم شیشے کی طرح ہوتی تو میں تیری کرچیاں تمام شہر میں بکھیر دیتا۔ اگرتُو لکڑی کی ہوتی ہے تو میں تجھے صرف جلاتا ہی نہیں تیری راکھ تک سمندروں کے کھارے پانی میں گھول دیتا۔اگر تُو پانی ہوتی تو میں تجھے سورج پر انڈیل دیتا۔مگر تُو صرف ایک سمت جانے والا اجنبی راستہ ہے۔تیرا دروازہ ہے مگر عمارت نہیں۔تُو محسوس ہوتی ہے مگر دکھائی نہیں دیتی۔موت میں تیرا کیا کروں۔ لعنت ہے تجھ پر کہ تُو دردِ ہجر کی شدت میںثمینہ راجہ کو بہلانے چلی آئی۔ذلیل کمینی تُو نے اچھا نہیں کیا۔۔۔میں کوئی تجھ پرالزام نہیں لگارہا ۔ثمینہ خود بتاگئی ہے۔
اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار دردِ ہجر کی شدت عجیب تھی
ثمینہ راجہ نے اپنی شاعری میں محبت کا ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا مگر افسوس خود قبر میں اتاری جارہی ہے ۔اور میت کامنہ کعبہ کی سمت کردیا گیا ۔سامی کے منہ گھڑے رکھے جارہے ہیں ۔ جس دن ایک گھڑے سے چناب کے پانی میں سوہنی کو ڈبوگئی تھی اس دن سے ہر قبر کی سامی گھڑے ڈھانپ رہے ہیں ۔ثمینہ کی نظم نے محبت کا جو پل بنایا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے ۔ ثمینہ راجہ کے پاس کوئی دوسو سال پرانا چاندنی بنا ہوا ایک لیمپ تھا اس پر اس نے رسول حمزہ توف کا یہ جملہ کھدوا دیا تھا’’جلو کہ سارے زمانے میں روشنی ہوجائے ‘‘افسوس سارے زمانے کی روشنی قبر کی رات میںسمو دی گئی ۔
ثمینہ راجہ کے نظمائے ہوئے کاغذ کبھی بکھر نہیں سکتے ۔وہ زمانے سے گزر گئی ہے مگر اس کا کہا ہوا لوحِ جہاں پہ ٹھہر گیا ہے ۔اس کے خواب تعبیر ِ محبت بن کر زندہ و جاوید ہوگئے ہیں ۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں جو محبت کی دھند تھی وہ امر ہوگئی ہے ۔ہوا کی نامعلوم سرسراہٹ کی زباں میں اس نے جو کچھ کہا وہ موسم بن گیا ہے۔رات کی طشتری میں کسی خواب کے ساتھ رکھی ہوئی اس کی آنکھیں ماہتاب کی طرح روشن ہیںاور مسلسل نرگس کے پھول کی طرف دیکھ رہی ہیں
کیسا حیران ہے گلدان میں نرگس کا یہ پھول
میری تصویر کے نزدیک رکھا میرے بعد
ثمینہ ایک بہادر عورت تھی اس نے اپنے اعتقاد کبھی نہیں بدلے تھے۔مذہب اور وطن پر کبھی سودہ بازی نہیں کی تھی میں نے اس کے آنچل کو ہمیشہ چاندستارے والے پرچم کی طرح لہراتے دیکھا ہے۔میں نے اسے ایک مشاعرہ میں دیکھاتھا،دونمبر کی شاعرات اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں کیونکہ بیاض کے ساتھ خنجر بھی دھرا تھا۔کہتے ہیں نیام میں ہمہ وقت قید سے خنجر کی آب و تاب کم ہوجاتی ہے۔’’دستیاب عورتیں ‘‘جیسی نظم لکھنے والی بہادر شاعرہ افسوس محاذِ جنگ پر کام آگئی
یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم
زلف و عارض و لب و نظر لئے ہوئے
مچل گئیں متاع ِ شعر کے حصول کیلئے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے۔۔۔ پیش ہوگئے
’نگاہِ ناز کیلئے یہ سطر ہے
یہ نظم مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ شعر ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔ پوری رات کے عوض ‘
ثمینہ جاتے جاتے اپنی جنگ کا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال گئی ہے۔پتہ نہیں اس نے میرا انتخاب کیوں کیا۔وہ اپنے تین بڑے فورم ’برگِ سبز‘ ،’ خواب گر‘ ،’احمد فراز‘ میرے نام کر گئی ہے ۔جن میں سے صرف خواب گر کے بارہ ہزار سے زیادہ ممبر ہیں ۔میں بہت پریشان ہوں کہ اردو شاعری میں جعلی شاعرات مسئلہ میں کیسے حل کروں گا۔ مجھے جعلی شاعرات کے ساتھ ساتھ جعلی شاعروں کے مسئلہ پر بھی غور کرنا پڑے گا ایک بارپہلے میں نے صرف برطانیہ میں جعلی شاعروں کو موضوع تھاابھی تک میری دیواروں پر گولیوں کے نشان موجود ہیں ۔ اگر اب مجھے یہ کہنا پڑگیا کہ فلاں یا فلاں خود شاعرات نہیں ہیں تو وہ جو میں نے ان کی شان میں تحریریں لکھی ہوئی ہیں وہ میرے منہ چڑانے کیلئے آئینہ نہیں بن جائیں گی۔ سچائی کی جنگ جو ثمینہ راجہ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلی گئی ہیں وہ بہت خوفناک جنگ ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار میں لکھ دیا ہے کہ فلاں کی فلاں کتاب میں درج ذیل اشعاراحمد مبارک ، اقبال ساجد اور جمالی احسانی کے فلاں فلاں میں مجموعہ آج سے دس پندرہ سال پہلے شائع ہوچکے ہیں۔کئی سال تک توپیں گولہ باری کرتی رہیں ۔بم گرتے رہے۔اب اگر میں نے ثمینہ کے اس مصرعے’’غزل ملے گی ۔۔پوری کے عوض‘‘کی تاریخ بیان کردی تو کیا ہوگا۔تیروں کی برساتوں کا موسم آجائے گا۔تبرا کے جلسہ عام ہونے لگیں گے۔روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے رنگ لہو پہن لیں گے۔کیا کروں ۔کیا کروں۔۔۔نہیں نہیں۔۔مگر کیوں۔آخر ایک دن میں نے بھی توموت کا تلخ ذائقہ چکھنا ہے ۔ اس دن ثمینہ راجہ کا سامنا کیسے کروں گا۔ایک مرد ہو کر ایک عورت سے کیسے کہوں گا کہ جو بوجھ جاتے جاتے تم میرے کندھوں پر ڈال گئی تھی جو تم نے عورت ہو کر اٹھایا تھاوہ میں مرد ہوکر نہیں اٹھا سکا ۔میرا خیال ہے مجھے ثمینہ راجہ کی جنگ لڑنا ہوگی ۔اور صرف برطانیہ میں نہیں پوری دنیائے اردومیں۔۔دستیاب عورتوں ، مخنث مردوں اور تاجر شاعروں کے خلاف۔ثمینہ!میرے لئے دعا کرنا کہ اللہ مجھے ثابت قدم رکھے۔میں نے ابھی تمہیں فیس بک پر ایک میسج کیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اس دنیا میں تم فیس بک کے پیغامات پڑھ سکوگے ۔اچھا شب بخیر۔ملکہ عالیہ۔اب تم لمبی نیندسو جائو۔ زیادہ ڈسٹرب نہیں کرتا۔
جمعرات
یکم نومبر جنگ لندن
منصور آفاق
اجل کی زد پہ ہے میرا قبیلہ
میں قبریں گنتے گنتے تھک گیا ہوں
میرے قبیلے کے قبرستان میں ایک قبر اور کھود دی گئی ہے ۔ابھی یہاںملکہ ئ سخن ثمینہ راجہ کو دفن کیا جائے گا۔سفید کفن میں لپٹی ہوئی شاعری کی میت بس پہنچنے والی ہے۔شایدنظم کا جنازہ آرہا ہے کافور کی خوشبوہوا میں محسوس ہو رہی ہے۔دور تک سے کلمہ ئ طیبہ کا ورد سنائی دے رہا ہے۔نعت رسول مقبول کہنے والی شاعرہ آرہی ہے۔وہ جس نے کہا تھا
عالم ہست و بود میں ان کے سوا کے بھلا ہے کیا
پیش نظر خداکے بھی ۔۔جز رخ ِ مصطفی ہے کیا
ثمینہ راجہ بھی چلی گئی۔۔۔موت میں تیرا کیا کروں ۔اگر تُو پرندے کی طرح ہوتی تو میںتجھے چیرپھاڑ کر پھینک دیتا ۔اگر تم شیشے کی طرح ہوتی تو میں تیری کرچیاں تمام شہر میں بکھیر دیتا۔ اگرتُو لکڑی کی ہوتی ہے تو میں تجھے صرف جلاتا ہی نہیں تیری راکھ تک سمندروں کے کھارے پانی میں گھول دیتا۔اگر تُو پانی ہوتی تو میں تجھے سورج پر انڈیل دیتا۔مگر تُو صرف ایک سمت جانے والا اجنبی راستہ ہے۔تیرا دروازہ ہے مگر عمارت نہیں۔تُو محسوس ہوتی ہے مگر دکھائی نہیں دیتی۔موت میں تیرا کیا کروں۔ لعنت ہے تجھ پر کہ تُو دردِ ہجر کی شدت میںثمینہ راجہ کو بہلانے چلی آئی۔ذلیل کمینی تُو نے اچھا نہیں کیا۔۔۔میں کوئی تجھ پرالزام نہیں لگارہا ۔ثمینہ خود بتاگئی ہے۔
اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار دردِ ہجر کی شدت عجیب تھی
ثمینہ راجہ نے اپنی شاعری میں محبت کا ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا مگر افسوس خود قبر میں اتاری جارہی ہے ۔اور میت کامنہ کعبہ کی سمت کردیا گیا ۔سامی کے منہ گھڑے رکھے جارہے ہیں ۔ جس دن ایک گھڑے سے چناب کے پانی میں سوہنی کو ڈبوگئی تھی اس دن سے ہر قبر کی سامی گھڑے ڈھانپ رہے ہیں ۔ثمینہ کی نظم نے محبت کا جو پل بنایا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے ۔ ثمینہ راجہ کے پاس کوئی دوسو سال پرانا چاندنی بنا ہوا ایک لیمپ تھا اس پر اس نے رسول حمزہ توف کا یہ جملہ کھدوا دیا تھا’’جلو کہ سارے زمانے میں روشنی ہوجائے ‘‘افسوس سارے زمانے کی روشنی قبر کی رات میںسمو دی گئی ۔
ثمینہ راجہ کے نظمائے ہوئے کاغذ کبھی بکھر نہیں سکتے ۔وہ زمانے سے گزر گئی ہے مگر اس کا کہا ہوا لوحِ جہاں پہ ٹھہر گیا ہے ۔اس کے خواب تعبیر ِ محبت بن کر زندہ و جاوید ہوگئے ہیں ۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں جو محبت کی دھند تھی وہ امر ہوگئی ہے ۔ہوا کی نامعلوم سرسراہٹ کی زباں میں اس نے جو کچھ کہا وہ موسم بن گیا ہے۔رات کی طشتری میں کسی خواب کے ساتھ رکھی ہوئی اس کی آنکھیں ماہتاب کی طرح روشن ہیںاور مسلسل نرگس کے پھول کی طرف دیکھ رہی ہیں
کیسا حیران ہے گلدان میں نرگس کا یہ پھول
میری تصویر کے نزدیک رکھا میرے بعد
ثمینہ ایک بہادر عورت تھی اس نے اپنے اعتقاد کبھی نہیں بدلے تھے۔مذہب اور وطن پر کبھی سودہ بازی نہیں کی تھی میں نے اس کے آنچل کو ہمیشہ چاندستارے والے پرچم کی طرح لہراتے دیکھا ہے۔میں نے اسے ایک مشاعرہ میں دیکھاتھا،دونمبر کی شاعرات اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں کیونکہ بیاض کے ساتھ خنجر بھی دھرا تھا۔کہتے ہیں نیام میں ہمہ وقت قید سے خنجر کی آب و تاب کم ہوجاتی ہے۔’’دستیاب عورتیں ‘‘جیسی نظم لکھنے والی بہادر شاعرہ افسوس محاذِ جنگ پر کام آگئی
یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم
زلف و عارض و لب و نظر لئے ہوئے
مچل گئیں متاع ِ شعر کے حصول کیلئے
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے۔۔۔ پیش ہوگئے
’نگاہِ ناز کیلئے یہ سطر ہے
یہ نظم مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ شعر ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔ پوری رات کے عوض ‘
ثمینہ جاتے جاتے اپنی جنگ کا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال گئی ہے۔پتہ نہیں اس نے میرا انتخاب کیوں کیا۔وہ اپنے تین بڑے فورم ’برگِ سبز‘ ،’ خواب گر‘ ،’احمد فراز‘ میرے نام کر گئی ہے ۔جن میں سے صرف خواب گر کے بارہ ہزار سے زیادہ ممبر ہیں ۔میں بہت پریشان ہوں کہ اردو شاعری میں جعلی شاعرات مسئلہ میں کیسے حل کروں گا۔ مجھے جعلی شاعرات کے ساتھ ساتھ جعلی شاعروں کے مسئلہ پر بھی غور کرنا پڑے گا ایک بارپہلے میں نے صرف برطانیہ میں جعلی شاعروں کو موضوع تھاابھی تک میری دیواروں پر گولیوں کے نشان موجود ہیں ۔ اگر اب مجھے یہ کہنا پڑگیا کہ فلاں یا فلاں خود شاعرات نہیں ہیں تو وہ جو میں نے ان کی شان میں تحریریں لکھی ہوئی ہیں وہ میرے منہ چڑانے کیلئے آئینہ نہیں بن جائیں گی۔ سچائی کی جنگ جو ثمینہ راجہ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلی گئی ہیں وہ بہت خوفناک جنگ ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار میں لکھ دیا ہے کہ فلاں کی فلاں کتاب میں درج ذیل اشعاراحمد مبارک ، اقبال ساجد اور جمالی احسانی کے فلاں فلاں میں مجموعہ آج سے دس پندرہ سال پہلے شائع ہوچکے ہیں۔کئی سال تک توپیں گولہ باری کرتی رہیں ۔بم گرتے رہے۔اب اگر میں نے ثمینہ کے اس مصرعے’’غزل ملے گی ۔۔پوری کے عوض‘‘کی تاریخ بیان کردی تو کیا ہوگا۔تیروں کی برساتوں کا موسم آجائے گا۔تبرا کے جلسہ عام ہونے لگیں گے۔روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے رنگ لہو پہن لیں گے۔کیا کروں ۔کیا کروں۔۔۔نہیں نہیں۔۔مگر کیوں۔آخر ایک دن میں نے بھی توموت کا تلخ ذائقہ چکھنا ہے ۔ اس دن ثمینہ راجہ کا سامنا کیسے کروں گا۔ایک مرد ہو کر ایک عورت سے کیسے کہوں گا کہ جو بوجھ جاتے جاتے تم میرے کندھوں پر ڈال گئی تھی جو تم نے عورت ہو کر اٹھایا تھاوہ میں مرد ہوکر نہیں اٹھا سکا ۔میرا خیال ہے مجھے ثمینہ راجہ کی جنگ لڑنا ہوگی ۔اور صرف برطانیہ میں نہیں پوری دنیائے اردومیں۔۔دستیاب عورتوں ، مخنث مردوں اور تاجر شاعروں کے خلاف۔ثمینہ!میرے لئے دعا کرنا کہ اللہ مجھے ثابت قدم رکھے۔میں نے ابھی تمہیں فیس بک پر ایک میسج کیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اس دنیا میں تم فیس بک کے پیغامات پڑھ سکوگے ۔اچھا شب بخیر۔ملکہ عالیہ۔اب تم لمبی نیندسو جائو۔ زیادہ ڈسٹرب نہیں کرتا۔
جمعرات
یکم نومبر جنگ لندن