دیوار پہ دستک ۔ حامد میر کےلئے۔ منصور آفاق (روزنامہ جنگ)

منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک
حامد میر کے لئے
منصور آفاق
حامد میر کو سچ لکھنے کے جرم میں طالبان نے موت کی دھمکی دی ہے اوراس نے دھمکی کے جواب میں کہا ہے ’’تم پرویز مشرف سے زیادہ طاقت ور نہیں ۔تم مجھے قتل کر سکتے ہو ۔ میری آواز نہیں دبا سکتے‘‘اللہ تعالی حامد میر اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔میں اس لئے بہت فکر مند ہوں ،
حامد میر جب پیدا ہوئے تھے ایوب خان نے مارشل لائ لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لائ پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا۔پھر ایک اور۔۔گویا وہ کہہ سکتے ہیں کہ تیغوں یعنی سگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔مگر سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے قلم کار کی سائیکی جیسی ہونے چاہئے۔ حامد میر کی سائیکی ویسی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے روشنی اور خوشبوکی گفتگونہیں کی ۔ کبھی آدھے سچ کا شور نہیں مچایاوہ پورے سچ کے ساتھ چار پانچ لاکھ چمکتے ہوئے بوٹوں اورڈالروں سے خریدی ہوئی کالی نیلی بارودی جیکٹوں کے سامنے اپنی کمان میں قلم کا تیر کھینچ کراکیلے کھڑے ہیں،ا آج کے پاکستانی سماج میں یہ کام کسی صحیح الدماغ آدمی کا نہیں سمجھا جاسکتاجہاں بڑے بڑے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
مرا گھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
پتہ نہیں حامد میر اپنے سینے میں کیسا جگر رکھتے ہیں کہ انہیںسلیم شہزاد اورحیات اللہ کی میتیں دیکھ کر بھی خوف نہیں آیا۔گولی کی زبان سے بات کرنے والوں نے انہیں بار بار سمجھانے کی کوشش کی ۔دھمکیاں دیں ، سازشیں تیار کیں ،جعلی ٹیپ بنائے، مقدمے درج کرائے ،مگر حامد میر کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں پیدا ہوئی ۔پچھلے دنوں جب حامد میر نے مشورہ دیاکہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم پر آئو اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں سے معافی لیں تو کسی تنخواہ دارنے لکھا کہ حامد میر صاحب’’ آپ سے تواچھی سبھاش چندر بوس کی بیٹی شرمیلا چندر بوس ہے جس نے باقاعدہ تحقیق کے بعد یہ لکھا کہ پاکستانی افواج کے صرف 34ہزارجوان مشرقی پاکستان کی جنگ میں حصہ لے رہے تھے اور یہ عرصہ 38ہفتوں پر مشتمل تھا38ہفتوں میں کس طرح 34ہزار فوجی تیس لاکھ افراد کو ہلاک اور بیس ہزار عورتوں کی عصمت دری کر سکتے ہیں‘‘اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے تنخواہ دار دانشوروں کی یاداشت کتنی کمزور ہے۔انہیں یہ بھول گیا ہے کہ بھارت کی قید سے رہا ہونے والے سپاہیوں کی تعداد نوے ہزار تھی۔بہر حال کوئی بات نہیں۔یہ طے ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فن پاکستان میں کئی لوگوں کو آتا ہے وہ کانٹوں کو گلاب،شعلوں کو شبنم ،اندھے غاروں کو کہکشاںصرف کہتے نہیں،ثابت بھی کرتے ہیں ان سے ہاتھ ملایا جائے تووہ ہاتھ کاٹ لیتے ہیں مگر خبر نہیں ہوتی، ایسے آئینہ دکھانے لگتے ہیں کہ آنکھیں نکال لیتے ہیں، گیت سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اورزبان کاٹ لیتے ہیں۔پھراسی لکنت بھری آواز کو تمغوں سے سرفراز کرنے لگتے ہیں۔چونکہ عدلیہ کے موجودہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد صورت حال بہت زیادہ گھمبیر ہو گئی ہے فوج کیلئے یہ بھی ممکن نہیں کہ اپنے سابق فوجی سربراہ کا کورٹ مارشل کر ے اور عدالت عالیہ کے حکم سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلہ میں گرفتارسوچنے والے کئی دنوں سے کسی لائن آف ایکشن پر غور کر رہے ہیں۔اللہ خیر کرے جہاں تک حامد میر کی بات ہے تو میرا خیال ہے ان کے ساتھ کوئی ماں کی دعا ہے کہ وہ ابھی تک پائوں پر کھڑے ہیں اللہ ان کے پائوں کو ہمیشہ سلامت رکھے۔اور پاکستانی قوم سے درخواست ہے کہ وہ افتخار محمد چوہدری کیلئے بھی دعا کریں کیونکہ وہ بھی وہیں آ کھڑے ہیں جہاں حامد میر کھڑا ہیں۔دہشت گردی کی کوئی واردات کہیں بھی ہوسکتی ہے۔بے نظیر بھٹو سے لے کر ملالہ تک درد کی ایک طویل داستان ہے ۔ظالموں نے پاکستان کو ذبح خانہ بنا دیا ہے
’’کسی ذبح خانے کے آس پاس کہیں زندگانی مقیم ہے
مجھے آئے اپنی ہر ایک شے سے لہو کی بو
بڑی تیز تیز
بڑی متلی خیز
کئی پرفیوم کی بوتلیں
میں چھڑک چکا ہوں لباس پر
اسی گرم خون کی مشک پر اسی سرد ماس کی باس پر
کسی ذبح خانے کے آس پاس
کئی بار دھویا ہے ہاتھ کو
کئی بار مانجھافلیٹ کی میں نے ایک ایک پلیٹ کو
مجھے آئے ذائقہ خون کا
مجھے آئے ایک سرانڈ سی
مجھے کچا ماس دکھائی دے
کہیں ہاتھ پائوں سڑے ہوئے
کہیں گولیوں کے گلاب سے نئی چھاتیوں میں گڑے ہوئے
کہیں گردِناف کے پارچے مرے ناشتے میں پڑے ہوئے
کسی ذبح خانے کے آس پاس ۔۔۔‘‘
میں حامد میر سے چار سال پہلے پیدا ہوا تھااس وقت بھی پاکستان میں مارشل لائ ہوا تھا ۔میں نے جب ذرا سا ہوش سنبھالا تو اپنے بابا کو پاکستان کے غم میں روتے ہوئے دیکھا مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں ایک’’ کانی چارپائی ہوتی تھی۔اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بیٹھاتے تھے تو تیسراکونا خراب ہوجاتا تھا۔تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابانے اس کا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔وہ حامد میر کے بابا وارث میر کے مداح تھے اورمیں حامد میر کا مداح ہوں حامد میر کے والد گرامی بھی ایک عظیم مجاہد تھے ۔زندگی بھرپاکستان کی خاطرمارشل لاؤں سے جنگ لڑتے رہے اور قلم کے وہ مجاہد اسی جنگ میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ۔میرے بابا کا خیال تھا کہ حامد میرکا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ وارث میرکے بیٹے ہیں ۔اور میرے خیال میں وارث میر کیلئے بھی سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ وہ حامد میر کے بابا تھے سچ پوچھئیے تو یہ حیرت انگیز واقعہ بھی صرف اسی گھر میں رونما ہوا ہے کہ برگد کے سائے میں ایک اوربرگد نے جنم لے لیا ہے ۔تاریخ ایسے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی باپ کی طرح بڑا آدمی ہو۔ زیادہ تر علامہ اقبال کے گھر جاوید اقبال ہی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ جو کچھ حامد میر کیلئے لکھا ہے میرے خیال یہ بہت کم ہے اور اس وقت اس لئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا ’’ میں جانتا ہوں کسی رائفل کی اندھی گولی حامد میر کے تعاقب میں ہے۔دوستو حامد میرمانیں یا نہ مانیں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔قاتل موسم کے انتظار میں ہیں۔خدا نہ کرے وہ موسم کبھی حامد میر کی گلیوں میں آئے ۔میرا وہم وہم ہی رہے میں اتنا جانتا ہوں کہ طالبان حامد کو نہیں مار سکتے ۔ مگر کچھ اور لوگ شمالی وزیر ستان آپریشن کرانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔اور وہ لوگ جنہوں نے عمران خان کوساتھیوں سمیت ٹورنٹو کے پیرسن ایئر پورٹ پر چارگھنٹے اس لئے گرفتار رکھاوہ ڈرون حملوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں ان کا کیا اعتبارہے ۔ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک اہم ترین سوال یہ بھی تشنہ ئ جواب ہے کہ کیا امریکہ کا وزیر ستان میں کوئی نٹ ورک موجود ہے ۔ وہ کون لوگ ہیں جو امریکیوں کو اُس جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں جہاں ڈرون حملہ کیا جاتا ہے ۔بہر حال میری دعا ہے کہ لہو لتھڑے اس دورِ دورغ آباد میں اللہ تعالی ہر میدان میں سچ لکھنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔صحافت سے عدالت تک۔۔جو پاکستان کو بلوغت کی طرف لئے جارہے ہیں ۔
اتوار۔اٹھائیس اکتوبر دوہزار بارہ۔ جنگ لندن
 
Top