منصور آفاق
محفلین
دیوار پہ دستک
کالم فروختند و چہ ارزاں فروختند
ادب آج کل اخباری کالموں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔میرے سمیت تقریباً اہم قلم کاروں نے کالم نویسی سیکھ لی ہے ۔کسی حدتک یہ بات بڑی خوبصورت ہے کہ ہم زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل پر کسی نہ کسی طرح توقلم اٹھا رہے ہیں۔ صریرِ خامہ سے بلبل کے پروں پر کشیدہ کاری کا کام تو خیر ہماری پرانی روایت ہے مگر یہ کالم کے کمرے میں بلب جلانے کاہنر ہم نے پچھلی صدی میں سیکھا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے اخبارات شائع ہونے والے کالموں کا میں پوری سنجیدگی سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔زیادہ تر کالم مسلم لیگ نون کے حق میں اورتحریک ِ انصاف کے خلاف لکھے جاتے ہیں اس کے علاوہ کالم نگاروں کے تین پسندیدہ موضوع ہیں افواجِ پاکستان کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیل ، عدالت ِ عظمی کے فیصلے یاپھر پیپلز پارٹی کی کرپشن ۔مجھے اس وقت ان موضوعات سے کچھ لینا دینا نہیں میرا سوال یہ ہے کہ ادبیوںاور شاعروں نے صرف کالم نگاری پر ہی کیوں اپنی تمام تر صلاحیتیں مرتکز کرلی ہیںشاید اسلئے کہ خالی شکم کو میر تقی میر کے تیس ہزار اشعار نہیں بھر سکتے۔ دیوان غالب دودھ کا گلاس نہیں بن سکتا۔ بال جبریل نانِ جویں نہیں بدل سکتا۔نسخہ ہائے وفا لقمہ ئ تر نہیں ہو سکتا۔لکھنے والے کو پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں بھوکے آدمی کو تو چودہویں کے چاند کی گولائی بھی روٹی جیسی لگتی ہے اوران دنوںکالم نگاری وہ واحد فن ہے جو فنکارکی میز پر روٹی بلکہ’’ خاصی موٹی روٹی‘‘ لاکر رکھ دیتا ہے۔ہمارے اکثر اہم کالم نگار بڑی بڑی کوٹھیوں کے مالک بن چکے ہیں ۔انہوں نے لمبی لمبی گاڑیوں خرید لی ہیں ۔تحقیق کہ کچھ ایسے کالم نگار بھی ہیں جنہوں نے اپنے اخراجات کا دائرہ صرف اخبار سے ملنی والوں پر تنخواہ تک محدود رکھا ہوا ہے اور الحمداللہ وہ بھی اب کچھ کم نہیں ہے
کچھ ادبیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ان کا نقطہ ئ نظر یہ تھا کہ سب کو پیٹ بھر کرروٹی اس وقت حاصل ہوگی جب ملک خوشحالی آجائے گی ۔نظام ِحکومت درست ہوجائے گا۔کرپشن ختم ہوجائے گی ۔ لوڈ شینڈنگ نہیں ہوا کرے گی ۔وغیرہ وغیرہ سو ہم یہ کالم اپنے وطن کی محبت میں لکھتے ہیں۔ اس کی بہتری کیلئے لکھتے ہیں۔اپنے ہم قلم دوستوںکا کہا سر آنکھوں پر مگروطن کی محبت میں کسی ایک موقف کو درست تسلیم کر لیناچاہے وہ کتنا غلط ہی کیوں نہ ہو کسی سپاہی کا ماٹو تو ہو سکتا ہے ادیب اور شاعرنہیں۔لکھنے والاتو صرف حق اور انصاف کا سپاہی ہوتا ہے بے شک اگر کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہوا ہے اور اسکی آزادی کے درپے ہے تو لکھنے والا ضرور تڑپ اٹھتا ہے ۔ پابلو نرودا ﴿ Pablo Naroda﴾نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ۔
’’سپین کی گٹاروں پر گولیوںکی پہلی بوچھاڑ ہوئی توان سے موسیقی کی جگہ لہو کے سُر چیخ اٹھے اس انتہائی کر بنا ک لمحے نے میری شاعری کو انقلاب سے دوچار کردیا آگہی کے اس ثانیے میںمیں نے محسوس کر لیا کہ میں تنہائی کے قطب جنوبی سے انسانوںکے قطب شمالی میں ہجرت کرآیا ہوں ۔ان انسانوں کے درمیان کہ میری شاعری جن کے ہاتھوں کا رومال اور انکے میان سے تڑپ کر نکلنے والی تلوار بننے کی آرزو مندہے ۔ رومال اس لئے کہ وہ انکی پیشانیوں سے انکی بے پایاں محرومیوں کا پسینہ پونچھ سکے اور تلوار اس لئے کہ انکی جدوجہد میں انکا ہتھیار بن سکے ‘‘
مگر یہ بالکل مختلف بات ہے۔جو کچھ ان دنوں لکھا جارہا ہے وہ رزمیہ کالم ضرور ہیں مگر ان کو موضوع پاکستانی لیڈر شپ ہے ۔ان جنگ ناموں میں بڑی مہارت سے حقِ نمک ادا کیا جارہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہر کالم میں کوئی شاہنامہ فردوسی لکھا جارہا ہے یا کالم نگارواقعہ کربلا لکھتے ہوئے داخلِ دشنام ہونے والے لفظِ یزید پر تبرا بھیج رہے ہیں۔ بہر حال تمام کالم نگار میدان جنگ میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں اور اپنے اپنے لیڈروں کیلئے بھرپورانداز میں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے ہیں ۔شمشیریں چمک رہی ہیں ۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔کوئی میمنہ کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے تو کوئی میسرہ کو۔یقین کیجئے زمانہ ئ جاہلیت کے عرب شعرائ امرئو القیس اور عمروبن کلثوم میدان میں اترتے ہوئے ہیں جن کے لفظوں تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے اورہاں ۔۔ اپنے کئی کالم نگار صرف لکھنے کی حدتک سپاہی نہیں وہ عملی طور پر بھی ان جنگوں میں شریک ہیں ۔یہاں مجھے ژاں پال سارتر یاد آرہا ہے اگرچہ اس حوالے پر اس کی روح بھی قبر میں تڑپ تڑپ اٹھی ہوگی مگراس کی بدقسمتی کہ یاد وہی آیا ہے۔ فرانس کا وہ شاعر ادیب اور فلسفی قلم چلاناہی نہیں بندوق چلانا بھی جانتا تھا مگر اس کے قلم کی طرح اسکی بندوق کی بھی سچائی کیساتھ کمٹ منٹ تھی اسے اپنے فرانس سے بھی بڑی محبت تھی ، دوسری جنگِ عظیم میں اس نے فوج میںشامل ہوکر اپنے وطن کے دفاع میں تلوار اٹھائی اسے میگنوٹ لائن پر جرمن فوج نے گرفتار کر لیاتھا وہ نوماہ تک جرمن فوجی کیمپ میں نازیوں کے رسوائے زمانہ تشدد کا شکار رہا۔لیکن وہ ہمارے قلم کے سپاہیوں کی تنخواہ دار نہیں تھا اس عظیم قلم کارنے تونوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا
قلم کار کی ساری جدوجہد معاشرہ کی بدصورتی ختم کرنے کے لئے ہوتی ہے۔حا لات کی کریہہ المنظری مٹانا اور اسے حسن و جمال عطا کرنا دانشور کا فریضہ سمجھا جاتاہے اوراپنے کالم نگاروں سے بڑا دانشور اورکون ہوسکتاہے یہ انتہائی حساس اور باشعور لوگ ہوتے ہیںمگرمجھ اس بات پر حیرت ہے کہ گلی گلی میں ان کے سامنے ان کے اپنے بھائی کسی سنگدل کی چیرہ دستی سے بدن دریدہ پڑے ہیں ،ان کے ہر طرف دکھی انسان بکھرے ہوئے ہیں ، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ،عورتیں ظلم کی چکی میںپس رہی ہیں اور وہ ہیں کہ ایک طرف نواز شریف اور آصف زرداری کی زلف و لب ورخسار کے قصیدے گارہے ہیںتو دوسری طرف عمران خان کے بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پر معترض ہیںوہ کبھی تحریک انصاف کی بے پناہ مقبولیت کو آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا کا کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔کبھی ’’چمک ‘‘کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف کا دلان خالی دکھائی دیتا ہے ۔کبھی تحریک انصاف کے ایک کروڑ ممبرانہیںداستان ظلسم ہوش ربا لگتے ہیں ۔کبھی انہیں تحریک انصاف کے اندر کسی سونامی کی موجیںنظر آتی ہیں۔کبھی تحریک ِ انصاف کو ’خس کم جہاں پاک ‘کی گالی دیتے ہیں ۔کبھی عمران خان کا امن مارچ انہیں امریکی طائفہ لگتا ہے کبھی عمران خان خوئے دلنوازی سے محروم دکھائی دیتے ہیں ۔میں نے یہاںان کی قوس ِ قزح کے رنگوں میں لپٹی ہوئی گالیاںنہیں درج کیںان کے پڑھنے والے ان سے اچھی طرح آشنا ہیںسوایک طرف یہ اندازِگفت و شنیدہے اور دوسری اپنے پسندیدہ بلکہ زردیدہ لیڈروں کی شان میں ایسی ایسی دلچسپ خوشامد کرتے ہیں کہ سنجیدہ تحریریں مزاح کے زمرے میں در آتی ہیں صرف اس بات سے اندازہ کریں کہ ایک کالم نگار اپنا پورے کالم میں بار بار بس یہی لکھتے رہے کہ نواز شریف کاآئی جی آئی سے کوئی واسطہ نہیں ہے نواز شریف نے آئی جی آئی نہیں بنائی تھی ۔ جنرلوں کے اقبالی بیان غلط ہیں ۔ نوازشریف بہت معصوم ہیں ۔ ان سے کبھی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی ۔اگر عوام کی طرف سے سنگ باری کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ انہیں معصومیت کے مقامِٰ بنوت سے بھی جا ملاتے ۔یہ تمام احباب میرے لئے بڑے محترم ہیں میں انہیں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا صرف ان کی خدمتِ اقدس میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ﴿’کالم‘ فروختند و چہ ارزاں فروختند﴾اوراحمد فراز کی چار لائنیں
تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
جمعہ 9 نومبر ۔ 2012 روزنامہ جنگ لندن
کالم فروختند و چہ ارزاں فروختند
ادب آج کل اخباری کالموں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔میرے سمیت تقریباً اہم قلم کاروں نے کالم نویسی سیکھ لی ہے ۔کسی حدتک یہ بات بڑی خوبصورت ہے کہ ہم زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل پر کسی نہ کسی طرح توقلم اٹھا رہے ہیں۔ صریرِ خامہ سے بلبل کے پروں پر کشیدہ کاری کا کام تو خیر ہماری پرانی روایت ہے مگر یہ کالم کے کمرے میں بلب جلانے کاہنر ہم نے پچھلی صدی میں سیکھا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے اخبارات شائع ہونے والے کالموں کا میں پوری سنجیدگی سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔زیادہ تر کالم مسلم لیگ نون کے حق میں اورتحریک ِ انصاف کے خلاف لکھے جاتے ہیں اس کے علاوہ کالم نگاروں کے تین پسندیدہ موضوع ہیں افواجِ پاکستان کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیل ، عدالت ِ عظمی کے فیصلے یاپھر پیپلز پارٹی کی کرپشن ۔مجھے اس وقت ان موضوعات سے کچھ لینا دینا نہیں میرا سوال یہ ہے کہ ادبیوںاور شاعروں نے صرف کالم نگاری پر ہی کیوں اپنی تمام تر صلاحیتیں مرتکز کرلی ہیںشاید اسلئے کہ خالی شکم کو میر تقی میر کے تیس ہزار اشعار نہیں بھر سکتے۔ دیوان غالب دودھ کا گلاس نہیں بن سکتا۔ بال جبریل نانِ جویں نہیں بدل سکتا۔نسخہ ہائے وفا لقمہ ئ تر نہیں ہو سکتا۔لکھنے والے کو پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں بھوکے آدمی کو تو چودہویں کے چاند کی گولائی بھی روٹی جیسی لگتی ہے اوران دنوںکالم نگاری وہ واحد فن ہے جو فنکارکی میز پر روٹی بلکہ’’ خاصی موٹی روٹی‘‘ لاکر رکھ دیتا ہے۔ہمارے اکثر اہم کالم نگار بڑی بڑی کوٹھیوں کے مالک بن چکے ہیں ۔انہوں نے لمبی لمبی گاڑیوں خرید لی ہیں ۔تحقیق کہ کچھ ایسے کالم نگار بھی ہیں جنہوں نے اپنے اخراجات کا دائرہ صرف اخبار سے ملنی والوں پر تنخواہ تک محدود رکھا ہوا ہے اور الحمداللہ وہ بھی اب کچھ کم نہیں ہے
کچھ ادبیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ان کا نقطہ ئ نظر یہ تھا کہ سب کو پیٹ بھر کرروٹی اس وقت حاصل ہوگی جب ملک خوشحالی آجائے گی ۔نظام ِحکومت درست ہوجائے گا۔کرپشن ختم ہوجائے گی ۔ لوڈ شینڈنگ نہیں ہوا کرے گی ۔وغیرہ وغیرہ سو ہم یہ کالم اپنے وطن کی محبت میں لکھتے ہیں۔ اس کی بہتری کیلئے لکھتے ہیں۔اپنے ہم قلم دوستوںکا کہا سر آنکھوں پر مگروطن کی محبت میں کسی ایک موقف کو درست تسلیم کر لیناچاہے وہ کتنا غلط ہی کیوں نہ ہو کسی سپاہی کا ماٹو تو ہو سکتا ہے ادیب اور شاعرنہیں۔لکھنے والاتو صرف حق اور انصاف کا سپاہی ہوتا ہے بے شک اگر کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہوا ہے اور اسکی آزادی کے درپے ہے تو لکھنے والا ضرور تڑپ اٹھتا ہے ۔ پابلو نرودا ﴿ Pablo Naroda﴾نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ۔
’’سپین کی گٹاروں پر گولیوںکی پہلی بوچھاڑ ہوئی توان سے موسیقی کی جگہ لہو کے سُر چیخ اٹھے اس انتہائی کر بنا ک لمحے نے میری شاعری کو انقلاب سے دوچار کردیا آگہی کے اس ثانیے میںمیں نے محسوس کر لیا کہ میں تنہائی کے قطب جنوبی سے انسانوںکے قطب شمالی میں ہجرت کرآیا ہوں ۔ان انسانوں کے درمیان کہ میری شاعری جن کے ہاتھوں کا رومال اور انکے میان سے تڑپ کر نکلنے والی تلوار بننے کی آرزو مندہے ۔ رومال اس لئے کہ وہ انکی پیشانیوں سے انکی بے پایاں محرومیوں کا پسینہ پونچھ سکے اور تلوار اس لئے کہ انکی جدوجہد میں انکا ہتھیار بن سکے ‘‘
مگر یہ بالکل مختلف بات ہے۔جو کچھ ان دنوں لکھا جارہا ہے وہ رزمیہ کالم ضرور ہیں مگر ان کو موضوع پاکستانی لیڈر شپ ہے ۔ان جنگ ناموں میں بڑی مہارت سے حقِ نمک ادا کیا جارہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہر کالم میں کوئی شاہنامہ فردوسی لکھا جارہا ہے یا کالم نگارواقعہ کربلا لکھتے ہوئے داخلِ دشنام ہونے والے لفظِ یزید پر تبرا بھیج رہے ہیں۔ بہر حال تمام کالم نگار میدان جنگ میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں اور اپنے اپنے لیڈروں کیلئے بھرپورانداز میں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے ہیں ۔شمشیریں چمک رہی ہیں ۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔کوئی میمنہ کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے تو کوئی میسرہ کو۔یقین کیجئے زمانہ ئ جاہلیت کے عرب شعرائ امرئو القیس اور عمروبن کلثوم میدان میں اترتے ہوئے ہیں جن کے لفظوں تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے اورہاں ۔۔ اپنے کئی کالم نگار صرف لکھنے کی حدتک سپاہی نہیں وہ عملی طور پر بھی ان جنگوں میں شریک ہیں ۔یہاں مجھے ژاں پال سارتر یاد آرہا ہے اگرچہ اس حوالے پر اس کی روح بھی قبر میں تڑپ تڑپ اٹھی ہوگی مگراس کی بدقسمتی کہ یاد وہی آیا ہے۔ فرانس کا وہ شاعر ادیب اور فلسفی قلم چلاناہی نہیں بندوق چلانا بھی جانتا تھا مگر اس کے قلم کی طرح اسکی بندوق کی بھی سچائی کیساتھ کمٹ منٹ تھی اسے اپنے فرانس سے بھی بڑی محبت تھی ، دوسری جنگِ عظیم میں اس نے فوج میںشامل ہوکر اپنے وطن کے دفاع میں تلوار اٹھائی اسے میگنوٹ لائن پر جرمن فوج نے گرفتار کر لیاتھا وہ نوماہ تک جرمن فوجی کیمپ میں نازیوں کے رسوائے زمانہ تشدد کا شکار رہا۔لیکن وہ ہمارے قلم کے سپاہیوں کی تنخواہ دار نہیں تھا اس عظیم قلم کارنے تونوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا
قلم کار کی ساری جدوجہد معاشرہ کی بدصورتی ختم کرنے کے لئے ہوتی ہے۔حا لات کی کریہہ المنظری مٹانا اور اسے حسن و جمال عطا کرنا دانشور کا فریضہ سمجھا جاتاہے اوراپنے کالم نگاروں سے بڑا دانشور اورکون ہوسکتاہے یہ انتہائی حساس اور باشعور لوگ ہوتے ہیںمگرمجھ اس بات پر حیرت ہے کہ گلی گلی میں ان کے سامنے ان کے اپنے بھائی کسی سنگدل کی چیرہ دستی سے بدن دریدہ پڑے ہیں ،ان کے ہر طرف دکھی انسان بکھرے ہوئے ہیں ، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ،عورتیں ظلم کی چکی میںپس رہی ہیں اور وہ ہیں کہ ایک طرف نواز شریف اور آصف زرداری کی زلف و لب ورخسار کے قصیدے گارہے ہیںتو دوسری طرف عمران خان کے بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پر معترض ہیںوہ کبھی تحریک انصاف کی بے پناہ مقبولیت کو آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا کا کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔کبھی ’’چمک ‘‘کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف کا دلان خالی دکھائی دیتا ہے ۔کبھی تحریک انصاف کے ایک کروڑ ممبرانہیںداستان ظلسم ہوش ربا لگتے ہیں ۔کبھی انہیں تحریک انصاف کے اندر کسی سونامی کی موجیںنظر آتی ہیں۔کبھی تحریک ِ انصاف کو ’خس کم جہاں پاک ‘کی گالی دیتے ہیں ۔کبھی عمران خان کا امن مارچ انہیں امریکی طائفہ لگتا ہے کبھی عمران خان خوئے دلنوازی سے محروم دکھائی دیتے ہیں ۔میں نے یہاںان کی قوس ِ قزح کے رنگوں میں لپٹی ہوئی گالیاںنہیں درج کیںان کے پڑھنے والے ان سے اچھی طرح آشنا ہیںسوایک طرف یہ اندازِگفت و شنیدہے اور دوسری اپنے پسندیدہ بلکہ زردیدہ لیڈروں کی شان میں ایسی ایسی دلچسپ خوشامد کرتے ہیں کہ سنجیدہ تحریریں مزاح کے زمرے میں در آتی ہیں صرف اس بات سے اندازہ کریں کہ ایک کالم نگار اپنا پورے کالم میں بار بار بس یہی لکھتے رہے کہ نواز شریف کاآئی جی آئی سے کوئی واسطہ نہیں ہے نواز شریف نے آئی جی آئی نہیں بنائی تھی ۔ جنرلوں کے اقبالی بیان غلط ہیں ۔ نوازشریف بہت معصوم ہیں ۔ ان سے کبھی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی ۔اگر عوام کی طرف سے سنگ باری کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ انہیں معصومیت کے مقامِٰ بنوت سے بھی جا ملاتے ۔یہ تمام احباب میرے لئے بڑے محترم ہیں میں انہیں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا صرف ان کی خدمتِ اقدس میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ﴿’کالم‘ فروختند و چہ ارزاں فروختند﴾اوراحمد فراز کی چار لائنیں
تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
جمعہ 9 نومبر ۔ 2012 روزنامہ جنگ لندن