منصور آفاق
محفلین
دیوارپہ دستک
قاہرہ یونیورسٹی میں امریکی صدربارک حسین ابامہ کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مصری رائٹر نے کہاکہ مجھے ایک اور برے شگون کا دائرہ بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور میرے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی چلی گئیں۔
اہرام ِ مصر یادآگیا جس کے سائے میں ہزاروں سال کی آسیب زدہ تاریخ کروٹیں لیتی ہے، جس کے باطن کی بھول بھلیوں میں سر بستہ اسرارروز کسی نئی کہانی کے تہہ خانے کی سیڑھیوں سے کوئی اینٹ سرکا دیتے ہیں اور کوئی خوف زدہ کرنے والا شگون جاگ اٹھتا ہے ۔ مصر میں ایک اِس سے بھی عظیم تر ’برے شگون کاایک دائرہ ‘ ہے ۔ جس نے نجیب محفوظ جیسا عظیم قلمکارتاریخ کے سپرد کیا ۔۔ قاہرہ کے حالا برِج کا وہ سبز لان جہاں عادل، کامل احمد ذکی مخلوف اورقاہرہ کے کچھ اہل قلم نوجوان سال ہا سال تک گھاس پر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھتے تھے اس بیٹھک کا نام ا نہوں نے’برے شکون کا دائرہ ‘رکھا ہوا تھا۔اہل مصر نجیب محفوظ کو اسی برے شگون کے دائرے کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔میرا خیال ہے تھوڑی سی گفتگو نجیب محفوظ کے بارے میں کر لی جائے۔نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغازسلمیٰ موسیٰ کے میگزین ’المجلہ الجدید‘ سے شروع کیا تھا اور اِس میں اُن کی پہلی تحریربھی شائع ہوئی تھی وہ ان کے مزاج میں ترقی پسندی کے رجحان کا پہلا اعلان تھا۔اگرچہ 1939میں ان کی شائع ہونی والی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں ہیں مگر وہاں ترقی پسندی کے جراثیم کسی خورد بین کے بغیربھی نظر آتے ہیں ۔یہ وہ وقت ہے جب نجیب محفوظ کہتے ہیں کہ میں سائنس سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہا ہوں۔بعد ازاں نجیب نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا اور اِس حصار سے انہیں تصوف نے نکالا۔انہیں پچاس کی دھائی میں تصوف کا کوئی عجیب و غریب تجربہ ہوا اور وہ مابعدالطبعیات کی کائنات میں داخل ہوگئے ۔انہوں نے اُن سوالات کے جواب تلاش کرنے شروع کر دئیے جہاں سائنس خاموش ہوجاتی ہے یہاںتک کہ وہ اپنا ایک ایسا نظریہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حدتک آپس میں ہم آغوش ہیں ۔1945میں جب ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ شائع ہوا تھا تو وہ ا ن دنوں نظریاتی سطح پر اسی کشمکش میں مبتلا تھے ۔اِس ناول کے ساتھ ہی پوری عرب دنیا میں اُن کی اہمیت ایک ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی تھی مگر خود اپنے ملک مصر میں اُنہیں اُس وقت تسلیم کیا گیاجب1957میں ان کی ایپک ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار االمیہ ڈرامے کی اشاعت ہوئی ۔تین ہزار صفحات پر مشتمل اس جنگ ناے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس ایپک کے شائع ہوتے ہی اُنہیں نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا ناول قرار دے دیا گیا۔یہ دراصل تین جڑے ہوئے ناول ہیں پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر ﴿Palace Walk ﴾ دوسرے ناول کا نام ’ خواہشات کا محل ﴿Palace of Desire ﴾ اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘﴿Sugar Street ﴾۔عرب دنیا سے باہر نجیب محفوظ کی شہرت ساٹھ کی دھائی کے آخری حصے میں ہوئی جب ان کی تخلیقات کا انگریزی ،فرانسیسی ،روسی جرمن اوراردو زبان میں ترجمہ ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ حقیقی طور پر دنیا ان کی طرف اس وقت متوجہ ہوئی جب 1988میں انہیں ادب پرنوبل پرائز دیا گیا۔
میرے دوست اعجاز رحمان کئی برس قاہرہ میں رہے ہیں۔ ان کی نجیب محفوظ سے بہت نیاز مندی تھی وہ جب بھی پاکستان آتے تو میں ان سے نجیب محفوظ کے متعلق خاص طور پر پوچھتا تھا ۔وہ بتایا کرتے تھے کہ نجیب زیادہ ترنیلے رنگ کے پرانے ڈیزائن کا سوٹ پہنتے ہیں جس کے اوپر تک بٹن لگائے ہوئے ہوتے ہیں،سگریٹ اور کڑوی کافی پیتے ہیں،کھچڑی سے بال ہیں ،قد دراز ہے،چشمہ لگاتے ہیں۔ لکھنے کا کام وہ را ت میں کیا کرتے تھے ۔تمام زندگی لکھنے کے باوجود وہ اِس کام کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنا سکے۔ 1971میں سول سروس کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد سے قاہرہ کے نواحی علاقے ’اگوزہ‘ میںدریائے نیل کے کنارے اپنی بیوی اور دوبیٹیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہے۔
وہ خواب لکھا کرتے تھے ۔وہ جنہیں مشرق و مغرب کے درمیان رابطے کا پل بھی کہا جاسکتا ہے اور ان کی تخلیق کی اسی خصوصیت نے انہیں نوبل انعام کا حقدار بنا دیا ۔پرل ایس بک کو بھی نوبل انعام اسی وجہ سے ملا تھا۔ اس کا بھی تمام تخلیقی کام مشرق و مغرب کے اتصال سے نمود پذیر ہوتا ہے۔ وہ بھی دو اساطیری دیو مالائوں کی داسی تھی ،دو تاریخوں کی مورخ تھی ، دو تہذیبوں کی کہانی کار تھی ،دو ثقافتوں کوساتھ کر چلتی تھی ،دو فکری دھارے اس کی شخصیت میں ایک ہو جاتے تھے بالکل اسی طرح جیسے نجیب محفوظ کے ہاں آکر مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔
ایک اور اہم ترین بات نجیب محفوظ کے حوالے سے یہ ہے اور جس سے کوئی لکھنے والا صرف نظر نہیں کر سکتا کہ جس کام پر انہیں نوبل پررائز دیا گیا تھا وہ ان کا تیس سال پرانا کام تھا ۔کیا اہل مغرب کو نجیب محفوظ کو سمجھنے میں تیس سال لگ گئے تھے یا نوبل پرائز دینے والوں کاجو معیار مقرر کر ررکھاہے اس پر پہنچتے پہنچتے نجیب محفوظ کو تیس سال لگ گئے تھے۔اُن کے ناول ’’ جبلاوی کی اولاد‘‘﴿The Children of Gebelawi ﴾مذہبی نقطہ ئ نظر سے بہت متنازعہ ناول ہے۔ جب وہ قسط وار ایک میگزین میں شائع ہونا شروع ہوا تھا تومذہبی حلقوں نے بہت شدید ردعمل کا اِظہار کیاتھابلکہ جب انہیں نوبل پرائز ملا تھا کسی انتہا پسندمسلمان نے ا نہیں قتل کرنے کی بھی کوشش کی تھی جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ ان کی گردن پر زخم آیا تھا ۔جامعہ الازہر نے1959میںجب ان کے ناولوں پر پابندی لگائی تھی کہ ان میں پیغمبر اور خدا کرداروں کی صورت میں جلوہ گر ہیں تو نجیب محفوظ نے اِس کے جواب میں جو کالم لکھا تھا اس میں دوسرے حوالوں کے ساتھ علامہ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام’ جاوید نامہ‘ کا حوالہ دیا تھا جس میں اقبال نے اپنی شاعری میں جنت و دوزخ کی ڈرامائی تشکیل کی ہے۔
دراصل مصر کے بہت سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ نوبل پرائز یہودیوں کی طرف سے دیا جانے والا انعام ہے جو انہوں نے نجیب محفوظ کو اس لئے دیا تھا کہ انہوں نے نئی نسل کوایک ایسے آزاد معاشرہ کی طرف راغب کیا جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔نوبل پرائز پر یہودیت نواز انعام کا الزام اس لئے بھی لگا یاجاتا ہے کہ اِس وقت تک تقریباًاسی فیصدنوبل انعام امریکیوں اوریورپی لوگوں کو دیا گیا ہے جن میں اکثریت یہودیوں کی ہے یا ایسی تحریروں کی جو یہودیت کے کاز کی ترجمانی کرتی ہیں ۔
94سالہ نجیب محفوظ کی وفات سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی ۔گذشتہ سال جولائی کی ایک سیاہ رات میں چہل قدمی کرتے ہوئے انہیں چوٹ آئی تھی ۔چوٹ لگنے کے بعد تقریباً ایک ماہ ہسپتال میں رہے مگر صحت بہتر نہ ہو سکی۔ان کی آخری کتاب ’ساتویں جنت ‘جو2005میں شائع ہوئی جس کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد یہی نام میرے لئے بخشش کا سامان بنے گا ۔ان کی سوچ کے حوالے سے یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ روحانیت پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے اور ان کی فکرکو اسی سے تحریک ملتی تھی ۔بے شک وہ بیسویں صدی میں عربی ادب کے افق پرسب سے بڑی شخصیت تھے۔ان کے کام میں جس بات نے انہیں بہت ممتاز رکھا وہ اپنی زمین کے ساتھ ان کی وابستگی تھی۔ قاہرہ ان کے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتا تھا ۔انہوں نے قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی جس انداز میں عکاسی کی ہے وہ کمال انہی پرختم ہو جاتاہے ۔انہوں نے قاہرہ کی گلیوں میں جاگتی ہوئی زندگی کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھال کر یوں زندہ و جاوید کر دیا ہے کہ وقت چاہے ان گلیوں کو کھنڈرات میں ہی کیوں نہ بدل دے وہ آنکھوں کو آباد دکھائی دیتی رہیں گی۔وہ صاحب اسلوب نثر نگار تھے ان کا اسلوب ِنگارش ان کی تحریر کی تہہ داری سے جنم لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں جو کام کیا اسے کلیات کے طور پر پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے ، مگر یہ ان کا آدھا کام بھی نہیں ہے انہوں نے اپنی زندگی میں پچاس سے زائد ناول لکھے بے شمار افسانے تحریر کئے،لا تعداد کالم اور سیاسی تجزیے، سفر نامے اور یاداشتیں،مضامین اور مقالے لکھے ۔تمام تر نجیب محفوظ کو ذہن میں دھرا لینے کے باوجود یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔بارک حسین ابامہ کوبرے شگون کا دائرہ کس نسبت سے کہا گیا ہے۔شاید اسوقت ابامہ سے بہتری کی توقع رکھناہی سب سے بہتربات ہے۔اس کی گفتگو میں امید کی کچھ دبی دبی کرنیں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابامہ ۔برے شگون کا دائرہ؟
منصورآفاققاہرہ یونیورسٹی میں امریکی صدربارک حسین ابامہ کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مصری رائٹر نے کہاکہ مجھے ایک اور برے شگون کا دائرہ بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور میرے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی چلی گئیں۔
اہرام ِ مصر یادآگیا جس کے سائے میں ہزاروں سال کی آسیب زدہ تاریخ کروٹیں لیتی ہے، جس کے باطن کی بھول بھلیوں میں سر بستہ اسرارروز کسی نئی کہانی کے تہہ خانے کی سیڑھیوں سے کوئی اینٹ سرکا دیتے ہیں اور کوئی خوف زدہ کرنے والا شگون جاگ اٹھتا ہے ۔ مصر میں ایک اِس سے بھی عظیم تر ’برے شگون کاایک دائرہ ‘ ہے ۔ جس نے نجیب محفوظ جیسا عظیم قلمکارتاریخ کے سپرد کیا ۔۔ قاہرہ کے حالا برِج کا وہ سبز لان جہاں عادل، کامل احمد ذکی مخلوف اورقاہرہ کے کچھ اہل قلم نوجوان سال ہا سال تک گھاس پر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھتے تھے اس بیٹھک کا نام ا نہوں نے’برے شکون کا دائرہ ‘رکھا ہوا تھا۔اہل مصر نجیب محفوظ کو اسی برے شگون کے دائرے کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔میرا خیال ہے تھوڑی سی گفتگو نجیب محفوظ کے بارے میں کر لی جائے۔نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغازسلمیٰ موسیٰ کے میگزین ’المجلہ الجدید‘ سے شروع کیا تھا اور اِس میں اُن کی پہلی تحریربھی شائع ہوئی تھی وہ ان کے مزاج میں ترقی پسندی کے رجحان کا پہلا اعلان تھا۔اگرچہ 1939میں ان کی شائع ہونی والی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں ہیں مگر وہاں ترقی پسندی کے جراثیم کسی خورد بین کے بغیربھی نظر آتے ہیں ۔یہ وہ وقت ہے جب نجیب محفوظ کہتے ہیں کہ میں سائنس سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہا ہوں۔بعد ازاں نجیب نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا اور اِس حصار سے انہیں تصوف نے نکالا۔انہیں پچاس کی دھائی میں تصوف کا کوئی عجیب و غریب تجربہ ہوا اور وہ مابعدالطبعیات کی کائنات میں داخل ہوگئے ۔انہوں نے اُن سوالات کے جواب تلاش کرنے شروع کر دئیے جہاں سائنس خاموش ہوجاتی ہے یہاںتک کہ وہ اپنا ایک ایسا نظریہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حدتک آپس میں ہم آغوش ہیں ۔1945میں جب ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ شائع ہوا تھا تو وہ ا ن دنوں نظریاتی سطح پر اسی کشمکش میں مبتلا تھے ۔اِس ناول کے ساتھ ہی پوری عرب دنیا میں اُن کی اہمیت ایک ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی تھی مگر خود اپنے ملک مصر میں اُنہیں اُس وقت تسلیم کیا گیاجب1957میں ان کی ایپک ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار االمیہ ڈرامے کی اشاعت ہوئی ۔تین ہزار صفحات پر مشتمل اس جنگ ناے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس ایپک کے شائع ہوتے ہی اُنہیں نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا ناول قرار دے دیا گیا۔یہ دراصل تین جڑے ہوئے ناول ہیں پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر ﴿Palace Walk ﴾ دوسرے ناول کا نام ’ خواہشات کا محل ﴿Palace of Desire ﴾ اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘﴿Sugar Street ﴾۔عرب دنیا سے باہر نجیب محفوظ کی شہرت ساٹھ کی دھائی کے آخری حصے میں ہوئی جب ان کی تخلیقات کا انگریزی ،فرانسیسی ،روسی جرمن اوراردو زبان میں ترجمہ ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ حقیقی طور پر دنیا ان کی طرف اس وقت متوجہ ہوئی جب 1988میں انہیں ادب پرنوبل پرائز دیا گیا۔
میرے دوست اعجاز رحمان کئی برس قاہرہ میں رہے ہیں۔ ان کی نجیب محفوظ سے بہت نیاز مندی تھی وہ جب بھی پاکستان آتے تو میں ان سے نجیب محفوظ کے متعلق خاص طور پر پوچھتا تھا ۔وہ بتایا کرتے تھے کہ نجیب زیادہ ترنیلے رنگ کے پرانے ڈیزائن کا سوٹ پہنتے ہیں جس کے اوپر تک بٹن لگائے ہوئے ہوتے ہیں،سگریٹ اور کڑوی کافی پیتے ہیں،کھچڑی سے بال ہیں ،قد دراز ہے،چشمہ لگاتے ہیں۔ لکھنے کا کام وہ را ت میں کیا کرتے تھے ۔تمام زندگی لکھنے کے باوجود وہ اِس کام کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنا سکے۔ 1971میں سول سروس کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد سے قاہرہ کے نواحی علاقے ’اگوزہ‘ میںدریائے نیل کے کنارے اپنی بیوی اور دوبیٹیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہے۔
وہ خواب لکھا کرتے تھے ۔وہ جنہیں مشرق و مغرب کے درمیان رابطے کا پل بھی کہا جاسکتا ہے اور ان کی تخلیق کی اسی خصوصیت نے انہیں نوبل انعام کا حقدار بنا دیا ۔پرل ایس بک کو بھی نوبل انعام اسی وجہ سے ملا تھا۔ اس کا بھی تمام تخلیقی کام مشرق و مغرب کے اتصال سے نمود پذیر ہوتا ہے۔ وہ بھی دو اساطیری دیو مالائوں کی داسی تھی ،دو تاریخوں کی مورخ تھی ، دو تہذیبوں کی کہانی کار تھی ،دو ثقافتوں کوساتھ کر چلتی تھی ،دو فکری دھارے اس کی شخصیت میں ایک ہو جاتے تھے بالکل اسی طرح جیسے نجیب محفوظ کے ہاں آکر مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔
ایک اور اہم ترین بات نجیب محفوظ کے حوالے سے یہ ہے اور جس سے کوئی لکھنے والا صرف نظر نہیں کر سکتا کہ جس کام پر انہیں نوبل پررائز دیا گیا تھا وہ ان کا تیس سال پرانا کام تھا ۔کیا اہل مغرب کو نجیب محفوظ کو سمجھنے میں تیس سال لگ گئے تھے یا نوبل پرائز دینے والوں کاجو معیار مقرر کر ررکھاہے اس پر پہنچتے پہنچتے نجیب محفوظ کو تیس سال لگ گئے تھے۔اُن کے ناول ’’ جبلاوی کی اولاد‘‘﴿The Children of Gebelawi ﴾مذہبی نقطہ ئ نظر سے بہت متنازعہ ناول ہے۔ جب وہ قسط وار ایک میگزین میں شائع ہونا شروع ہوا تھا تومذہبی حلقوں نے بہت شدید ردعمل کا اِظہار کیاتھابلکہ جب انہیں نوبل پرائز ملا تھا کسی انتہا پسندمسلمان نے ا نہیں قتل کرنے کی بھی کوشش کی تھی جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ ان کی گردن پر زخم آیا تھا ۔جامعہ الازہر نے1959میںجب ان کے ناولوں پر پابندی لگائی تھی کہ ان میں پیغمبر اور خدا کرداروں کی صورت میں جلوہ گر ہیں تو نجیب محفوظ نے اِس کے جواب میں جو کالم لکھا تھا اس میں دوسرے حوالوں کے ساتھ علامہ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام’ جاوید نامہ‘ کا حوالہ دیا تھا جس میں اقبال نے اپنی شاعری میں جنت و دوزخ کی ڈرامائی تشکیل کی ہے۔
دراصل مصر کے بہت سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ نوبل پرائز یہودیوں کی طرف سے دیا جانے والا انعام ہے جو انہوں نے نجیب محفوظ کو اس لئے دیا تھا کہ انہوں نے نئی نسل کوایک ایسے آزاد معاشرہ کی طرف راغب کیا جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔نوبل پرائز پر یہودیت نواز انعام کا الزام اس لئے بھی لگا یاجاتا ہے کہ اِس وقت تک تقریباًاسی فیصدنوبل انعام امریکیوں اوریورپی لوگوں کو دیا گیا ہے جن میں اکثریت یہودیوں کی ہے یا ایسی تحریروں کی جو یہودیت کے کاز کی ترجمانی کرتی ہیں ۔
94سالہ نجیب محفوظ کی وفات سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی ۔گذشتہ سال جولائی کی ایک سیاہ رات میں چہل قدمی کرتے ہوئے انہیں چوٹ آئی تھی ۔چوٹ لگنے کے بعد تقریباً ایک ماہ ہسپتال میں رہے مگر صحت بہتر نہ ہو سکی۔ان کی آخری کتاب ’ساتویں جنت ‘جو2005میں شائع ہوئی جس کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد یہی نام میرے لئے بخشش کا سامان بنے گا ۔ان کی سوچ کے حوالے سے یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ روحانیت پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے اور ان کی فکرکو اسی سے تحریک ملتی تھی ۔بے شک وہ بیسویں صدی میں عربی ادب کے افق پرسب سے بڑی شخصیت تھے۔ان کے کام میں جس بات نے انہیں بہت ممتاز رکھا وہ اپنی زمین کے ساتھ ان کی وابستگی تھی۔ قاہرہ ان کے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتا تھا ۔انہوں نے قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی جس انداز میں عکاسی کی ہے وہ کمال انہی پرختم ہو جاتاہے ۔انہوں نے قاہرہ کی گلیوں میں جاگتی ہوئی زندگی کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھال کر یوں زندہ و جاوید کر دیا ہے کہ وقت چاہے ان گلیوں کو کھنڈرات میں ہی کیوں نہ بدل دے وہ آنکھوں کو آباد دکھائی دیتی رہیں گی۔وہ صاحب اسلوب نثر نگار تھے ان کا اسلوب ِنگارش ان کی تحریر کی تہہ داری سے جنم لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں جو کام کیا اسے کلیات کے طور پر پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے ، مگر یہ ان کا آدھا کام بھی نہیں ہے انہوں نے اپنی زندگی میں پچاس سے زائد ناول لکھے بے شمار افسانے تحریر کئے،لا تعداد کالم اور سیاسی تجزیے، سفر نامے اور یاداشتیں،مضامین اور مقالے لکھے ۔تمام تر نجیب محفوظ کو ذہن میں دھرا لینے کے باوجود یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔بارک حسین ابامہ کوبرے شگون کا دائرہ کس نسبت سے کہا گیا ہے۔شاید اسوقت ابامہ سے بہتری کی توقع رکھناہی سب سے بہتربات ہے۔اس کی گفتگو میں امید کی کچھ دبی دبی کرنیں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔