الف نظامی
لائبریرین
سائنس پڑھنے والے دیگر کلاس فیلو نوجوانوں کے برعکس مارسین مختلف نقطہ نظر کا حامل تھا۔ فزکس سے اسے دلچسپی تھی۔ فیوژن فزکس جیسے اہم اور پیچیدہ موضوع پر وہ پی ایچ ڈی کر رہا تھا ، مگر سوچتا رہتا کہ کس طرح علم کےذ ریعے دنیا میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ایسی مثبت تبدیلی جو پریشان حال لوگوں کو دوبارہ سے جینے پر آمادہ کر دے۔
ایک دن اس نے سب کچھ چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ استعفی دے کر کیلی فورنیا چلا گیا۔ ایک دیہی علاقے میں زمین خریدی اور کھیتی باڑی کرنے لگا۔ اس کے دوستوں کو علم ہوا تو بڑے حیران ہوئے۔ بعض نے سمجھانے کی کوشش کی ، اگر یہی کچھ کرنا تھا تو تعلیم کیوں حاصل کی؟ سائنس دان کیوں بنے؟ کسان تو سکول جائے بغیر بھی بن سکتے تھے۔
بعض نے طعنہ دیا ، تم اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو بروئے کار نہ لا کر خدا کی ناشکری کر رہے ہو۔ نوجوان مارسین یہ سن کر مسکرا دیتا ، کبھی جواب نہ دیا۔ دراصل کارپوریٹ کلچر سے وہ اتنا اکتا گیا تھا کہ مشینی زندگی کے بجائے فطرت کے قریب رہ کر زندگی گزارنا چاہتا تھا۔
وہ اکثر سوچتا رہتا ، کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے ، خاص طور پر غریب لوگوں کی زندگی بدلی جائے۔ کاشت کاری کرتے ہوئے اسے دوسرے فارم ہاوسز جانے کا اتفاق ہوتا۔ اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر امریکہ کی مختلف ریاستوں کے دیہات کا دورہ کیا۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آج بھی بہت سے کسان پرانی وضع کے ٹریکڑاور مشینری استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدید مشینری خاصی مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور تھی۔ اسے خیال آیا بنیادی کام کرنے والی اہم مشینری کی سستی نقل تیار کی جائے جس کی کارکردگی عمدہ اور ہر ایک کی پہنچ میں ہو۔ یہ خیال اسےا یک نئے پراجیکٹ کی طرف لے گیا۔
اس نے "اوپن سورس ایکولوجی" کے نام سے کام کرنا شروع کردیا۔ پچاس مشینوں کا انتخاب کیا۔ ان میں ٹریکٹر ، بلڈوزر ، ڈیری ملکنگ مشین ، لیزر کٹر ، ویلڈر ، پلازمہ کٹر ، تھری ڈی پرنٹر ، سٹیم انجن ، تیشہ (پھاوڑا) بیکری اوون جیسی مشینیں شامل ہیں۔ مارشین کے ذہن میں دو تین بنیادی اہداف تھے : کمیونٹی انفراسٹرکچر تیار کرنا۔ وہ چاہتا تھا کہ تین سو ایکڑ اراضی پر دو سو افراد کے لئے ایسا سٹرکچر بنایا جائے جہاں وہ خود کاشت کر سکیں ، اپنے کھانے پینے کی چیزیں اگا سکیں ، بجلی اور دیگر اشیا کے لئے انہیں نیشنل گرڈ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ زیادہ سے زیادہ خودانحصاری کے نظریے پر مبنی یہ کمیونٹی سنٹر اس قدر سادہ اور قابل عمل ہو کہ اسے کسی بھی ملک اور شہر میں بنایا جاسکے۔ دوسرا وہ یہ چاہتا ہے کہ کاشت کاری ، مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے لئے ضروری مشینری تیار کی جائے ، ایسی مشینری جس کے مختلف ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر منٹوں میں ایک نئی مشین بن جائے۔ ایسی ملٹی فنکشنل مشینری جو کمیونٹی سنٹر کے لوگوں کو بہت سی پابندیوں اور بندشوں سے بے نیاز کر دے۔ انہیں ریاست اور بڑی بڑی کمپنیوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ مارسین نے اپنے اس ڈریم پراجیکٹ کا نام گلوبل ویلیج کنسٹرکشن سیٹ GVSC رکھا۔ اس نے ریسرچ کر کے سستی مشینری بنانے کا سوچا اور پہلے ہی طے کر لیا کہ ہر مشین کا بلیو پرنٹ اور اس کی تیاری کے حوالے سے مکمل ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دی جائے گی۔ یو ٹیوب اور پراجیکٹ کی ویب سائٹ سے کوئی بھی اسے ڈاون لوڈ کر کے اپنے طور پر مشین بنا سکے گا۔
پولش نژاد امریکی سائنس دان مارسین جاکو بووسکی کا یہ منصوبہ بظاہر ایک خواب لگتا تھا۔ کئی جاننے والوں نے اُسے اس سعی لاحاصل سے روکا۔ ان کے خیال میں وسکونسن یونیورسٹی سے فزکس میں اعلی ترین ڈگری لینے والے اس نوجوان کو اپنا کیرئیر بنانے میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اس کے کئی کلاس فیلوز حیران تھے کہ آخر مارسین کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا دنیا کے چلن کو ایک آدمی یا چند افراد بدل سکتے ہیں؟ امریکہ کی کارپوریٹ دنیامیں پلنے والے نوجوانوں کے ذۃن میں مارسین کے نظریات اور فلسفہ نہ سما سکا۔ انہوں نے اسے دیوانہ قرار دیا۔ اس کے منصوبے کو دیوانے کا خواب کہا۔ یہ اور بات کہ اس دیوانے کا خواب اب عملی تعبیر اختیار کر چکا ہے۔مارسین جاکو بووسکی کئی اہم فورمز پر جامع پریزینٹیشن دے چکا ہے ، فنی ماہرین اس کے نظریات کو قابل عمل قرار دے چکے ہیں۔ صرف امریکہ میں درجنوں گروپ بن چکے ہیں جو اوہائیو ، کیلی فورنیا ، پنسلوانیا ، نیو یارک وغیرہ میں مختلف جگہوں پر ان مشینوں کے پروٹو ٹائپ بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ پچاس میں سے تین مشینیں بن چکی ہیں ، کئی اور تکمیل کے قریب ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ رواں سال کے آخر تک تمام مشینوں کے ڈیزائن بن جائیں۔ توقع ہے کہ اگلے چند مہینوں میں یہ تمام مشینیں تیار ہو جائیں گی۔ ان مشینوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد کسی اور کام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مختلف مقامات پر مقیم ماہرین اور انجینئرز میں صرف ایک بات مشترک ہے ، یہ سب اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کو صرف ڈالر اور یورو کمانے میں صرف نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی نظروں میں دنیا بدلنے کا خواب سجا ہے اور وہ اسے عملی شکل دینے میں مصروف ہیں۔
مارسین جاکو بووسکی خود مسوری کے ایک فارم ہاوس میں اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ مقیم ہے۔ انہوں نے اس فارم ہاوس کا نام "فیکٹر ای فارم" رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی عام فیکٹری نہیں ، یہاں نظریات اگائے اور کاشت کئے جاتے ہیں۔ فیکٹر ای فارم مارسین کے منصوبے کے مطابق ایک کمیونٹی سنٹر کی طرح ہے۔ یہاں رہنے والے چشمے یا بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے اسے استعمال کرتے ہیں۔ جدید ترین فلٹر وہ بنا چکے ہیں۔ چار سو کے قریب پھلدار درخت موجود ہیں۔ مرغیاں ، انڈے ، دودھ دینے والے جانور ، دودھ سے مقامی طور پر تیار کردہ پنیر ، خود کاشت کردہ گندم اور بعض دوسری اجناس دستیاب ہیں۔ بجلی کے لیے سولر پینل لگائے گئے ہیں۔ ایک بڑی لیبارٹری بنائی گئی ہے جہاں دن رات کام ہوتا ہے ۔ ضائع شدہ اشیاء کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ ایک انٹرویو میں مارسین سے پوچھا گیا کہ آپ ریسرچ یا کتابیں شائع کرانے کی طرف کیوں نہیں آئے ، یہ بھی تو اہم کام ہے۔ مارسین کا جواب تھا کہ تعلیمی اور تحقیقی ادارے بھی کارپوریٹ ریسرچ کی شاخیں بن چکی ہیں ، ان کی تحقیق کا تمام تر فائدہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملتا ہے۔ وہ اسی فائدے کے لیے تحقیق پر پیسہ لگانے پر آمادہ ہوتی ہیں۔ مارسین نے اپنے خواب کا اظہار ان الفاظ میں کیا
" اگر ہم ہر انسان کو اس قابل بنا دیں کہ وہ از خود کھیتی باڑی ، تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کر سکتے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ دنیا میں ترقی اور خوشحالی کا زبردست دور جنم لے گا"