کامران احمد
محفلین
!
منصور آفاق ان دنوں لاہور آئے ہوئے ہیں۔ کالم کے ذریعے پہلے بھی ملاقات ہو جاتی تھی اور ان کی نئی شاعری کی گونج بھی اکثر و بیشتر سنائی دے جاتی۔ ''نیند کی نوٹ بُک‘‘ ان کا غالباً پہلا مجموعۂ کلام تھا۔ اب ''دیوانِ منصور‘‘ کے نام سے ان کا مفصل کام زیر ترتیب ہے جو کم و بیش 900 سے 1000 صفحات کو محیط غزلوں پر مشتمل ہوگا۔ صفحات کی مناسبت سے غزلیں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں گی اور یہ بجائے خود ایک خوشگوار خبر ہے۔
نیا لب و لہجہ اور پیرایۂ اظہار بنانے کی بجائے اس شاعر نے ایک طرح سے زبان کو وسعت دینے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے جگہ جگہ انگریزی الفاظ اس مہارت سے ٹانک دیے ہیں کہ وہ اجنبی اور دوسری زبان کے لگتے ہی نہیں ہیں۔ پھر اُس نے دیارِ غیر میں رہتے ہوئے وہاں اپنے اردگرد پھیلی ہوئی اشیا ء اور ماحول کو بڑی ہُنرمندی سے اپنی گرفت میں لیا ہے اور شاعری کو ایک ایسے نئے ذائقے سے روشناس کرایا ہے جو کم از کم غزل میں پہلے موجود نہیں تھا۔
قوافی کی تلاش اور دریافت اس کے ہاں حیران کُن بھی ہے اور مسرت بخش بھی۔ لطف یہ ہے کہ یہ ہمارے اطراف میں موجود تھے لیکن نظروں سے غائب تھے جو ہمارے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں اور ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ قوافی پہلے کسی کو کیوں نہیں سوجھے۔ کیونکہ قوافی کے حوالے سے شاعر نہ صرف خود کفیل بلکہ صاحبِ حیثیت واقع ہوا ہے اس لیے اس کی غزل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس کے پاس قافیوں کا ذخیرہ تمام نہیں ہو جاتا؛ چنانچہ اکثر قوافی کو بجا طور پر ان کی دریافت قرار دیا جا سکتا ہے؛ تاہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف نیا قافیہ دریافت کرتے ہیں بلکہ اسے سلیقے سے استعمال کرنے کے فن سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں؛ حتیٰ کہ اکثر اوقات قافیے اور اس کے استعمال سے ہی شعر کو چار چاند لگ جاتے ہیں جو کہ واقعتاً ایک قابلِ رشک صورتِ حال ہے۔
ہمارے اردگرد شاعری کے نام پر جو موزوں گوئی ہو رہی ہے اور غزل میں جو ٹریش لکھا جا رہا ہے‘ منصور آفاق کی یہ غزلیں ہوا کے ایک زرخیز جھونکے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس شاعر نے پہلے اپنے لیے غزل کی ایک فضا بنائی ہے جو دوسروں سے خاصی حد تک مختلف بھی ہے اور تازہ تر بھی‘ اسے کسی لہجے کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لہجے سے آگے کی چیز ہے کیونکہ لہجہ بھی ایک حد تک ہی آپ کے ساتھ چلتا ہے۔ اسے قابلِ تقلید بھی نہیں گردانا جا سکتا کیونکہ جس فضا میں اس نے اپنی غزل کا یہ ماحول بنایا ہے‘ وہ فضا ہر کسی کو دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے دوست ساقیؔ فاروقی بھی لندن کی اسی فضا میں سانس لیتے ہیں‘ اور کہیں کہیں انہوں نے بھی اپنی غزل میں انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن منصور آفاق کا سب سے زیادہ زور اسی پر ہے اور اس سے اس نے پورا پورا انصاف بھی کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ شاعری نئی نئی اور تازہ کار بھی لگتی ہے جو کہ معمولی بات نہیں ہے‘ ورنہ غزل میں نیا شعر نکالنا اب کوئی اتنا آسان نہیں رہا۔ اور‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ یہ شاعر اپنی مخصوص فضا کے ساتھ ساتھ نئے مضامین بھی لایا ہے‘ حالانکہ غزل میں نئے مضمون کا سلسلہ ایک عرصے سے بند چلا آ رہا ہے۔ پھر اس مخصوص ذخیرۂ الفاظ کی بدولت اس کا شعر کہنے کا کینوس بھی کافی حد تک وسیع ہوا ہے جبکہ کلام میں پختگی ایک اضافی خوبی ہے اور یہ شاعری پڑھتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اپنا وقت ضائع نہیں کر رہے بلکہ شاعری کے ایک نئے موسم میں سے گزر رہے ہیں جس میں کہیں ہوا ہے تو کہیں بارش‘ کہیں برف باری ہے تو کہیں دھوپ‘ اور ان سب کے علاوہ ایک ناقابل فراموش کھُلا پن‘ جس کی غزل کو جتنی ضرورت آج ہے‘ شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ میں اس مسودے کے نصف سے بھی کم حصے سے ابھی تک گزرا ہوں اور کچھ شعر بھی آپ کے پرمسرت مطالعہ کے لیے نکالے ہیں جو پیش خدمت ہیں:
جتنے موتی گرے آنکھ سے‘ جتنا تیرا خسارہ ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
جا رہا ہے یونہی‘ بس یونہی منزلیں پُشت پر باندھ کر
اک سفر زاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اُتارا ہوا
ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی
چل مکانِ یار کے فُٹ پاتھ پر بستر لگا
سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی
سمندروں کے ادھر بھی میں تیرے بس میں رہا
کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں
کئی برس میں مسلسل اُسی برس میں رہا
جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور
تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا
اس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی‘ وہ جھگڑا کہیں کا تھا
ہمت ہے میرے خانۂ دل کی کہ بار بار
کٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
وہ بات نہیں کرتا‘ دشنام نہیں دیتا
کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں
کوئی دریا‘ کوئی تالاب دکھائی دیتا
منصورؔ فقط ہم ہی نہیں بہکے ہوئے تھے
بازارِ غزل سارا تلنگوں سے بھرا تھا
خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا
قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اُس کے دروازے کے پاس
اور اُس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا
وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے
خانۂ دل پہ نہ زنجیر لگا
بند کر دے گی تجوری میں تجھے تری چمک
کنکروں میں کہیں رہ‘ قیمتی ہیروں میں نہ آ
میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں
ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب
منصورؔ کائنات کا ہم رقص کون ہے
یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ
منصور آفاق ان دنوں لاہور آئے ہوئے ہیں۔ کالم کے ذریعے پہلے بھی ملاقات ہو جاتی تھی اور ان کی نئی شاعری کی گونج بھی اکثر و بیشتر سنائی دے جاتی۔ ''نیند کی نوٹ بُک‘‘ ان کا غالباً پہلا مجموعۂ کلام تھا۔ اب ''دیوانِ منصور‘‘ کے نام سے ان کا مفصل کام زیر ترتیب ہے جو کم و بیش 900 سے 1000 صفحات کو محیط غزلوں پر مشتمل ہوگا۔ صفحات کی مناسبت سے غزلیں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں گی اور یہ بجائے خود ایک خوشگوار خبر ہے۔
نیا لب و لہجہ اور پیرایۂ اظہار بنانے کی بجائے اس شاعر نے ایک طرح سے زبان کو وسعت دینے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے جگہ جگہ انگریزی الفاظ اس مہارت سے ٹانک دیے ہیں کہ وہ اجنبی اور دوسری زبان کے لگتے ہی نہیں ہیں۔ پھر اُس نے دیارِ غیر میں رہتے ہوئے وہاں اپنے اردگرد پھیلی ہوئی اشیا ء اور ماحول کو بڑی ہُنرمندی سے اپنی گرفت میں لیا ہے اور شاعری کو ایک ایسے نئے ذائقے سے روشناس کرایا ہے جو کم از کم غزل میں پہلے موجود نہیں تھا۔
قوافی کی تلاش اور دریافت اس کے ہاں حیران کُن بھی ہے اور مسرت بخش بھی۔ لطف یہ ہے کہ یہ ہمارے اطراف میں موجود تھے لیکن نظروں سے غائب تھے جو ہمارے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں اور ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ یہ قوافی پہلے کسی کو کیوں نہیں سوجھے۔ کیونکہ قوافی کے حوالے سے شاعر نہ صرف خود کفیل بلکہ صاحبِ حیثیت واقع ہوا ہے اس لیے اس کی غزل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس کے پاس قافیوں کا ذخیرہ تمام نہیں ہو جاتا؛ چنانچہ اکثر قوافی کو بجا طور پر ان کی دریافت قرار دیا جا سکتا ہے؛ تاہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف نیا قافیہ دریافت کرتے ہیں بلکہ اسے سلیقے سے استعمال کرنے کے فن سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں؛ حتیٰ کہ اکثر اوقات قافیے اور اس کے استعمال سے ہی شعر کو چار چاند لگ جاتے ہیں جو کہ واقعتاً ایک قابلِ رشک صورتِ حال ہے۔
ہمارے اردگرد شاعری کے نام پر جو موزوں گوئی ہو رہی ہے اور غزل میں جو ٹریش لکھا جا رہا ہے‘ منصور آفاق کی یہ غزلیں ہوا کے ایک زرخیز جھونکے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس شاعر نے پہلے اپنے لیے غزل کی ایک فضا بنائی ہے جو دوسروں سے خاصی حد تک مختلف بھی ہے اور تازہ تر بھی‘ اسے کسی لہجے کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لہجے سے آگے کی چیز ہے کیونکہ لہجہ بھی ایک حد تک ہی آپ کے ساتھ چلتا ہے۔ اسے قابلِ تقلید بھی نہیں گردانا جا سکتا کیونکہ جس فضا میں اس نے اپنی غزل کا یہ ماحول بنایا ہے‘ وہ فضا ہر کسی کو دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے دوست ساقیؔ فاروقی بھی لندن کی اسی فضا میں سانس لیتے ہیں‘ اور کہیں کہیں انہوں نے بھی اپنی غزل میں انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن منصور آفاق کا سب سے زیادہ زور اسی پر ہے اور اس سے اس نے پورا پورا انصاف بھی کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ شاعری نئی نئی اور تازہ کار بھی لگتی ہے جو کہ معمولی بات نہیں ہے‘ ورنہ غزل میں نیا شعر نکالنا اب کوئی اتنا آسان نہیں رہا۔ اور‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ یہ شاعر اپنی مخصوص فضا کے ساتھ ساتھ نئے مضامین بھی لایا ہے‘ حالانکہ غزل میں نئے مضمون کا سلسلہ ایک عرصے سے بند چلا آ رہا ہے۔ پھر اس مخصوص ذخیرۂ الفاظ کی بدولت اس کا شعر کہنے کا کینوس بھی کافی حد تک وسیع ہوا ہے جبکہ کلام میں پختگی ایک اضافی خوبی ہے اور یہ شاعری پڑھتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اپنا وقت ضائع نہیں کر رہے بلکہ شاعری کے ایک نئے موسم میں سے گزر رہے ہیں جس میں کہیں ہوا ہے تو کہیں بارش‘ کہیں برف باری ہے تو کہیں دھوپ‘ اور ان سب کے علاوہ ایک ناقابل فراموش کھُلا پن‘ جس کی غزل کو جتنی ضرورت آج ہے‘ شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ میں اس مسودے کے نصف سے بھی کم حصے سے ابھی تک گزرا ہوں اور کچھ شعر بھی آپ کے پرمسرت مطالعہ کے لیے نکالے ہیں جو پیش خدمت ہیں:
جتنے موتی گرے آنکھ سے‘ جتنا تیرا خسارہ ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
جا رہا ہے یونہی‘ بس یونہی منزلیں پُشت پر باندھ کر
اک سفر زاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اُتارا ہوا
ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی
چل مکانِ یار کے فُٹ پاتھ پر بستر لگا
سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی
سمندروں کے ادھر بھی میں تیرے بس میں رہا
کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں
کئی برس میں مسلسل اُسی برس میں رہا
جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور
تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا
اس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی‘ وہ جھگڑا کہیں کا تھا
ہمت ہے میرے خانۂ دل کی کہ بار بار
کٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
وہ بات نہیں کرتا‘ دشنام نہیں دیتا
کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں
کوئی دریا‘ کوئی تالاب دکھائی دیتا
منصورؔ فقط ہم ہی نہیں بہکے ہوئے تھے
بازارِ غزل سارا تلنگوں سے بھرا تھا
خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا
قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اُس کے دروازے کے پاس
اور اُس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا
وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے
خانۂ دل پہ نہ زنجیر لگا
بند کر دے گی تجوری میں تجھے تری چمک
کنکروں میں کہیں رہ‘ قیمتی ہیروں میں نہ آ
میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں
ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب
منصورؔ کائنات کا ہم رقص کون ہے
یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ