زندگی گزاری ہے
دیوتا کی خدمت میں
اپنی جان واری ہے
دیوتا کی خدمت میں


دیوتا اگر خوش ہو
رحمتیں برستی ہیں
قسمتیں چمکتی ہیں
دیوتا جوناخوش ہو
آفتیں اتر تی ہیں
بجلیاں کڑکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔
دیوتا ہو گرراضی
نعمتیں لٹاتاہے
زندگی سجاتا ہے
راستے بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔
دیوتا ہو گرناراض
دھرتیاں ہلاتا ہے
آندھیاں چلاتا ہے
سب دئیے بجھاتاہے
۔۔۔۔۔
دیوتا سے کیاڈرنا
دیوتا تو قسمت ہے
ہم غلام لوگوں کی
زندگی غنیمت ہے
دیوتا کی ہستی بھی
ایک اور نعمت ہے
دیوتا ہے نفرت بھی
دیوتا محبت بھی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب شعیبی صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ اپنے کلام سے نوازتے رہیں گے اور رونقِ محفل بڑھاتے رہیں گے ۔ میں آپ کا گرمجوشی سے استقبال کرتا ہوں ۔ مرحبا!
آپ کی نظم خوب ہے ۔خیال سے پختگی اور کلام سے کہنہ مشقی ظاہر ہورہی ہے ۔ بہت خوب!
یہ بات البتہ میں سمجھنا چاہوں گا کہ اس نظم میں دیوتا کا لفظ کیوں اور کس پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ نظم پر عنوان بھی موجود نہیں اس لیے مجھے سمجھنے میں دقت ہورہی ہے۔
شعیبی صاحب، اگر اس پر 500 واٹس کی روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جناب شعیبی صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ اپنے کلام سے نوازتے رہیں گے اور رونقِ محفل بڑھاتے رہیں گے ۔ میں آپ کا گرمجوشی سے استقبال کرتا ہوں ۔ مرحبا!
آپ کی نظم خوب ہے ۔خیال سے پختگی اور کلام سے کہنہ مشقی ظاہر ہورہی ہے ۔ بہت خوب!
یہ بات البتہ میں سمجھنا چاہوں گا کہ اس نظم میں دیوتا کا لفظ کیوں اور کس پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ نظم پر عنوان بھی موجود نہیں اس لیے مجھے سمجھنے میں دقت ہورہی ہے۔
شعیبی صاحب، اگر اس پر 500 واٹس کی روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی۔ :)
مجھے لگتا ہے کہ متعدد کیفیات اور احساسات کو بکھیر کر پیش کر دیا گیا ہے اور کسی موضوعی تنظیم کے تابع نہیں ۔ اسی لیے اجمالی مافی الضمیر شاید ضمیر میں ہی رہ گیا اور الجھاؤ کی سی تصویر بن گئی ۔
ویسے آزاد نظم کا سا تاثر ہے لیکن پیشکش اچھی ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم بھائی صبیح الدین شعیبی !

آپ کی نظم دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آخر آپ نے لکھنے لکھانے پر کمر باندھ لی ہے۔ نہ صرف کمر باندھ لی ہے بلکہ یہ نظم لکھ کر محفل میں پیش بھی کر دی ہے۔ تخلیق کے مدارج میں سے یہ دو بڑے اہم سنگِ میل آپ نے بخوبی عبور کر لیے ہیں۔

تیسرا مرحلہ اس معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم کی ناقدانہ رائے کی روشنی میں تخلیق کو مزید سنوارا جائے۔ تنقید بظاہر ایک کڑوی چیز ہوتی ہے لیکن تخلیق کے لیے اس کی تاثیر بہت اچھی ہوا کرتی ہے ، اور اس سے تخلیق کو جلا ملتی ہے۔

احباب کے محبت بھرے سوال جواب آپ کے منتظر ہیں۔ ذرا نظرِ کرم فرمائیے۔ :) :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لڑی کا عنوان ہی نظم کا عنوان ہے ۔ یعنی دیوتا علامت ہے۔

اب یہ آپ نے اندازہ لگانا ہے کہ دیوتا کس ہستی کی علامت ہے؟ :)
نظم میں بیان کردہ تمام خصوصیات سے تو لگ رہاہے کہ دیوتا کی علامت بیگم کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ :unsure:
 
احباب ،
پسندیدگی کا شکریہ ، دراصل یہ زمینی خداؤں کے زعم سے تنگ آکر گھسیٹی گئی نظم نما چند لکیریں ہیں جو اپنے تئیں دیوتا بن بیٹھتے ہیں ۔ ہر مقام پر ایسے چھوٹے بڑےبُت آپ کو ایستادہ ملیں گے۔
 
دھرتی ڈوئی کا استعارہ ہوا پھر تو ۔ یا پھر بیلن کا ؟

مجھے لگتا ہے کہ متعدد کیفیات اور احساسات کو بکھیر کر پیش کر دیا گیا ہے اور کسی موضوعی تنظیم کے تابع نہیں ۔ اسی لیے اجمالی مافی الضمیر شاید ضمیر میں ہی رہ گیا اور الجھاؤ کی سی تصویر بن گئی ۔
ویسے آزاد نظم کا سا تاثر ہے لیکن پیشکش اچھی ہے ۔
آپ کو جو بھی لگتا ہے بالکل ٹھیک لگتا ہے
 
بھائی آپ کی بات سے ذہن ٹائم مشین میں ریورس ٹریول کرتے ہوئے 2018 میں جاپہنچا
خاک اور خوں کا زریں دور
cleardot.gif
2018 میں پوزیٹو رپورٹنگ کے دباؤ سے تنگ آکر کچھ لکھا تھا۔۔۔۔۔بزم سخن کے دوستوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، حالات میں بال برابر فرق بھی نہیں آیا
آپ کی رائے کا منتظر ہوں


مورخ جب بھي لکھے گا
ہمارے دورکاقصہ
نہ ہوگا کچھ بجز نوحہ
نہ ہوگا کچھ بجز گريہ
قلم جب ہاتھ ہوجائيں
جب آنکھيں خون روجائيں
مقدر کي سياہي
روشنائي کي جگہ لےلے
مورخ اور کيا لکھے

زمانوں سے پرے جب بھي
کوئي تاريخ کے اوراق پلٹے گا
وہ ديکھے گا۔۔
سياہي سي کہيں بکھری
کہيں سرخي لہورنگي
کہيں لاشوں کے کچھ ٹکڑے
کہيں سولي کہیں پھانسي
کہيں زنداں ،کہيں کوڑے
کہيں کٹتي زباں ہوگي
ہماري آپ بيتي بس
اسي ڈھب پر بياں ہوگي
مگر ايسا نہيں ہوگا
مورخ ،سچ کو لکھنے سے ذرا پہلے
کسي زندان کا مہمان ٹھہرےگا
کوئي دستانے والے ہاتھ
پھر تاريخ لکھيں گے
سنہری حرف سے
اس دورکا قصہ بياں ہوگا
يہ خاک وخون کے عرصے کي
جو ساری کہاني ہے
سنہری دور تب اس کا
نياعنوان ٹھہرے گا
مگر
تاريخ کے مخمل ميں
يہ جو ٹاٹ کاپيوند ہے
يہ چھپ نہ پائے گا
سنہري حرف لکھنے کےليے
بارود ميں جو خوں ملاياتھا
سياہي سرخ ہو ہوکر کہاني سب سنائے گي
ورق کي خاکي رنگت بھي
کسي کي چغلي کھائے گي

صبیح الدین شعیبی
 
Top