جاسم محمد
محفلین
دیوسائی میں ایک دن
شبینہ فراز اتوار 10 نومبر 2019
دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ (تصاویر: بلاگر)
کہتے ہیں کہ دیوسائی پر کسی دیو کی حکومت ہے۔ اس کی مرضی ہے وہ اپنی راجدھانی میں کسی کو اذن باریابی دے یا نہیں۔ اسی لیے وہاں بے موسم برساتیں اور برف باری عام ہے تاکہ آنے والوں کا راستہ کھوٹا ہوتا رہے اور ہر کس و ناکس وہاں منہ اٹھا کر گھومتا نہ پھرے۔
تصور کیجیے! آپ ایک روشن اور چمکیلی صبح میں اسکردو کے کسی ہوٹل کے کمرے میں سامان باندھ رہے ہوں۔ تصور میں دیوسائی کے برفیلے پہاڑ اور خوش رنگ پھولوں بھرے میدان آپ کے لبوں پر مسکان بکھیر رہے ہوں۔ منزل بس دو گھنٹوں کی مار ہو کہ اچانک کمرے پر دستک ہوتی ہے اور اطلاع ملتی ہے کہ دیوسائی پر شدید برف باری شروع ہوچکی ہے، راستے بند ہوگئے ہیں اور جانا مشکل ہے۔ راستے کب کھلیں گے کچھ نہیں پتا! اور پھر آپ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
لیکن ہم اپنے سفر کے آغاز سے ہی خوش نصیب ٹھہرے۔ پہلی خوش نصیبی، اسلام آباد سے اسکردو کی فلائٹ اپنے وقت پر روانہ ہوئی۔ دوسری خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ موسم اتنا صاف تھا کہ دست قدرت کے تراشے ہوئے ان مظاہر کو جی بھر کر دیکھنے کا موقع ملا جنہیں دیکھنے کی تمنا میں نہ جانے کتنے لوگ نگری نگری خاک چھانتے ان وادیوں میں پہنچتے ہیں اور جانے کتنی آنکھیں انہیں دیکھنے کی حسرت میں ان برفیلے قبرستانوں میں ابدی نیند سوجاتی ہیں۔ ان بلند و بالا پہاڑوں کے قدموں میں ان کے کتنے چاہنے والے دفن ہیں، ان کی تعداد کوئی نہیں جانتا۔ جہاز بالکل ان پہاڑوں پر معلق تھا اور اوپر سے ان پہاڑوں کی ایک ایک تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی فنکار ہاتھ نے ہر شے ناپ تول کر چاک سے اتاری ہے۔ ہم جیسے عمر کے پیاسوں کے سامنے شمال کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔ عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا… جھوم کر ہم جہاں بیٹھے وہیں مے خانہ بنا۔
عجیب اتاؤلی سی کیفیت تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس مے خانہ شمال کے جام سے کون سا گھونٹ پینا ہے اور کتنا پینا ہے۔ کس منظر کو نظر میں رکھنا ہے اور کسے دل میں اتارنا ہے۔ جیسے کائنات کی خوبصورت کتاب کا ایک انوکھا صفحہ کسی نے کھول کر سامنے رکھ دیا کہ لو دیکھو، جی بھر کے دیکھو۔ نیچے قراقرم کے برف پوش پہاڑوں میں، کاغان کی وادی میں سبز نگینے کی طرح جڑی جھیل سیف الملوک بھی صاف دکھائی دے رہی تھی، تو برفیلا معبد راکاپوشی بھی لشکارے مار رہا تھا۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت دھڑکنوں کو بے قابو کررہا تھا تو دوسری جانب دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا تاج سر پر سجائے قراقرم سلسلہ ہائے کوہ سانس روک رہا تھا۔ نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ ان پہاڑوں کی بناوٹ بے عیب اور مکمل تھی۔ خوش نصیبی سی خوش نصیبی۔ پہاڑوں کے عاشق اس دل مضطر کو اور کیا چاہیے تھا۔ دیکھا اور دل بھر کر دیکھا اور کیمرے میں بھی یہ انوکھا نظارہ قید کیا۔
اگرچہ یہ اعتراف بھی کرنے دیں کہ ہم نے غاصبانہ طور پر طیارے کی کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کیا تھا۔ 2015 میں جب اسکردو گئے تھے تو موسم نے چکمہ دے دیا تھا۔ موسم کی خرابی کے باعث تین دن سے جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی۔ موسم ہنوز خراب تھا اور قطار میں تین جہازوں کے مسافر منتظر تھے، دور دور تک ہمارا کوئی چانس نہیں تھا، سو زمینی راستہ اختیار کیا تھا۔ اس بار موسم بے حد صاف تھا، لہٰذا جیسے ہی یہ خوش خبری ملی کہ جہاز وقت پر اڑے گا تو خوشی کے مارے کھڑکی والی سیٹ لینا بھول گئے۔ لیکن جیسے جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، ایسے ہی شمال کے سفر میں کھڑکی کی سیٹ پر بیٹھنا اپنا حق سمجھا اور بیٹھ گئے۔ بیٹی سیدہ ماہ پارہ نے برابر میں بیٹھنے پر اکتفا کیا۔ کھڑکی والی سیٹ کی ہرگز ضد نہیں کی۔ حالانکہ وہ تو کار میں بھی کنارے پر بیٹھنے کےلیے بہن اور بھائی سے لڑتی ہے۔ لیکن یہاں اسے معلوم تھا کہ اماں ہرگز کوئی مروت نہیں کریں گی۔ واپسی پر اس نے شکوہ کیا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ اور آپ کا کیمرا سارا وقت کھڑکی کے سامنے رہا۔ جن صاحب کی وہ سیٹ تھی، انہوں نے دو خواتین کو دیکھ کر صبر کا گھونٹ بھرا اور کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے بیٹھ گئے ( کبھی کبھی وومن کارڈ بغیر کھیلے بھی کام کر جاتا ہے) بس انہوں نے اتنا کیا کہ اپنا موبائل ہمیں پکڑا دیا کہ کچھ تصاویر بنادیں، سو ہم نے بنادیں۔
ہمارا جذبہ صادق تھا۔ دیو صاحب کو ہمارے دیوسائی آنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، سو وقت مقررہ پر ہماری پراڈو منزل کی جانب چلی۔ ہم اسکردو شہر سے ایک بار پھر سدپارہ جھیل کی جانب چلے۔ اس جھیل کو ہم تیسری بار دیکھ رہے تھے۔ کسی بھی جھیل کو آپ جب بھی دیکھیں گے تو اس میں کچھ نیا ضرور پائیں گے۔ اور یہ تو سد پارہ تھی۔ قراقرم کا نگینہ۔ پہاڑوں کے بیچ یہ جھیل ایسے ہی ہے جیسے انگوٹھی میں جڑا کوئی سچا نگینہ۔ آپ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے پانی کا رنگ کیسا ہے۔ پہلے دن جب اس جھیل کو دیکھا تو اس جھیل کے پانی نے بلامبالغہ ہمارے سامنے ایک دن میں کئی رنگ بدلے تھے۔ صبح سبز زمرد، سہ پہر میں چمکیلا سنہری اور شام ڈھلے نیلگوں نیلم۔ عجب فسوں خیز منظر تھا۔ کائنات کی انوکھی تصویر، ایک فریم میں اتنے رنگ۔ دور ہمالیہ کے پہاڑوں پر شام ڈھل چکی تھی اور وہ سرمئی دھند میں بھرگئے تھے، جبکہ دوسری طرف قراقرم پہاڑوں پر ابھی دھوپ ڈھل رہی تھی اور یہ ڈھلتی دھوپ وادی کو سونا کررہی تھی اور ان کے درمیان پیالہ نما جھیل ایک بڑے نیلم کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ سچا نیلم جس کی یہ حسین تراش خراش دست قدرت ہی کو روا تھی۔
سدپارہ گائوں کے مقامی بزرگ یہ بھی بیان کرتے ہیں جھیل کے نیچے ایک سونے کی کان موجود ہے۔ اس لیے دن میں اس کا پانی سنہری اور چمکیلا ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ اس جھیل کے اندر ایک جزیرہ ہے جس میں وہ خفیہ راستہ موجود ہے جو سونے کی کان تک پہنچتا ہے۔ اب جب کہ یہاں سدپارہ ڈیم بن چکا ہے اور انسانی مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامی لوگ اب خود ان کہانیوں پر یقین نہیں کرتے، البتہ کچھ بزرگ اس پر اب بھی مصر ہیں۔
سدپارہ جھیل سے اوپر کی طرف ایک راستہ اٹھتا ہے اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کو آپ کے خوابوں کی جنت یعنی دنیا کے سب سے اونچے میدان دیوسائی تک پہنچا دیتا ہے۔ اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ 2015 میں ہم مئی کے اوائل میں آئے تھے، تب یہ راستہ بند تھا۔ برف نہیں پگھلی تھی۔ دل مسوس کر رہ گئے تھے۔ بڑی حسرت سے اس راستے کو دیکھا تھا جو دیوسائی جارہا تھا۔ لیکن اس بار یہ راستہ کسی کشادہ دل کی مانند کھلا تھا۔ سفر کا آغاز ہوا۔ گاڑی خطرناک اور موڑ در موڑ پرپیچ راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ راستے کی خطرناکی دل دہلا رہی تھی۔ نیچے گہرائی میں دیکھتے تو دل گویا بند سا ہوجاتا، مگر مناظر ایسے تھے کہ دیکھے بنا چارہ بھی نہ تھا۔
نیچے بہت نیچے، جگہ جگہ گلیشیئرز سے پگھل کر آنے والے پانی نالوں کی شکل میں بہہ رہے تھے۔ چاندی کے مانند چمک رہے تھے۔ کہیں پہاڑوں میں سے آبشار گر رہے تھے، جن کا شفاف پانی ہلکی دھوپ میں چمک رہا تھا۔ کہیں دودھیا پانی کے چشمے ابل رہے تھے۔
لفظ ’’نالے‘‘ کی بھی عجب کہانی ہے۔ ہم جب پچھلی بار سیرینا ہوٹل شگر میں ٹھہرے تھے تو ہوٹل کے قریب ایک صاف شفاف شور مچاتے پانی کی ندی بہہ رہی تھی، جسے سب لوگ شگر نالہ کہہ رہے تھے۔ اور یہ ’’نالہ‘‘ لفظ ہمارے گلے سے نہیں اتر رہا تھا۔ کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں کہ ’’نالہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ سیاہ بدبو دار سیوریج کے پانی کے چینل کو ہم نالہ کہتے ہیں اور کہاں یہ پہاڑی علاقوں کے ’’نالے‘‘ اللہ اکبر۔ دودھیا، جھاگ اڑاتے، اتنے شفاف کہ تہہ میں پڑے پتھر اور ان کے رنگ دیکھ لیجیے۔ بہت سے نالوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ ایک دو دن تو اس لفظ ’’نالہ‘‘ پر احتجاج کرتے رہے، پھر بالآخر روم میں رومی بن گئے اور خود بھی نالہ کہنے لگے۔ دیو سائی کے راستے میں بہت سے نالے نظر آتے رہے۔
سدپارہ گاؤں سے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے سدپارہ چیک پوسٹ سے گزرے جہاں اپنا نام اور شناختی کارڈ کا اندراج کروایا۔ شتونگ نالے کے پاس پہلی باقاعدہ چیک پوسٹ تھی۔ انتہائی سرد بلکہ برفیلے ماحول میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے اسٹاف خصوصاً رشید عباس گیم وارڈن نے بڑے خلوص سے ہمارا خیر مقدم کیا اور گرماگرم چائے بھی پلائی، جو اس ٹھٹھرتی فضا میں بہت راحت بخش محسوس ہوئی۔ یہیں ہم نے حقیقی زندگی میں پہلی بار ’’اِگلو‘‘ بھی دیکھا۔ سردی سے محفوظ رکھنے والا یہ خیمہ اس جگہ کی حقیقی ضرورت ہے۔
یہ ستمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ پہاڑوں میں خزاں چھا رہی تھی۔ اور یہ وہ خزاں تھی جس کےلیے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی مصنف، ناول نگار اور فلاسفر البرٹ کیمس نے کہا تھا کہ خزاں دراصل دوسری بہار ہوتی ہے، جب ہر پتا پھول بن جاتا ہے۔ ’’ Autumn is a second spring when every leaf is a flower ‘‘۔
یہ بات صد فیصد سچ تھی۔ دیوسائی کے راستے میں پہاڑوں پر موجود درخت، پودے، جھاڑ جھنکاڑ سب خزاں کی زد میں تھے، لیکن خزاں کے یہ وہ رنگ تھے جس پر ہزاروں بہاریں قربان۔ درخت اور پودوں نے اپنے سبز پتے چھوڑ کر انوکھے لبادے پہن لیے تھے۔ زرد، نارنجی، قرمزی، بنفشی، عنابی، مونگیا، بادامی، پیازی، سلیٹی، سرخ، گلابی، زعفرانی، غرض کون سا رنگ تھا جو یہاں نہیں تھا۔ کہیں تو ایسا نارنجی رنگ تھا کہ دور سے لگتا کہ آگ لگی ہوئی ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلوانیں ان رنگین جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں، لیکن اس کے باوجود بے شمار پہاڑ درختوں سے محروم تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان پہاڑوں میں بے دریغ جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے اور بلا روک ٹوک ان سیکڑوں سال پرانے درختوں پر کلہاڑا چلادیا گیا ہے۔ یہ وہ جنگلات تھے جن کی آبیاری خود فطرت نے کی تھی اور یہ اس ماحولیاتی نظام کےلیے جزو لازم تھے۔ جانے کتنے پرندوں اور دیگر جانداروں کے گھر کلہاڑی کے ایک وار نے ختم کردیے۔
تم پرندے کا دکھ نہیں سمجھے
پیڑ پر گھونسلا نہیں گھر تھا
یہ درخت اس حساس ماحولیاتی نظام میں پہاڑوں کی مٹی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ جب درخت نہیں رہتے تو یہ مٹی اور پتھر آزاد ہوجاتے ہیں اور بارشوں میں سیلاب کی سنگینی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قراقرم کے پہاڑوں میں کیچڑ کے سیلاب جیسی آفات بہت بڑھ گئی ہیں۔ بارشوں کے دوران بجلی کسی پہاڑی ندی نالے پر گرتی ہے۔ یہ نالہ پھٹ جاتا ہے۔ اس پانی کے ساتھ مٹی اور پتھر بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو کیچڑ کے سیلاب (Debbri Flow) کی صورت راستے میں آنے والے ہر گاؤں کو غرق کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کیچڑ میں غرق ایک گاؤں کوتھم پائن ہم نے شگر کے قریب دیکھا تھا۔
دوسری چیک پوسٹ کے ساتھ ہی سمجھیے کہ دیوسائی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کے دل دہلا دینے والے سفر کے بعد قدرت انعام کے طور پر آپ کو جو منظر عطا کرتی ہے وہ بلاشبہ سانسیں روکنے والا تھا۔ اتنی بلندی پر اتنا وسیع میدان تقریباً 3000 مربع کلومیٹر میدان۔ دنیا کی دوسری بڑی سطح مرتفع، دنیا کی چھت۔ چاروں طرف کھلا میدان، خزاں میں دیوسائی پر پھول تو نہیں تھے لیکن گھاس نے جادوئی بھورے، بادامی، کہیں کہیں نارنجی اور زرد رنگ اوڑھ لیے تھے۔ کہیں گھاس بلند تھی اور ہوا سے سرسرا رہی تھی۔ شدید ٹھنڈ نے ہمیں کپکپانے پر مجبور کردیا۔ ہمارے مقامی ساتھی عباس نے بتایا کہ جب وہ چند سال پہلے یہاں آتے تھے تو یہ گھاس قد آدم جتنی بلند ہوتی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے شاید اس گھاس کی بڑھوتری پر بھی اثر ڈالا ہے۔ راستے میں بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ بھی نظر آئے۔ یہ چرواہے اب موسم سرما کے آغاز پر اپنے جانور واپس لے جارہے تھے۔ پارہ نے ایک بکری کے بچے کو پکڑ کر پیار کیا اور اس کے ساتھ تصویر بنوائی۔
دیوسائی کے رنگین کھلے میدان، اس میں بہتے شفاف دودھیا پانی کے نالے، کہیں کہیں ان پانیوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں، سنہری ٹراؤٹ، گھروں کو لوٹتے چرواہے، ان کے جانور، چمکیلے نیلے آسمان پر اٹکھیلیاں کرتے اور مختلف شکلیں بناتے بادل، دور نانگا پربت کی برفیلی بلندیاں، اس کے گرد گھومتا سفید غبار۔ ایک مکمل تصویر، ایسی تصویر جس کے رنگ اَن چھوئے ہوں اور مصور نے گویا ابھی تصویر سے ہمارے لیے پردہ ہٹایا ہو۔ یہ مقام کسی دیو سے زیادہ پریوں کا لگتا تھا۔ دور پہاڑوں میں برفیلی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ عباس نے بتایا کہ وہاں برف باری شروع ہوچکی ہے۔
دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ بلتستان میں بولی جانے والی زبان شینا میں لفظ دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے، جبکہ بلتی زبان میں اس کا مطلب پھولوں کی سرزمین ہے۔ دیوسائی پر دونوں معنی درست بیٹھتے ہیں۔ دیوسائی کو دنیا کے نایاب ترین جان دار بھورے ریچھ کا مسکن ہونے کے باعث نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا، تاکہ اس نایاب جان دار کی نسل پروان چڑھ سکے۔ 1993 میں جب دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تب ان بھورے ریچھوں کی تعداد 16 تھی جو بڑھ کر اب 76 ہوچکی ہے۔ اس کامیابی پر محکمہ وائلڈ لائف اور مقامی آبادی دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ بھورے ریچھ کی اوسط عمر 30 سال ہوتی ہے۔
نیشنل پارک ہونے کے ناتے اس علاقے میں شکار پر مکمل پابندی ہے۔ یہاں پر بھورے ریچھ کے علاوہ ہمالیان آئی بیکس، اڑیال، برفانی چیتے کے علاوہ مارموٹ، لال لومڑی، تبتی بھیڑیے کے علاوہ سنہری اور داڑھی والے عقاب بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سو اقسام کے پودے پائے جاتے ہیں، جن میں سو سے زائد طبی اہمیت کے حامل پودے ہیں۔
ابھی ہم دوسری چیک پوسٹ کے قریب تھے کہ دور پتھر پر ایک گول مٹول سی شے نظر آئی۔ عباس نے بتایا کہ وہ مارموٹ ہے۔ یہ گولو مولو سا مارموٹ بہت انسان دوست تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے کےلیے ہم اس کے بہت پاس چلے گئے لیکن وہ ڈرا نہیں۔ یہ انسانوں کی طرح دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ انسانوں ہی کی طرح سیٹی بھی بجاتا ہے۔ البتہ اس وقت اس کا موڈ نہیں تھا تو اس نے ہمیں دیکھ کر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دوسری چیک پوسٹ رفیق راجپوت کے نام سے منسوب ہے۔ یہ محکمہ جنگلی حیات کے ایک نیک نام اور فرض شناس افسر تھے۔ دیوسائی کے بھورے ریچھوں اور دیگر جنگلی حیات پر ملک گیر تحقیق کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ وائے افسوس کہ صرف 40 سال کی عمر میں ان کا سفر حیات ختم ہوگیا۔ ان کی موت سانپ کاٹنے سے ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ وہ سانپوں کے حوالے سے بھی ماہرین میں شامل تھے۔ لیکن اس بار ان سے پہچاننے میں غلطی ہوئی اور جس سانپ کو وہ بے ضرر سمجھ بیٹھے وہ انتہائی زہریلا نکلا۔ یہی زہر ان کی موت کا باعث بنا۔ دیوسائی پر ایک چیک پوسٹ ان کے نام سے منسوب ہے۔
اسی چیک پوسٹ پر ہماری اسکردو کے بہترین فوٹوگرافر اور وائلڈ لائف دیوسائی نیشنل پارک کے آر ایف او عباس مہدی سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں، بلاشبہ وہ ایک مشاق وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہیں۔ ہم اس چوکی پر زیادہ نہیں بیٹھ سکے۔ سردی اتنی تھی کہ سانس رک رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ آج تو نمونیہ ہوکر رہے گا، جلداز جلد کسی ٹینٹ میں پہنچنا چاہتے تھے۔
بڑا پانی کے پاس اپنے خیموں کے پاس پہنچے تو حیران رہ گئے۔ اتنا رش۔ خیموں کا پورا ایک شہر آباد تھا۔ سیکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ظاہر ہے ہزاروں کی تعداد میں سیاح ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
مختلف لوگوں سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے یہاں ہماری ملاقات ایک غیر ملکی جوڑے سے بھی ہوئی۔ سوئس ڈاکٹر کیرولینا، ان کے جرمن شوہر اور دو پیارے سے جڑواں بچے، بیٹی اور بیٹا۔ یہ خاندان جرمنی سے اپنی گاڑی میں پاکستان پہنچا تھا۔ یہ خاندان مارچ میں جرمنی سے نکلا تھا، پھر پورا یورپ، وسط ایشیائی ریاستیں، چین اور اب گلگت بلتستان گھوم رہا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ایک ٹرک نما گاڑی کو اپنے گھر میں تبدیل کرلیا تھا۔ یہ اسی میں سفر کرتے، جہاں رات ہوتی، کہیں گاڑی کھڑی کرکے سو جاتے۔ ہم نے گاڑی اندر سے دیکھی، بیڈروم، سٹنگ ایریا، کچن واش روم سبھی کچھ تھا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ کیرولینا سیاحت کی دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچر اور بلاگر بھی ہیں۔ کافی لمبی بات چیت رہی، انہوں نے کئی ممالک کے لوگوں اور رویوں پر تبصرہ کیا، پھر انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان اب صحیح ٹریک پر آچکا ہے اور لکھ لو آج سے 5 سال بعد پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہوگی۔ انہوں نے پاکستانی ثقافت خصوصاً خواتین کے لباس شلوار قمیص اور دوپٹے کی تعریف کی۔ وہ خود بھی اسی لباس میں تھیں۔ دوپٹہ بھی لیا ہوا تھا۔ ہم نے انہیں پاکستان کا گڈ وِل ایمبیسڈر قرار دیا۔ ان کی بہادری کی تعریف بھی کی وہ ان خطرناک راستوں پر گاڑی چلارہی ہیں۔
دیوسائی پر ہماری موجودگی میں بارش شروع ہوچکی تھی۔ سردی اپنا وہ رنگ جما رہی تھی جس سے ہم جیسے کراچی والے ناآشنا تھے۔ دوسرے دن صبح نو بجے اسکردو سے اسلام آباد واپسی کی فلائٹ بھی تھی، سو اس سے پہلے کہ موسم خراب ہوتا ہم نے دیوسائی سے رخت سفر باندھ لیا۔ ہمارا دیوسائی کا سفر تمام ہوا لیکن کچھ سوالات ابھی تک جواب کی تلاش میں دیوسائی کی فضاؤں میں بھٹک رہے ہیں۔
کیا کسی نیشنل پارک میں اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا جانا خلاف قانون نہیں؟ کیا اس سے نیشنل پارک کے وسائل خصوصاً جانور ڈسٹرب نہیں ہوں گے؟
سیکڑوں (شاید ہزاروں) گاڑیوں کا نیشنل پارک میں داخلہ، گاڑیوں سے نکلتا دھواں اور ہارن، فضائی اور شور کی آلودگی کی وجہ نہیں بنیں گے؟
کیا ہزاروں لوگوں کےلیے وہاں پکنے والا کھانا فضائی آلودگی اور جنگلات کٹنے کا باعث نہیں بنے گا؟ فضلہ کہاں جائے گا؟ اتنے شور میں جانور اور پرندے خوف زدہ نہیں ہوں گے؟
یاد رہے کہ نیشل پارکس یا محفوظ علاقہ کسی بھی ملک کی شناخت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ علاقے دراصل وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں فطرت اپنے ارتقائی مدارج قدرتی انداز میں آزادی سے طے کرتی ہے۔ اس عمل میں خلل اندازی کسی بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شبینہ فراز اتوار 10 نومبر 2019
دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ (تصاویر: بلاگر)
کہتے ہیں کہ دیوسائی پر کسی دیو کی حکومت ہے۔ اس کی مرضی ہے وہ اپنی راجدھانی میں کسی کو اذن باریابی دے یا نہیں۔ اسی لیے وہاں بے موسم برساتیں اور برف باری عام ہے تاکہ آنے والوں کا راستہ کھوٹا ہوتا رہے اور ہر کس و ناکس وہاں منہ اٹھا کر گھومتا نہ پھرے۔
تصور کیجیے! آپ ایک روشن اور چمکیلی صبح میں اسکردو کے کسی ہوٹل کے کمرے میں سامان باندھ رہے ہوں۔ تصور میں دیوسائی کے برفیلے پہاڑ اور خوش رنگ پھولوں بھرے میدان آپ کے لبوں پر مسکان بکھیر رہے ہوں۔ منزل بس دو گھنٹوں کی مار ہو کہ اچانک کمرے پر دستک ہوتی ہے اور اطلاع ملتی ہے کہ دیوسائی پر شدید برف باری شروع ہوچکی ہے، راستے بند ہوگئے ہیں اور جانا مشکل ہے۔ راستے کب کھلیں گے کچھ نہیں پتا! اور پھر آپ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
لیکن ہم اپنے سفر کے آغاز سے ہی خوش نصیب ٹھہرے۔ پہلی خوش نصیبی، اسلام آباد سے اسکردو کی فلائٹ اپنے وقت پر روانہ ہوئی۔ دوسری خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ موسم اتنا صاف تھا کہ دست قدرت کے تراشے ہوئے ان مظاہر کو جی بھر کر دیکھنے کا موقع ملا جنہیں دیکھنے کی تمنا میں نہ جانے کتنے لوگ نگری نگری خاک چھانتے ان وادیوں میں پہنچتے ہیں اور جانے کتنی آنکھیں انہیں دیکھنے کی حسرت میں ان برفیلے قبرستانوں میں ابدی نیند سوجاتی ہیں۔ ان بلند و بالا پہاڑوں کے قدموں میں ان کے کتنے چاہنے والے دفن ہیں، ان کی تعداد کوئی نہیں جانتا۔ جہاز بالکل ان پہاڑوں پر معلق تھا اور اوپر سے ان پہاڑوں کی ایک ایک تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی فنکار ہاتھ نے ہر شے ناپ تول کر چاک سے اتاری ہے۔ ہم جیسے عمر کے پیاسوں کے سامنے شمال کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔ عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا… جھوم کر ہم جہاں بیٹھے وہیں مے خانہ بنا۔
عجیب اتاؤلی سی کیفیت تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس مے خانہ شمال کے جام سے کون سا گھونٹ پینا ہے اور کتنا پینا ہے۔ کس منظر کو نظر میں رکھنا ہے اور کسے دل میں اتارنا ہے۔ جیسے کائنات کی خوبصورت کتاب کا ایک انوکھا صفحہ کسی نے کھول کر سامنے رکھ دیا کہ لو دیکھو، جی بھر کے دیکھو۔ نیچے قراقرم کے برف پوش پہاڑوں میں، کاغان کی وادی میں سبز نگینے کی طرح جڑی جھیل سیف الملوک بھی صاف دکھائی دے رہی تھی، تو برفیلا معبد راکاپوشی بھی لشکارے مار رہا تھا۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت دھڑکنوں کو بے قابو کررہا تھا تو دوسری جانب دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا تاج سر پر سجائے قراقرم سلسلہ ہائے کوہ سانس روک رہا تھا۔ نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ ان پہاڑوں کی بناوٹ بے عیب اور مکمل تھی۔ خوش نصیبی سی خوش نصیبی۔ پہاڑوں کے عاشق اس دل مضطر کو اور کیا چاہیے تھا۔ دیکھا اور دل بھر کر دیکھا اور کیمرے میں بھی یہ انوکھا نظارہ قید کیا۔
اگرچہ یہ اعتراف بھی کرنے دیں کہ ہم نے غاصبانہ طور پر طیارے کی کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کیا تھا۔ 2015 میں جب اسکردو گئے تھے تو موسم نے چکمہ دے دیا تھا۔ موسم کی خرابی کے باعث تین دن سے جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی۔ موسم ہنوز خراب تھا اور قطار میں تین جہازوں کے مسافر منتظر تھے، دور دور تک ہمارا کوئی چانس نہیں تھا، سو زمینی راستہ اختیار کیا تھا۔ اس بار موسم بے حد صاف تھا، لہٰذا جیسے ہی یہ خوش خبری ملی کہ جہاز وقت پر اڑے گا تو خوشی کے مارے کھڑکی والی سیٹ لینا بھول گئے۔ لیکن جیسے جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، ایسے ہی شمال کے سفر میں کھڑکی کی سیٹ پر بیٹھنا اپنا حق سمجھا اور بیٹھ گئے۔ بیٹی سیدہ ماہ پارہ نے برابر میں بیٹھنے پر اکتفا کیا۔ کھڑکی والی سیٹ کی ہرگز ضد نہیں کی۔ حالانکہ وہ تو کار میں بھی کنارے پر بیٹھنے کےلیے بہن اور بھائی سے لڑتی ہے۔ لیکن یہاں اسے معلوم تھا کہ اماں ہرگز کوئی مروت نہیں کریں گی۔ واپسی پر اس نے شکوہ کیا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ اور آپ کا کیمرا سارا وقت کھڑکی کے سامنے رہا۔ جن صاحب کی وہ سیٹ تھی، انہوں نے دو خواتین کو دیکھ کر صبر کا گھونٹ بھرا اور کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے بیٹھ گئے ( کبھی کبھی وومن کارڈ بغیر کھیلے بھی کام کر جاتا ہے) بس انہوں نے اتنا کیا کہ اپنا موبائل ہمیں پکڑا دیا کہ کچھ تصاویر بنادیں، سو ہم نے بنادیں۔
ہمارا جذبہ صادق تھا۔ دیو صاحب کو ہمارے دیوسائی آنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، سو وقت مقررہ پر ہماری پراڈو منزل کی جانب چلی۔ ہم اسکردو شہر سے ایک بار پھر سدپارہ جھیل کی جانب چلے۔ اس جھیل کو ہم تیسری بار دیکھ رہے تھے۔ کسی بھی جھیل کو آپ جب بھی دیکھیں گے تو اس میں کچھ نیا ضرور پائیں گے۔ اور یہ تو سد پارہ تھی۔ قراقرم کا نگینہ۔ پہاڑوں کے بیچ یہ جھیل ایسے ہی ہے جیسے انگوٹھی میں جڑا کوئی سچا نگینہ۔ آپ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے پانی کا رنگ کیسا ہے۔ پہلے دن جب اس جھیل کو دیکھا تو اس جھیل کے پانی نے بلامبالغہ ہمارے سامنے ایک دن میں کئی رنگ بدلے تھے۔ صبح سبز زمرد، سہ پہر میں چمکیلا سنہری اور شام ڈھلے نیلگوں نیلم۔ عجب فسوں خیز منظر تھا۔ کائنات کی انوکھی تصویر، ایک فریم میں اتنے رنگ۔ دور ہمالیہ کے پہاڑوں پر شام ڈھل چکی تھی اور وہ سرمئی دھند میں بھرگئے تھے، جبکہ دوسری طرف قراقرم پہاڑوں پر ابھی دھوپ ڈھل رہی تھی اور یہ ڈھلتی دھوپ وادی کو سونا کررہی تھی اور ان کے درمیان پیالہ نما جھیل ایک بڑے نیلم کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ سچا نیلم جس کی یہ حسین تراش خراش دست قدرت ہی کو روا تھی۔
سدپارہ گائوں کے مقامی بزرگ یہ بھی بیان کرتے ہیں جھیل کے نیچے ایک سونے کی کان موجود ہے۔ اس لیے دن میں اس کا پانی سنہری اور چمکیلا ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ اس جھیل کے اندر ایک جزیرہ ہے جس میں وہ خفیہ راستہ موجود ہے جو سونے کی کان تک پہنچتا ہے۔ اب جب کہ یہاں سدپارہ ڈیم بن چکا ہے اور انسانی مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامی لوگ اب خود ان کہانیوں پر یقین نہیں کرتے، البتہ کچھ بزرگ اس پر اب بھی مصر ہیں۔
سدپارہ جھیل سے اوپر کی طرف ایک راستہ اٹھتا ہے اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کو آپ کے خوابوں کی جنت یعنی دنیا کے سب سے اونچے میدان دیوسائی تک پہنچا دیتا ہے۔ اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ 2015 میں ہم مئی کے اوائل میں آئے تھے، تب یہ راستہ بند تھا۔ برف نہیں پگھلی تھی۔ دل مسوس کر رہ گئے تھے۔ بڑی حسرت سے اس راستے کو دیکھا تھا جو دیوسائی جارہا تھا۔ لیکن اس بار یہ راستہ کسی کشادہ دل کی مانند کھلا تھا۔ سفر کا آغاز ہوا۔ گاڑی خطرناک اور موڑ در موڑ پرپیچ راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ راستے کی خطرناکی دل دہلا رہی تھی۔ نیچے گہرائی میں دیکھتے تو دل گویا بند سا ہوجاتا، مگر مناظر ایسے تھے کہ دیکھے بنا چارہ بھی نہ تھا۔
نیچے بہت نیچے، جگہ جگہ گلیشیئرز سے پگھل کر آنے والے پانی نالوں کی شکل میں بہہ رہے تھے۔ چاندی کے مانند چمک رہے تھے۔ کہیں پہاڑوں میں سے آبشار گر رہے تھے، جن کا شفاف پانی ہلکی دھوپ میں چمک رہا تھا۔ کہیں دودھیا پانی کے چشمے ابل رہے تھے۔
لفظ ’’نالے‘‘ کی بھی عجب کہانی ہے۔ ہم جب پچھلی بار سیرینا ہوٹل شگر میں ٹھہرے تھے تو ہوٹل کے قریب ایک صاف شفاف شور مچاتے پانی کی ندی بہہ رہی تھی، جسے سب لوگ شگر نالہ کہہ رہے تھے۔ اور یہ ’’نالہ‘‘ لفظ ہمارے گلے سے نہیں اتر رہا تھا۔ کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں کہ ’’نالہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ سیاہ بدبو دار سیوریج کے پانی کے چینل کو ہم نالہ کہتے ہیں اور کہاں یہ پہاڑی علاقوں کے ’’نالے‘‘ اللہ اکبر۔ دودھیا، جھاگ اڑاتے، اتنے شفاف کہ تہہ میں پڑے پتھر اور ان کے رنگ دیکھ لیجیے۔ بہت سے نالوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ ایک دو دن تو اس لفظ ’’نالہ‘‘ پر احتجاج کرتے رہے، پھر بالآخر روم میں رومی بن گئے اور خود بھی نالہ کہنے لگے۔ دیو سائی کے راستے میں بہت سے نالے نظر آتے رہے۔
سدپارہ گاؤں سے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے سدپارہ چیک پوسٹ سے گزرے جہاں اپنا نام اور شناختی کارڈ کا اندراج کروایا۔ شتونگ نالے کے پاس پہلی باقاعدہ چیک پوسٹ تھی۔ انتہائی سرد بلکہ برفیلے ماحول میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے اسٹاف خصوصاً رشید عباس گیم وارڈن نے بڑے خلوص سے ہمارا خیر مقدم کیا اور گرماگرم چائے بھی پلائی، جو اس ٹھٹھرتی فضا میں بہت راحت بخش محسوس ہوئی۔ یہیں ہم نے حقیقی زندگی میں پہلی بار ’’اِگلو‘‘ بھی دیکھا۔ سردی سے محفوظ رکھنے والا یہ خیمہ اس جگہ کی حقیقی ضرورت ہے۔
یہ ستمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ پہاڑوں میں خزاں چھا رہی تھی۔ اور یہ وہ خزاں تھی جس کےلیے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی مصنف، ناول نگار اور فلاسفر البرٹ کیمس نے کہا تھا کہ خزاں دراصل دوسری بہار ہوتی ہے، جب ہر پتا پھول بن جاتا ہے۔ ’’ Autumn is a second spring when every leaf is a flower ‘‘۔
یہ بات صد فیصد سچ تھی۔ دیوسائی کے راستے میں پہاڑوں پر موجود درخت، پودے، جھاڑ جھنکاڑ سب خزاں کی زد میں تھے، لیکن خزاں کے یہ وہ رنگ تھے جس پر ہزاروں بہاریں قربان۔ درخت اور پودوں نے اپنے سبز پتے چھوڑ کر انوکھے لبادے پہن لیے تھے۔ زرد، نارنجی، قرمزی، بنفشی، عنابی، مونگیا، بادامی، پیازی، سلیٹی، سرخ، گلابی، زعفرانی، غرض کون سا رنگ تھا جو یہاں نہیں تھا۔ کہیں تو ایسا نارنجی رنگ تھا کہ دور سے لگتا کہ آگ لگی ہوئی ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلوانیں ان رنگین جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں، لیکن اس کے باوجود بے شمار پہاڑ درختوں سے محروم تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان پہاڑوں میں بے دریغ جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے اور بلا روک ٹوک ان سیکڑوں سال پرانے درختوں پر کلہاڑا چلادیا گیا ہے۔ یہ وہ جنگلات تھے جن کی آبیاری خود فطرت نے کی تھی اور یہ اس ماحولیاتی نظام کےلیے جزو لازم تھے۔ جانے کتنے پرندوں اور دیگر جانداروں کے گھر کلہاڑی کے ایک وار نے ختم کردیے۔
تم پرندے کا دکھ نہیں سمجھے
پیڑ پر گھونسلا نہیں گھر تھا
یہ درخت اس حساس ماحولیاتی نظام میں پہاڑوں کی مٹی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ جب درخت نہیں رہتے تو یہ مٹی اور پتھر آزاد ہوجاتے ہیں اور بارشوں میں سیلاب کی سنگینی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قراقرم کے پہاڑوں میں کیچڑ کے سیلاب جیسی آفات بہت بڑھ گئی ہیں۔ بارشوں کے دوران بجلی کسی پہاڑی ندی نالے پر گرتی ہے۔ یہ نالہ پھٹ جاتا ہے۔ اس پانی کے ساتھ مٹی اور پتھر بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو کیچڑ کے سیلاب (Debbri Flow) کی صورت راستے میں آنے والے ہر گاؤں کو غرق کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کیچڑ میں غرق ایک گاؤں کوتھم پائن ہم نے شگر کے قریب دیکھا تھا۔
دوسری چیک پوسٹ کے ساتھ ہی سمجھیے کہ دیوسائی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کے دل دہلا دینے والے سفر کے بعد قدرت انعام کے طور پر آپ کو جو منظر عطا کرتی ہے وہ بلاشبہ سانسیں روکنے والا تھا۔ اتنی بلندی پر اتنا وسیع میدان تقریباً 3000 مربع کلومیٹر میدان۔ دنیا کی دوسری بڑی سطح مرتفع، دنیا کی چھت۔ چاروں طرف کھلا میدان، خزاں میں دیوسائی پر پھول تو نہیں تھے لیکن گھاس نے جادوئی بھورے، بادامی، کہیں کہیں نارنجی اور زرد رنگ اوڑھ لیے تھے۔ کہیں گھاس بلند تھی اور ہوا سے سرسرا رہی تھی۔ شدید ٹھنڈ نے ہمیں کپکپانے پر مجبور کردیا۔ ہمارے مقامی ساتھی عباس نے بتایا کہ جب وہ چند سال پہلے یہاں آتے تھے تو یہ گھاس قد آدم جتنی بلند ہوتی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے شاید اس گھاس کی بڑھوتری پر بھی اثر ڈالا ہے۔ راستے میں بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ بھی نظر آئے۔ یہ چرواہے اب موسم سرما کے آغاز پر اپنے جانور واپس لے جارہے تھے۔ پارہ نے ایک بکری کے بچے کو پکڑ کر پیار کیا اور اس کے ساتھ تصویر بنوائی۔
دیوسائی کے رنگین کھلے میدان، اس میں بہتے شفاف دودھیا پانی کے نالے، کہیں کہیں ان پانیوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں، سنہری ٹراؤٹ، گھروں کو لوٹتے چرواہے، ان کے جانور، چمکیلے نیلے آسمان پر اٹکھیلیاں کرتے اور مختلف شکلیں بناتے بادل، دور نانگا پربت کی برفیلی بلندیاں، اس کے گرد گھومتا سفید غبار۔ ایک مکمل تصویر، ایسی تصویر جس کے رنگ اَن چھوئے ہوں اور مصور نے گویا ابھی تصویر سے ہمارے لیے پردہ ہٹایا ہو۔ یہ مقام کسی دیو سے زیادہ پریوں کا لگتا تھا۔ دور پہاڑوں میں برفیلی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ عباس نے بتایا کہ وہاں برف باری شروع ہوچکی ہے۔
دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ بلتستان میں بولی جانے والی زبان شینا میں لفظ دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے، جبکہ بلتی زبان میں اس کا مطلب پھولوں کی سرزمین ہے۔ دیوسائی پر دونوں معنی درست بیٹھتے ہیں۔ دیوسائی کو دنیا کے نایاب ترین جان دار بھورے ریچھ کا مسکن ہونے کے باعث نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا، تاکہ اس نایاب جان دار کی نسل پروان چڑھ سکے۔ 1993 میں جب دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تب ان بھورے ریچھوں کی تعداد 16 تھی جو بڑھ کر اب 76 ہوچکی ہے۔ اس کامیابی پر محکمہ وائلڈ لائف اور مقامی آبادی دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ بھورے ریچھ کی اوسط عمر 30 سال ہوتی ہے۔
نیشنل پارک ہونے کے ناتے اس علاقے میں شکار پر مکمل پابندی ہے۔ یہاں پر بھورے ریچھ کے علاوہ ہمالیان آئی بیکس، اڑیال، برفانی چیتے کے علاوہ مارموٹ، لال لومڑی، تبتی بھیڑیے کے علاوہ سنہری اور داڑھی والے عقاب بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سو اقسام کے پودے پائے جاتے ہیں، جن میں سو سے زائد طبی اہمیت کے حامل پودے ہیں۔
ابھی ہم دوسری چیک پوسٹ کے قریب تھے کہ دور پتھر پر ایک گول مٹول سی شے نظر آئی۔ عباس نے بتایا کہ وہ مارموٹ ہے۔ یہ گولو مولو سا مارموٹ بہت انسان دوست تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے کےلیے ہم اس کے بہت پاس چلے گئے لیکن وہ ڈرا نہیں۔ یہ انسانوں کی طرح دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ انسانوں ہی کی طرح سیٹی بھی بجاتا ہے۔ البتہ اس وقت اس کا موڈ نہیں تھا تو اس نے ہمیں دیکھ کر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دوسری چیک پوسٹ رفیق راجپوت کے نام سے منسوب ہے۔ یہ محکمہ جنگلی حیات کے ایک نیک نام اور فرض شناس افسر تھے۔ دیوسائی کے بھورے ریچھوں اور دیگر جنگلی حیات پر ملک گیر تحقیق کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ وائے افسوس کہ صرف 40 سال کی عمر میں ان کا سفر حیات ختم ہوگیا۔ ان کی موت سانپ کاٹنے سے ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ وہ سانپوں کے حوالے سے بھی ماہرین میں شامل تھے۔ لیکن اس بار ان سے پہچاننے میں غلطی ہوئی اور جس سانپ کو وہ بے ضرر سمجھ بیٹھے وہ انتہائی زہریلا نکلا۔ یہی زہر ان کی موت کا باعث بنا۔ دیوسائی پر ایک چیک پوسٹ ان کے نام سے منسوب ہے۔
اسی چیک پوسٹ پر ہماری اسکردو کے بہترین فوٹوگرافر اور وائلڈ لائف دیوسائی نیشنل پارک کے آر ایف او عباس مہدی سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں، بلاشبہ وہ ایک مشاق وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہیں۔ ہم اس چوکی پر زیادہ نہیں بیٹھ سکے۔ سردی اتنی تھی کہ سانس رک رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ آج تو نمونیہ ہوکر رہے گا، جلداز جلد کسی ٹینٹ میں پہنچنا چاہتے تھے۔
بڑا پانی کے پاس اپنے خیموں کے پاس پہنچے تو حیران رہ گئے۔ اتنا رش۔ خیموں کا پورا ایک شہر آباد تھا۔ سیکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ظاہر ہے ہزاروں کی تعداد میں سیاح ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
مختلف لوگوں سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے یہاں ہماری ملاقات ایک غیر ملکی جوڑے سے بھی ہوئی۔ سوئس ڈاکٹر کیرولینا، ان کے جرمن شوہر اور دو پیارے سے جڑواں بچے، بیٹی اور بیٹا۔ یہ خاندان جرمنی سے اپنی گاڑی میں پاکستان پہنچا تھا۔ یہ خاندان مارچ میں جرمنی سے نکلا تھا، پھر پورا یورپ، وسط ایشیائی ریاستیں، چین اور اب گلگت بلتستان گھوم رہا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ایک ٹرک نما گاڑی کو اپنے گھر میں تبدیل کرلیا تھا۔ یہ اسی میں سفر کرتے، جہاں رات ہوتی، کہیں گاڑی کھڑی کرکے سو جاتے۔ ہم نے گاڑی اندر سے دیکھی، بیڈروم، سٹنگ ایریا، کچن واش روم سبھی کچھ تھا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ کیرولینا سیاحت کی دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچر اور بلاگر بھی ہیں۔ کافی لمبی بات چیت رہی، انہوں نے کئی ممالک کے لوگوں اور رویوں پر تبصرہ کیا، پھر انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان اب صحیح ٹریک پر آچکا ہے اور لکھ لو آج سے 5 سال بعد پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہوگی۔ انہوں نے پاکستانی ثقافت خصوصاً خواتین کے لباس شلوار قمیص اور دوپٹے کی تعریف کی۔ وہ خود بھی اسی لباس میں تھیں۔ دوپٹہ بھی لیا ہوا تھا۔ ہم نے انہیں پاکستان کا گڈ وِل ایمبیسڈر قرار دیا۔ ان کی بہادری کی تعریف بھی کی وہ ان خطرناک راستوں پر گاڑی چلارہی ہیں۔
دیوسائی پر ہماری موجودگی میں بارش شروع ہوچکی تھی۔ سردی اپنا وہ رنگ جما رہی تھی جس سے ہم جیسے کراچی والے ناآشنا تھے۔ دوسرے دن صبح نو بجے اسکردو سے اسلام آباد واپسی کی فلائٹ بھی تھی، سو اس سے پہلے کہ موسم خراب ہوتا ہم نے دیوسائی سے رخت سفر باندھ لیا۔ ہمارا دیوسائی کا سفر تمام ہوا لیکن کچھ سوالات ابھی تک جواب کی تلاش میں دیوسائی کی فضاؤں میں بھٹک رہے ہیں۔
کیا کسی نیشنل پارک میں اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا جانا خلاف قانون نہیں؟ کیا اس سے نیشنل پارک کے وسائل خصوصاً جانور ڈسٹرب نہیں ہوں گے؟
سیکڑوں (شاید ہزاروں) گاڑیوں کا نیشنل پارک میں داخلہ، گاڑیوں سے نکلتا دھواں اور ہارن، فضائی اور شور کی آلودگی کی وجہ نہیں بنیں گے؟
کیا ہزاروں لوگوں کےلیے وہاں پکنے والا کھانا فضائی آلودگی اور جنگلات کٹنے کا باعث نہیں بنے گا؟ فضلہ کہاں جائے گا؟ اتنے شور میں جانور اور پرندے خوف زدہ نہیں ہوں گے؟
یاد رہے کہ نیشل پارکس یا محفوظ علاقہ کسی بھی ملک کی شناخت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ علاقے دراصل وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں فطرت اپنے ارتقائی مدارج قدرتی انداز میں آزادی سے طے کرتی ہے۔ اس عمل میں خلل اندازی کسی بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔