محسن وقار علی
محفلین
دیکھ، دہلیز سے کائی نہیں جانے والی
یہ خطرناک سچائی نہیں جانے والی
کتنا اچھا ہے کہ سانسوں کی ہوا لگتی ہے
آگ اب ان سے بجھائی نہیں جانے والی
ایک تالاب سی بھر جاتی ہے ہر بارش میں
میں سمجھتا ہوں یہ کھائی نہیں جانے والی
چیخ نکلی تو ہے ہونٹوں سے مگر مدھم ہے
بند کمروں کو سنائی نہیں جانے والی
تو پریشان ہے، تو پریشان نہ ہو
ان خداؤں کی خدائی نہیں جانے والی
آج سڑکوں پہ چلے آؤ تو دل بہلے گا
چند غزلوں سے تنہائی نہیں جانے والی
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب
یہ خطرناک سچائی نہیں جانے والی
کتنا اچھا ہے کہ سانسوں کی ہوا لگتی ہے
آگ اب ان سے بجھائی نہیں جانے والی
ایک تالاب سی بھر جاتی ہے ہر بارش میں
میں سمجھتا ہوں یہ کھائی نہیں جانے والی
چیخ نکلی تو ہے ہونٹوں سے مگر مدھم ہے
بند کمروں کو سنائی نہیں جانے والی
تو پریشان ہے، تو پریشان نہ ہو
ان خداؤں کی خدائی نہیں جانے والی
آج سڑکوں پہ چلے آؤ تو دل بہلے گا
چند غزلوں سے تنہائی نہیں جانے والی
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب