نوید صادق
محفلین
غزل
دیکھا نہ ہمیں تو نے خط و خال سے آگے
اک شہر تھا، اس شہرِ مہ و سال سے آگے
اک دشتِ رضا تھا، اسی رستے کے کنارے
اے راست روو! اس رہِ پامال سے آگے
چھوڑا نہ کسی پل، تری یکتائی کا پیچھا
سوچا نہ گیا کچھ، تری تمثال سے آگے
اے زینہء دہلیزہء مستقبل و ماضی
اک سال، بہرحال تھا، ہر سال سے آگے
رنگِ رم و رفتارِ زمانہ نہیں بھولے
دیکھا نہ قدم بھر کے تری چال سے آگے
ہم معتکفِ دائرہ عشق تھے، ہم نے
رکھا نہ قدم سایہء مہ ۔۔ سال سے آگے
اے ماتمئ نائرہء ہائلہء دل
اک سانس تو چل! اس غمِ نَو سال سے آگے
کچھ ٹوٹ رہا تھا، کہیں کچھ پھوٹ رہا تھا
صورت گرئ عالمِ امثال سے آگے
ماضی کو جہنم کی طرح سر پہ اٹھائے
نکلیں تو ہم اس ہاویہء حال سے آگے
اے ماں! ترے بیٹے کہیں گونگے تو نہیں ہیں
ہر لفظ تھے غیر اب، ترے ہر لال سے آگے
انسان کی پستی کی کوئی حد نہ تھی لیکن
اُترا نہ کوئی تال میں پاتال سے آگے
یہ معجزہء حوصلہء دل زدگاں تھا
خالد یہ اڑانیں تھیں پر و بال سے آگے
شاعر: خالد احمد
دیکھا نہ ہمیں تو نے خط و خال سے آگے
اک شہر تھا، اس شہرِ مہ و سال سے آگے
اک دشتِ رضا تھا، اسی رستے کے کنارے
اے راست روو! اس رہِ پامال سے آگے
چھوڑا نہ کسی پل، تری یکتائی کا پیچھا
سوچا نہ گیا کچھ، تری تمثال سے آگے
اے زینہء دہلیزہء مستقبل و ماضی
اک سال، بہرحال تھا، ہر سال سے آگے
رنگِ رم و رفتارِ زمانہ نہیں بھولے
دیکھا نہ قدم بھر کے تری چال سے آگے
ہم معتکفِ دائرہ عشق تھے، ہم نے
رکھا نہ قدم سایہء مہ ۔۔ سال سے آگے
اے ماتمئ نائرہء ہائلہء دل
اک سانس تو چل! اس غمِ نَو سال سے آگے
کچھ ٹوٹ رہا تھا، کہیں کچھ پھوٹ رہا تھا
صورت گرئ عالمِ امثال سے آگے
ماضی کو جہنم کی طرح سر پہ اٹھائے
نکلیں تو ہم اس ہاویہء حال سے آگے
اے ماں! ترے بیٹے کہیں گونگے تو نہیں ہیں
ہر لفظ تھے غیر اب، ترے ہر لال سے آگے
انسان کی پستی کی کوئی حد نہ تھی لیکن
اُترا نہ کوئی تال میں پاتال سے آگے
یہ معجزہء حوصلہء دل زدگاں تھا
خالد یہ اڑانیں تھیں پر و بال سے آگے
شاعر: خالد احمد