شاہد شاہنواز
لائبریرین
دیکھتا جاتا ہے تاروں کو برابر ہاتھ میں
لے کے دیوانہ چلا ہے ریت کا گھر ہاتھ میں
شہر میں جتنے بھی آئینے تھے میں لے کر چلا
لوگ نکلے میرے پیچھے لے کے پتھر ہاتھ میں
بھول جاتا ہوں میں سب کچھ ان کا چہرہ دیکھ کر
پھول جب دینا ہو، رہ جاتا ہے اکثر ہاتھ میں
اپنے سر کاندھوں پہ رکھے منتظر ہیں اہلِ دل
حسن والے گھومتے ہیں لے کے خنجر ہاتھ میں
چاہتا ہوں کچھ پرندے میں بنا کر چھوڑ دوں
جیب میں پتھر کے سر ہیں، کانچ کے پر ہاتھ میں
آج تو بڑھتی ہی جاتی ہیں برابر تلخیاں
آج تو کچھ بھی نہیں ہے گھر کے اندر ہاتھ میں
اِ ک مریضِ عشق ہاتھ آتا نہیں شاہدؔ کبھی
اِک مسیحا بھاگتا ہے لے کے نشتر ہاتھ میں
اَب تو شاہدؔ ذہن میں ہے بس خدا کا آسرا
اب نہ رَستہ ہے، نہ منزل ہے، نہ رہبر ہاتھ میں
اول تو اس غزل میں مقطعے دو شامل ہو گئے ہیں، یہ کس حد تک مناسب لگتا ہے؟ ، مزید کوئی ابہام ، زبان و بیان کی غلطی یا فنی طور پر غزل کی خرابیوں کی نشاندہی کی درخواست ہے ۔۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی
لے کے دیوانہ چلا ہے ریت کا گھر ہاتھ میں
شہر میں جتنے بھی آئینے تھے میں لے کر چلا
لوگ نکلے میرے پیچھے لے کے پتھر ہاتھ میں
بھول جاتا ہوں میں سب کچھ ان کا چہرہ دیکھ کر
پھول جب دینا ہو، رہ جاتا ہے اکثر ہاتھ میں
اپنے سر کاندھوں پہ رکھے منتظر ہیں اہلِ دل
حسن والے گھومتے ہیں لے کے خنجر ہاتھ میں
چاہتا ہوں کچھ پرندے میں بنا کر چھوڑ دوں
جیب میں پتھر کے سر ہیں، کانچ کے پر ہاتھ میں
آج تو بڑھتی ہی جاتی ہیں برابر تلخیاں
آج تو کچھ بھی نہیں ہے گھر کے اندر ہاتھ میں
اِ ک مریضِ عشق ہاتھ آتا نہیں شاہدؔ کبھی
اِک مسیحا بھاگتا ہے لے کے نشتر ہاتھ میں
اَب تو شاہدؔ ذہن میں ہے بس خدا کا آسرا
اب نہ رَستہ ہے، نہ منزل ہے، نہ رہبر ہاتھ میں
اول تو اس غزل میں مقطعے دو شامل ہو گئے ہیں، یہ کس حد تک مناسب لگتا ہے؟ ، مزید کوئی ابہام ، زبان و بیان کی غلطی یا فنی طور پر غزل کی خرابیوں کی نشاندہی کی درخواست ہے ۔۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی