دیکھنا کیا تھا، دکھائی دے رہا ہے کیا مجھے - عزیز لکھنوی

حسان خان

لائبریرین
دیکھنا کیا تھا، دکھائی دے رہا ہے کیا مجھے
اب نگاہیں بھی مری دینے لگیں دھوکا مجھے

اے نگاہِ شوق، تو نے کر دیا رسوا مجھے
اُس نے دیکھا اور اُسی انداز سے دیکھا مجھے

موج زن تھا بحرِ ہستی، جب تک آنکھیں بند تھیں
اک سرابِ نیستی تھا، ہوش جب آیا مجھے

یہ ڈرونی قبر کی منزل، یہ جائے تنگ و تار
چھوڑے جاتے ہو کہاں اے دوستو تنہا مجھے

اپنے دامن میں چھپا لے ایک مشتِ خاک کو
کون ہے اے دشتِ غربت پوچھنے والا مجھے

ضبط سے کیا فائدہ، اکسیر بننا چاہیے
ہاں بھڑک اے شعلۂ دل اور جلاتا جا مجھے

واہ ری قسمت کہ محشر بھی نہیں جائے اماں
پھر نظر آیا وہی ہنگامۂ دنیا مجھے

میری بربادی تجلی کی نہیں منت پذیر
وادیِ ایمن ہے خاکِ دل کا ہر ذرّا مجھے

کثرت آرائے مظاہر، اس قدر جوشِ نمود
بندگی کے واسطے کافی تھا اک جلوا مجھے

جب دلِ بے تاب میں تابِ تحمل ہی نہ تھی
حاملِ بارِ امانت کیوں بنایا تھا مجھے

بے کسوں کی قبر پر گزرا جو کوئی راہ رَو
شمعِ کشتہ سے صدا آئی جلاتا جا مجھے

قصۂ عہدِ جوانی پوچھتے کیا ہو عزیز
آ گیا تھا اتفاقاً نیند کا جھونکا مجھے
(عزیز لکھنوی)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب انتخاب ہے ۔۔۔۔
بہت دعائیں

قصۂ عہدِ جوانی پوچھتے کیا ہو عزیز
آ گیا تھا اتفاقاً نیند کا جھونکا مجھے


یہ نیند کتنی مستی بھری ہوتی ہے ۔ کیسے کیسے مست خواب دکھلاتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top