دیکھنے میں ہے کائنات بڑی

عظیم

محفلین
غزل


دیکھنے میں ہے کائنات بڑی
مگر اللہ کی ہے ذات بڑی

ایک پل میں سمیٹ دے سب کچھ
نہیں اس کے لیے یہ بات بڑی

یہ عجب قید ہے کہ ہوں آزاد
پھر بھی رکھتا ہوں احتیاط بڑی

دل کی چوری سے بڑھ کے دنیا میں
ہو بھی سکتی ہے واردات بڑی؟

اب تو مدھم ہیں چاند تارے بھی
دیکھتا تھا حسین رات بڑی

دوڑا آتا ہے تیز موت کا وقت
زندگی! چرخی تُو نہ کات بڑی

کہہ تو دوں میں کہ چاہتا ہوں اسے
منہ یہ چھوٹا ہے اور بات بڑی



*****​
 
Top