ارے بھائی سبھی کچھ قافیہ ہو سکتا ہے۔ اتنا زیادہ پریشان کیوں ہوتے ہو؟
جب یہ طے ہو گیا کہ "چاہت سے بڑی justification نہیں کوئی" تو علمِ قافیہ گیا تیل لینے۔ یوں بھی دیکھو تو نوشی گیلانی، پروین شاکر، اور دیگر علماءِ عصر نے قافیہ کے معاملے میں بہت آزادی سے (کیونکہ ہم آزاد قوم ہیں نا) کام لیا ہے۔
اب ہمیں بھی چاہئے کہ اس آزادی سے کام لیں جیسے پروین شاکر کیا خوب فرماتی ہیں:
کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
ایسی صورت میں اگر مجھ جیسا پینڈو شخص کہہ بھی دے کہ بھئی اس شعر میں تو ایطائے جلی واقع ہوگیا تو اس پینڈو کی کیا اوقات؟
تو بھئی میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جب "اصول" کو "قید" سمجھا جائے تو بغاوت جیت جاتی ہے۔
خیر مدعا یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ سارے الفاظ ہم قافیہ نہیں ہیں۔
مگر استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
محمد یعقوب آسی