رشید حسرت
محفلین
چشم ہی بن جائے پتھر اس قدر دیکھے گا کون
دیکھ لے گا، تجھ سا لیکن ھمسفر دیکھے گا کون
کیوں نہ تنہا بیٹھ کر رو لوں گھڑی دو کے لیئے
اس اندھیری رات میں یہ چشمِ تر دیکھے گا کون
بِک رہا ھو جب سرِ بازار لوگوں کا ضمیر
ایسے لمحے وقعتِ اہلِ ہنر دیکھے گا کون
آ کہ تیری زلف سے خوشبُو سمیٹوں سانس میں
"اب کے رُت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون"
موسموں کی سبز دیوی کے پُجاری سوچ لے
اس ہرے موسم میں تیرا زرد گھر دیکھے گا کون
نام کس کے ہاتھ کی ریکھا پہ لکھا ھے مِرا
چشم سے دل میں اتر کر یہ نگر دیکھے گا کون
بولیاں بلبل کی سننے کو تو سن لیں گے سبھی
کون توڑے گا قفس کو، اور پر دیکھے گا کون
مانتے ہیں ھم نے لکھا خط میں سارا حالِ دل
کھول کر نامہ مگر اے نامہ بر دیکھے گا کون
لوگ دیکھیں گے مرے مُسکاتے چہرے کی طرف
زخم جو حسرتؔ سجا ھے قلب پر، دیکھے گا کون۔
رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔
دیکھ لے گا، تجھ سا لیکن ھمسفر دیکھے گا کون
کیوں نہ تنہا بیٹھ کر رو لوں گھڑی دو کے لیئے
اس اندھیری رات میں یہ چشمِ تر دیکھے گا کون
بِک رہا ھو جب سرِ بازار لوگوں کا ضمیر
ایسے لمحے وقعتِ اہلِ ہنر دیکھے گا کون
آ کہ تیری زلف سے خوشبُو سمیٹوں سانس میں
"اب کے رُت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون"
موسموں کی سبز دیوی کے پُجاری سوچ لے
اس ہرے موسم میں تیرا زرد گھر دیکھے گا کون
نام کس کے ہاتھ کی ریکھا پہ لکھا ھے مِرا
چشم سے دل میں اتر کر یہ نگر دیکھے گا کون
بولیاں بلبل کی سننے کو تو سن لیں گے سبھی
کون توڑے گا قفس کو، اور پر دیکھے گا کون
مانتے ہیں ھم نے لکھا خط میں سارا حالِ دل
کھول کر نامہ مگر اے نامہ بر دیکھے گا کون
لوگ دیکھیں گے مرے مُسکاتے چہرے کی طرف
زخم جو حسرتؔ سجا ھے قلب پر، دیکھے گا کون۔
رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔