فرخ منظور
لائبریرین
دیکھ آئینہ میں عکسِ رخِ جانانہ جدا
میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا
سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال
گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا
آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر
شمع روتی ہے جدا جلتا ہے پروانہ جدا
شرکتِ شیخ و برہمن سے میں نکلا جب سے
کعبہ سونا ہے جدا خالی ہے بتخانہ جُدا
دور میں اپنے الٰہی رہے گا کب تئیں یوں
بادہ شیشے سے جدا شیشے سے پیمانہ جدا
درد کرتا ہے تپِ عشق کی شدت سے مرا
سر جدا، سینہ جدا، قلب جدا، شانہ جدا
جب ہوے ہم ہیں جدا اُس سے تو کچھ کام نہیں
غیر اُس شوخ سے اب ہووے جدا یا نہ جدا
اُس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا
کیا کہوں اپنی مصیبت کا بیاں تجھ سے غرض
جیسے وہ مجھ سے ہوا ہے مرا جانانہ جدا
کارم از عشق رسیدست بجائے مخلص
کہ بمن خویش جدا گر ید و بیگانہ جدا
گوشہ چشم میں بھی مردمِ بد بیں ہیں حسنؔ
واسطے اس کے بنا دل میں نہاں خانہ جدا
(میر حسنؔ)
میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا
سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال
گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا
آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر
شمع روتی ہے جدا جلتا ہے پروانہ جدا
شرکتِ شیخ و برہمن سے میں نکلا جب سے
کعبہ سونا ہے جدا خالی ہے بتخانہ جُدا
دور میں اپنے الٰہی رہے گا کب تئیں یوں
بادہ شیشے سے جدا شیشے سے پیمانہ جدا
درد کرتا ہے تپِ عشق کی شدت سے مرا
سر جدا، سینہ جدا، قلب جدا، شانہ جدا
جب ہوے ہم ہیں جدا اُس سے تو کچھ کام نہیں
غیر اُس شوخ سے اب ہووے جدا یا نہ جدا
اُس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا
کیا کہوں اپنی مصیبت کا بیاں تجھ سے غرض
جیسے وہ مجھ سے ہوا ہے مرا جانانہ جدا
کارم از عشق رسیدست بجائے مخلص
کہ بمن خویش جدا گر ید و بیگانہ جدا
گوشہ چشم میں بھی مردمِ بد بیں ہیں حسنؔ
واسطے اس کے بنا دل میں نہاں خانہ جدا
(میر حسنؔ)