دیکھ تو لو۔

رشید حسرت

محفلین
دیکھ تو لو۔





تُمہارے بعد کے حالات اِدھر کے دیکھ تو لو

ذرا گہرائیوں میں تم اُتر کے دیکھ تو لو

تُمہیں دِل کو سجانے کا ھُنر آتا تو ھوگا
یہ کُچھ بِکھرے ہُوئے اسباب گھر کے دیکھ تو لو

نہیں کہ تُم سے دولت کا تقاضہ کر لیا ھے
یہی کہ مُعجزے شعر و ہنر کے دیکھ تو لو

کہِیں پہ خُود کو رکھ کے بُھول بیٹھا ہوں میں یارو
کہ سودے ہو گئے لاحق جو سر کے دیکھ تو لو

بِچھڑ جانا ہمارا عُمر بھر کا طے ہے لیکن
تسلّی کے لیئے بس آنکھ بھر کے دیکھ تو لو

نہ ہو گا عُمر بھر اِس کا تدارُک دوست پیارے
ہمارے نقش دِل سے دُور کر کے دیکھ تو لو

یہاں سے قافلے گُزرے بہاروں کے ولیکن
بمثلِ دُھول راہوں میں بِکھر کے دیکھ تو لو

کسی نے رات خوابوں کو مہک دی بے وجہ سی
کہا مِصرعے میں کوئی رنگ بھر کے دیکھ تو لو

یہاں پہ راج مُدّت سے اندھیروں کا ہے بھائی
رشِیدؔ انصاف کی اُمید کر کے دیکھ تو لو۔


رشید حسرتؔ۔
 
Top