امین شارق
محفلین
خدائے سُخن میر تقی میرکی اک غزل کی زمین میں ایک غزل کہنے کی سعی کی ہے آج اگر میر صاحب ہوتے تو بہت زیادہ ڈانٹ پڑنے والی تھی ہمیں
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے
پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے
اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے
عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے
یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے
وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے
جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے
یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے
یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے
رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے
ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے
خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے
چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے
ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے
پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے
اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے
عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے
یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے
وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے
جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے
یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے
یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے
رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے
ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے
خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے
چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے
ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے
شاعری بھاری ذمہ ہے شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے