دیکھ ہم کیسی مسافت کے حوالے ہوئے ہیں۔۔ برائے اصلاح

ایم اے راجا

محفلین
بہت دنوں بعد حاضری ہوئی ہے محفل میں جناب عرفان صدیقی صاحب کی زمین میں کہی ہوئی ایک غزل کیساتھ۔
دیکھ ہم کیسی مسافت کے حوالے ہوئے ہیں
تشنگی لب پہ ہے اور پائوں میں چھالے ہوئے ہیں
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا میں نے
تب کہیں جا کے مرے گھر میں اجالے ہوئے ہیں
بوجھ اٹھتا ہے کہاں اوروں کا طوفانوں میں
یہ بڑی بات ہے ہم خود کو سنبھالے ہوئے ہیں
کر دیا عشق نے کچھ ایسا نکما ہم کو
آج کے کام بھی کل پرسوں پہ ٹالے ہوئے ہیں
ہم ہیں بادل سو برستے ہی رہیں گے راجا
جو تھے دریا وہ سمندر کے نوالے ہوئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
واہ راجا، اب کافی نکھار آ رہا ہے ماشاء اللہ۔ بس اس شعر کو ذرا ایک بار اور دیکھو۔ ویسے کوئی غلطی تو نہیں ہے۔
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا میں نے​
تب کہیں جا کے مرے گھر میں اجالے ہوئے ہیں​
پوری غزل میں واحد متکلم یا جمع متکلم کے لئے ’ہم‘ کا صیغہ ہے، یہاں ’میں‘ نہیں بدلا جا سکتا کیا؟ مثلإًٕ۔ اگرچہ ’صورت تو‘ میں سقم ہے۔​
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا ہم نے​
اپنے گھر میں کسی صورت تو اجالے ہوئے ہیں​
دوسرے مصرعے کی کوئی بہتر شکل بھی سوچو۔​
 

ایم اے راجا

محفلین
واہ راجا، اب کافی نکھار آ رہا ہے ماشاء اللہ۔ بس اس شعر کو ذرا ایک بار اور دیکھو۔ ویسے کوئی غلطی تو نہیں ہے۔
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا میں نے​
تب کہیں جا کے مرے گھر میں اجالے ہوئے ہیں​
پوری غزل میں واحد متکلم یا جمع متکلم کے لئے ’ہم‘ کا صیغہ ہے، یہاں ’میں‘ نہیں بدلا جا سکتا کیا؟ مثلإًٕ۔ اگرچہ ’صورت تو‘ میں سقم ہے۔​
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا ہم نے​
اپنے گھر میں کسی صورت تو اجالے ہوئے ہیں​
دوسرے مصرعے کی کوئی بہتر شکل بھی سوچو۔
بہت شکریہ بہت خوشی ہوئی سر، یہ سب اللہ کا کرم ہے اور آپ اساتذہ کی مہربانی و محنت ہے۔

سر میں نے اس شعر پر کافی غور کیا، میں اسے واحدمتکلم ہی رکھنا چاہتا ہوں، اگرچہ میں پہلے مصرعہ کے آخر میں " میں نے" کے بجائے " ہم نے " لانا چاہا رہا تھا مگر کوئی ووسرا مصرعہ موجودہ دوسرے مصرع کی جگہ معنی کے لحاظ سے فٹ نہیں بیٹھ رہا، بحر حال کوشش کرتا ہوں اپنی سی دوبارہ انشا اللہ اگر آپ اسے بالکل درست نہیں سمجھتے تو۔

سر ایک عرض ہے کہ، ایک دوست نے مطلع کے مصرع ثانی پر اعتراض اٹھایا ہے کہ " چھالے پاؤں میں پڑتے ہیں، چھالے پاؤں میں ہوتے نہیں ہیں سو " پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں " درست نہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور یوں کہنے میں کچھ مذائقہ نہیں، برائے کرم اس پر اپنی رائے دیجیئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
چھالوں کے بارے میں تمہاری بات درست ہے۔ کم از کم ہم تو چھالوں کے لئے ’ہونا‘ فعل بھی استعمال کرتے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا میں نے
تب کہیں جا کے مرے گھر میں اجالے ہوئے ہیں

سر اگر مندرجہ بالا شعر یوں کہا جائے تو ؟
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا ہم نے
تب کہیں جا کے اندھیروں میں اجالے ہوئے ہیں
 

آبی ٹوکول

محفلین
تمام کہ تمام اشعار اپنی جگہ بہت خوب ہیں راجا بھائی باقی حضرت استاد مکرم کی بات سے میں بھی متفق ہوں کہ تمام اشعار میں صیغہ جمع متکلم ہے جبکہ ایک اکیلے شعر میں واحد متکلم کا تھا جو کہ سچی بات ہے پہلی بار ہی میں پڑھتے ہوئے مجھے بھی کھٹکا بحرحال اب آپ نے آخر میں جو شعر دیا ہے وہ موزوں تر معلوم ہوتا ہے تمام اشعار کہ ساتھ والسلام
 

ایم اے راجا

محفلین
تمام کہ تمام اشعار اپنی جگہ بہت خوب ہیں راجا بھائی باقی حضرت استاد مکرم کی بات سے میں بھی متفق ہوں کہ تمام اشعار میں صیغہ جمع متکلم ہے جبکہ ایک اکیلے شعر میں واحد متکلم کا تھا جو کہ سچی بات ہے پہلی بار ہی میں پڑھتے ہوئے مجھے بھی کھٹکا بحرحال اب آپ نے آخر میں جو شعر دیا ہے وہ موزوں تر معلوم ہوتا ہے تمام اشعار کہ ساتھ والسلام
بہت ممنون ہو آپکی محبت کے لیئے
 

ایم اے راجا

محفلین
بعد از اصلاح
دیکھ ہم کیسی مسافت کے حوالے ہوئے ہیں
تشنگی لب پہ ہے اور پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں
خونِ دل اپنا چراغوں میں جلایا ہم نے
تب کہیں جا کے اندھیروں میں اجالے ہوئے ہیں
بوجھ اٹھتا ہے کہاں اوروں کا طوفانوں میں
یہ بڑی بات ہے ہم خود کو سنبھالے ہوئے ہیں
کر دیا عشق نے کچھ ایسا نکما ہم کو
آج کے کام بھی کل پرسوں پہ ٹالے ہوئے ہیں
ہم ہیں بادل سو برستے ہی رہیں گے راجا
جو تھے دریا وہ سمندر کے نوالے ہوئے ہیں
 
Top