نویدظفرکیانی
محفلین
دے کے شامت کو صدا عقد کی زنجیر میں آ
زندگی بھر کے لئے دہشتِ کفگیر میں آ
حُسن کو گرمئی اخلاص کی حاجت ہے بہت
اپنے ملتان کو لے کر مرے کشمیر میں آ
تجھ سے کچھ اور تقاضہ نہیں ہرگز میرا
تُو مرے ساتھ مرے کنبے کی تصویر میں آ
عشق کی یونہی تو مت ماری نہیں جاتی ہے
کوئے لیلٰی میں کبھی گھوم ٗ درِ ہیر میں آ
دن میں سورج سے چھپا منہ کسی عورت کی طرح
لوڈ شیڈنگ ہو تو پھر نالہء شبگیر میں آ
کوئی اِس دور میں آرام سے بیٹھے کیوں کر
لے پلاٹ اورذرا حسرتِ تعمیر میں آ
تُو جو بھیا ہے تو پھر پان کی گُلگاری کر
خان بھائی ہے تو نسوار کی تشہیر میں آ
تیری قسمت نے ترے بارہ بجا ڈالے ہیں
شادی دفتر کے کسی نسخہء اکسیر میں آ
بھُوت ہے اُس کی محبت کا سو بے چین ہی رہ
کبھی عرفان میں گھس جا کبھی تنویر میں آ
میں ہوں کب سے ترے آٹے میں نمک کی صورت
میوہ بن کر کبھی تُو بھی تو مری کھیر میں آ
اِن کو تجھ جیسے شہیدوں کی ضرورت ہو گی
شیخ الاسلام کی تپتی ہوئی تقریر میں آ
لیڈرِ قوم کی ہر چال سمجھ جائے گا
شہرِ خُوباں کو نکل ٗ زلفِ گرہ گیر میں آ
بے حجابانہ تجھے پھونک لے چورن کی طرح
اِس حماقت سے نہ حیلہ گرئ پیر میں آ
تیرا گُڈا بھی بنادوں گا ظفر ٗ بس تو چلے
آئینہ خانے میں چل حیطہء تحریر میں آ
نوید ظفر کیانی
زندگی بھر کے لئے دہشتِ کفگیر میں آ
حُسن کو گرمئی اخلاص کی حاجت ہے بہت
اپنے ملتان کو لے کر مرے کشمیر میں آ
تجھ سے کچھ اور تقاضہ نہیں ہرگز میرا
تُو مرے ساتھ مرے کنبے کی تصویر میں آ
عشق کی یونہی تو مت ماری نہیں جاتی ہے
کوئے لیلٰی میں کبھی گھوم ٗ درِ ہیر میں آ
دن میں سورج سے چھپا منہ کسی عورت کی طرح
لوڈ شیڈنگ ہو تو پھر نالہء شبگیر میں آ
کوئی اِس دور میں آرام سے بیٹھے کیوں کر
لے پلاٹ اورذرا حسرتِ تعمیر میں آ
تُو جو بھیا ہے تو پھر پان کی گُلگاری کر
خان بھائی ہے تو نسوار کی تشہیر میں آ
تیری قسمت نے ترے بارہ بجا ڈالے ہیں
شادی دفتر کے کسی نسخہء اکسیر میں آ
بھُوت ہے اُس کی محبت کا سو بے چین ہی رہ
کبھی عرفان میں گھس جا کبھی تنویر میں آ
میں ہوں کب سے ترے آٹے میں نمک کی صورت
میوہ بن کر کبھی تُو بھی تو مری کھیر میں آ
اِن کو تجھ جیسے شہیدوں کی ضرورت ہو گی
شیخ الاسلام کی تپتی ہوئی تقریر میں آ
لیڈرِ قوم کی ہر چال سمجھ جائے گا
شہرِ خُوباں کو نکل ٗ زلفِ گرہ گیر میں آ
بے حجابانہ تجھے پھونک لے چورن کی طرح
اِس حماقت سے نہ حیلہ گرئ پیر میں آ
تیرا گُڈا بھی بنادوں گا ظفر ٗ بس تو چلے
آئینہ خانے میں چل حیطہء تحریر میں آ
نوید ظفر کیانی