ذائقہ کڑوا لگا

anwarjamal

محفلین
اک مسلسل تشنگی کا ذائقہ کڑوا لگا

مجھ کو اپنی زندگی کا ذائقہ کڑوا لگا

مصلحت کی میز پر جتنے بھی کھانے کھائے تھے

مجھ کو ان میں سے سبھی کا ذائقہ کڑوا لگا

میں نے بھی مانا کہ اب وہ بات گاؤں میں نہیں

جب مجھے بھی دیسی گھی کا ذائقہ کڑوا لگا

عشق تھا پہلے پہل خوش ذائقہ اے چارہ گر

بعد میں دیوانگی کا ذائقہ کڑوا لگا

دوستوں کو آزمانا بیوقوفی تھی مری

کیونکہ پھر ہر دوستی کا ذائقہ کڑوا لگا

دل کو شہرت کی چمک اچھی لگی انور ، مگر

آنکھ کو اس روشنی کا ذائقہ کڑوا لگا

انور جمال انور
 

پپو

محفلین
دل کو شہرت کی چمک اچھی لگی انور ، مگر​
آنکھ کو اس روشنی کا ذائقہ کڑوا لگا​
 
واہ بسمل بھائی ،، بہت باریک بین ہیں آپ ،،،، خوش رہیں ،،میں نے پہلے غور نہیں کیا تھا ،،،

استادوں میں رہنے کا اثر ہے جناب۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔
ویسے طارق شاہ صاحب دیکھیں کیا کہتے ہیں اس ایطا کے بارے میں۔ آیا کہ ان کے مطابق بھی ایطا ہے یا نہیں۔ انکی ذرا زیادہ گہری نظر ہے قوافی پر۔
 

طارق شاہ

محفلین
اک مسلسل تشنگی کا ذائقہ کڑوا لگا
مجھ کو اپنی زندگی کا ذائقہ کڑوا لگا

مطلع میں عیب ایطاء نہیں بلکہ یہ پابند قافیہ کے زمرے میں آتا ہے
مطلع صحیح ہے، لیکن بقیہ اشعار کے قوافی میں اس پابندی کا خیال نہیں رکھا گیا ، اس لئے
بقیہ اشعار میں قوافی غلط ہوئے ، اگر ایک اور مطلع جو ' گی ' کا پابند نہ ہو لایا جائے، یعنی
اگر موجودہ مطلع کو حُسنِ مطلع ( مطلعِ ثانی ) کردیا جائےتو پوری غزل درست ہو جائے گی


مثال کے طور پر جناب عبدالحمیدعدم صاحب کی پابند نظم کا مطلع اور حُسنِ مطلع دیکھیں :

قلندر غزل اپنی گاتا ہُوا
پیامِ محبت سُناتا ہُوا
سفر کی صعوبت پہ ہنستا ہوا
حوادث کی قوت پہ ہنستا ہوا
ازل کی طرح مُسکراتا ہوا
ابد کی طرح لہلہاتا ہوا
دِلوں میں اُمنگیں بساتا ہوا
ارادوں میں حِدّت رچاتا ہوا
سعادت کی راہیں دِکھاتا ہوا
خودی کی سبِیلیں لگاتا ہوا
جوانوں کو بیدار کرتا ہوا
غلاموں کو خود دار کرتا ہوا
حجابات کے حُسن میں کھو گیا
ستارا چناروں میں گم ہو گیا
۔۔۔۔۔۔​
یا تو اسی مطلع کی پابندی ختم کی جائے (اس مطلع کے کسی ایک مصرع میں گی کا متبادل لایا جائے )
 
اک مسلسل تشنگی کا ذائقہ کڑوا لگا
مجھ کو اپنی زندگی کا ذائقہ کڑوا لگا
تشنگی اور زندگی ہی کی بات ہو رہی ہے۔


مطلع میں عیب ایطاء نہیں بلکہ یہ پابند قافیہ کے زمرے میں آتا ہے
مطلع صحیح ہے، لیکن بقیہ اشعار کے قوافی میں اس پابندی کا خیال نہیں رکھا گیا ، اس لئے
بقیہ اشعار میں قوافی غلط ہوئے ، اگر ایک اور مطلع جو ' گی ' کا پابند نہ ہو لایا جائے،

مطلع صحیح ہے سے مراد اگر یہ ایک ہی شعر کے طور پردیکھا جائے تو بالکل معیوب نہ ہوگا؟
حضور آپ تشنگی اور زندگی میں حرفِ روی بتائیں تو کیا بات ہو۔۔۔۔ :)
مگر یہ سوال تو پہلے بھی کہیں کر چکا ہوں جسے آپ نے اہمیت دینا گوارا نہیں کیا۔
چلیں میں ہی بتاتا ہوں:
تشنگی میں ”نون“ اور ”زندگی میں ”دال“ روی ہے۔ اور دو الگ الگ روی کو قافیہ نہیں کیا جاسکتا۔
اور اگر ”گی “ کو قافیہ کرتے ہیں تو یہ یقیناً ایطا ہے۔ کیونکہ ایطا کی مختصر ترین تعریف:
”زوائد کو قافیہ کرنا“
اسی لحاظ سے زندگی اور تشنگی دونوں میں ”گی“ حروفِ زائد ہیں جن میں ”گاف“ حرفِ وصل۔ اور ”ی“ خروج ہے۔ :)
اسی لئے آپ کا مطلعے کو صحیح کہنا قطعاً درست نہیں کہ آپ نے زوائد کو قافیہ ٹھہرا کر اسے صحیح قرار دیا جبکہ اگر ان زوائد کو نکال دیا جائے تو بچے گا ”زندہ“ اور ”تشنہ“
یاد رہے کے آخری ”ہ“ کا کوئی حقیقی وجود نہیں کیونکہ یہ ہائے مختفی ہے جو صرف حرکت واضح کرتی ہے۔
ابھی آپ فقط سہل حدائق البلاغت بھی کھول کر دیکھ لیجئے گو کہ میں اسے کوئی مستند کتاب نہیں مانتا مگر وہاں بھی حرف قافیہ کے بیان میں انہوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ایک قافیہ حرف روی کے ساتھ ہو اور دوسرا حرف زائد کو روی بنایا جائے تو درست ہے۔ مگر دونوں حرف زائد ہوں تو ایطا ہوتا ہے۔ مثال میں انہوں نے ”دین“ اور ”زرین“ کو کہا کہ دین مکمل اصلی حروف پر ہے مگر زرین میں صرف ”زر“ اصل باقی زائد۔
اور عدم صاحب کی جس مثال کو آپ نے پیش کیا اگر اسے غزل میں لائیں تو غلط ہونگے سارے قوافی۔
کیونکہ سب قوافی الگ الگ ہیں۔ تو اس مثال کا یہاں کوئی تک نہیں بنتا۔

فاتح بھائی اور محمد وارث بھائی سے بھی گزارش ہے کہ اپنی معلومات کے خزانے میں سے ہمیں فیضیاب کریں تو کیا ہی بات ہو۔ :)
 

anwarjamal

محفلین
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ھو ،،،

لیکن بہت اچھا عروض دان بہت اچھا شاعر نہیں بن سکتا ،،، نقاد تو بن سکتا ھے ،،
 

طارق شاہ

محفلین
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ھو ،،،

لیکن بہت اچھا عروض دان بہت اچھا شاعر نہیں بن سکتا ،،، نقاد تو بن سکتا ھے ،،

مولانا حسرت موہانی
مرزا یاس یگانہ صاحب
علامہ سیماب اکبرآبادی

بالا استاد شعراء ، صرف ماہرِ شاعری ہی نہیں تھے ، بلکہ غضب کے عروض داں بھی تھے:)
اس بابت ان کی کتابیں درجۂ سند رکھتی ہیں

بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں
 

anwarjamal

محفلین
غضب کے عروض داں ہوں گے ،،، غضب کے شاعر نہیں تھے ،،، کسی عام بندے سے پوچھیں سیماب اکبر آبادی کے بارے میں ،،،، وہ سوچ میں پڑ جائے گا ،،

یا آپ ان تینوں میں سے کسی کے صرف دس غضب کے شعر سنا دیں ،،

میں غالب کے بیس شعر سنا دیتا ہوں ،،
 
اک مسلسل تشنگی کا ذائقہ کڑوا لگا

مجھ کو اپنی زندگی کا ذائقہ کڑوا لگا

مصلحت کی میز پر جتنے بھی کھانے کھائے تھے

مجھ کو ان میں سے سبھی کا ذائقہ کڑوا لگا

میں نے بھی مانا کہ اب وہ بات گاؤں میں نہیں

جب مجھے بھی دیسی گھی کا ذائقہ کڑوا لگا

عشق تھا پہلے پہل خوش ذائقہ اے چارہ گر

بعد میں دیوانگی کا ذائقہ کڑوا لگا

دوستوں کو آزمانا بیوقوفی تھی مری

کیونکہ پھر ہر دوستی کا ذائقہ کڑوا لگا

دل کو شہرت کی چمک اچھی لگی انور ، مگر

آنکھ کو اس روشنی کا ذائقہ کڑوا لگا

انور جمال انور

اردو ویب پر انور جمال انور کی غزل پڑھ کر
شاعری کا ذائقہ کڑوا لگا ، اچھا لگا ، کڑوا لگا
 
Top