کاشفی
محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
تیز تر چلتے ہیں وہ تلوار سے
گالیاں دے کر نکالا بزم سے
لو وظیفہ مل گیا سرکار سے
قیمتِ دل تو کہاں گر مفت دوں
تو بھی وہ لیتے ہیں سَو تکرار سے
اپنے شکوہ میں نہ کھلواؤ زباں
خوں ٹپکتا ہے لبِ اظہار سے
لن ترانی کچھ نہیں نفی ابد
چھیڑ ہے اک طالبِ دیدار سے
آرزوئے قتل میں مرنا پڑا
رہ گیا شکوہ تری تلوار سے
چین سے وہ لوگ کرتے ہیں بسر
جو الگ ہیں کافر و دیندار سے
ہے یہی عاشق فریبی کی ادا
آنکھ اُٹھا کر دیکھ لینا پیار سے
ضد ہے یہ صیّاد کو میرا قفس
پھیر لاتا ہے درِ گلزار سے
آؤ اور مجروح کی دیکھو غزل
شوق تم کو ہے اگر اشعار سے
(میر مہدی مجروح)
ذبح کر ڈالا مجھے رفتار سے
تیز تر چلتے ہیں وہ تلوار سے
گالیاں دے کر نکالا بزم سے
لو وظیفہ مل گیا سرکار سے
قیمتِ دل تو کہاں گر مفت دوں
تو بھی وہ لیتے ہیں سَو تکرار سے
اپنے شکوہ میں نہ کھلواؤ زباں
خوں ٹپکتا ہے لبِ اظہار سے
لن ترانی کچھ نہیں نفی ابد
چھیڑ ہے اک طالبِ دیدار سے
آرزوئے قتل میں مرنا پڑا
رہ گیا شکوہ تری تلوار سے
چین سے وہ لوگ کرتے ہیں بسر
جو الگ ہیں کافر و دیندار سے
ہے یہی عاشق فریبی کی ادا
آنکھ اُٹھا کر دیکھ لینا پیار سے
ضد ہے یہ صیّاد کو میرا قفس
پھیر لاتا ہے درِ گلزار سے
آؤ اور مجروح کی دیکھو غزل
شوق تم کو ہے اگر اشعار سے