سحرش سحر
محفلین
زندگی میں ہم مختلف قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں ۔ مختلف رویوں ، مختلف مزاج، مختلف سوچ، مختلف ترجیحات اور مختلف اخلاق کے حامل لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہیں ۔
ان میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ملنے کے بعد باربار ان سے ملنے کو جی مچلتا ہے ۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے کے لیے دل بے قرار رہتا ہے ۔ ان کی باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں ۔ ان کے الفاظ میں غضب کا اثر ہوتا ہے ۔
ایسے لوگ، اصل میں زندگی کے قریب ہوتے ہیں ۔ وہ زندگی کو بوجھ نہیں سمجھتے ۔ وہ زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھتے ہیں ۔ جیسے تیسے کر کے زندگی کی بند گلی میں راستہ نکالنا جانتے ہیں ۔ انھیں زندگی بوجھ نہیں لگتی بلکہ ایک مقدس امانت کے طور پر بڑے پیار سے سنبھا لے لیے پھرتے ہیں،گود میں کسی پیارے سے بچہ کی طرح ۔
ان سے مل کر زندگی جینے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔ جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ بہت پیارے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ زندگی کے قدردان ہوتے ہیں ۔ اس کی قدروقیمت سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اعلی جمالیاتی ذوق کے مالک ہوتے ہیں ۔
اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جو زندگی کو بوجھ سجھتے ہیں بلکہ جن کو شاید زندگی بوجھ سمجھتی ہوگی ۔ کیونکہ ایسے لوگ زندگی کی تذلیل ' اس کی رسوائی کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کا بس چلے تو زندگی کو کٹھہرا میں کھڑا کروا کر اس کے ڈھائے ہوئے خود ساختہ ظلم وستم کو، کنویں کے مینڈک نما قسم کے، یاسیت کے شکار گواہوں کی موجودگی میں، صحیح ثابت کر کے، اس سے اعتراف جرم کروا کر، پھانسی پر چڑھا لیں ۔ اور پھر اس کے مرقد پر بیٹھ کر افسوس کرتے رہیں کہ اب وہ اپنی نالائقی و بے عملی کا سزاوار کس کو ٹھہرایئں ۔ اس قسم کے لوگ بے عمل، بزدل اور کم ہمت ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ زندگی کی کھلی شاہراہ پراپنے سامنے کچھ خود ساختہ خدشوں اور مجبوریوں کے ان دیکھے بڑے بڑے پہاڑوں سے سہمے ہوئے مایوس کھڑےے رہتے ہیں ۔ نہ خود آگے بڑھتے ہیں نہ ہی آگے بڑھنے والے با ہمت، منزلوں کے متلاشی کو آگے کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بلکہ ان کو بھی زندگی کی مختلف آزمائشوں کی بھول بھلیوں میں الجھا کر اپنی منزل سے دور کر دیتے ہیں ۔ ان سے مل کر بندہ
مایوسی اور نا امیدی جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور انہی میں سے بعض وہ دنیا پرست بھی شامل ہیں جو صرف پیسوں کے جوڑ توڑ سےہی واقف ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس بیٹھنے سےبھی انسان کو مایوسی اور درد سر کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ ان سے زندگی کے تمام رنگ نوٹوں کے پردے کے پیچھے چھپےہوتے ہیں ۔ ان کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے "ہم سے نہ ملا کر "
ایسے لوگ بہت سڑیل مزاج ہوتے ہیں ۔ ایسوں سے بچ کے رہنا چاہیے ۔
بے شک زندگی آزمائشوں، تکالیف،پریشانیوں، مصیبتوں، محرومیوں کا ہی تانا بانا ہے پر اس تانے بانے کو زندگی کے پنجرہ کاتانا باناتصور نہ کیا جائے ۔ ان سے ڈر کر زندگی کے آگے ہتھیا ر ڈالنا اور اس سے بچاؤ کے لیے موت کے کنویں میں قبل از وقت پناہ لینا عقلمندی نہیں ۔
زندگی گزار نے والوں سے تو قدم قدم پر مڈ بھیڑ ہوتی ہی رہتی ہےالبتہ زندگی جینے والوں اور زندگی جینے کے گر سکھانے والوں سے ملنے کے مواقع تلاشنے چاہیے ۔ یہ لوگ بہت کم ہیں ۔ ایسوں سے ملنے سے زندگی کی گاڑی میں امید کا ایندھن ڈلتا ہے ۔ اور گاڑی چلانے کے لیے ایندھن ضروری ہے ۔ ڈالتے رہنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ملنے کے بعد باربار ان سے ملنے کو جی مچلتا ہے ۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے کے لیے دل بے قرار رہتا ہے ۔ ان کی باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں ۔ ان کے الفاظ میں غضب کا اثر ہوتا ہے ۔
ایسے لوگ، اصل میں زندگی کے قریب ہوتے ہیں ۔ وہ زندگی کو بوجھ نہیں سمجھتے ۔ وہ زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھتے ہیں ۔ جیسے تیسے کر کے زندگی کی بند گلی میں راستہ نکالنا جانتے ہیں ۔ انھیں زندگی بوجھ نہیں لگتی بلکہ ایک مقدس امانت کے طور پر بڑے پیار سے سنبھا لے لیے پھرتے ہیں،گود میں کسی پیارے سے بچہ کی طرح ۔
ان سے مل کر زندگی جینے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔ جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ بہت پیارے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ زندگی کے قدردان ہوتے ہیں ۔ اس کی قدروقیمت سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اعلی جمالیاتی ذوق کے مالک ہوتے ہیں ۔
اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جو زندگی کو بوجھ سجھتے ہیں بلکہ جن کو شاید زندگی بوجھ سمجھتی ہوگی ۔ کیونکہ ایسے لوگ زندگی کی تذلیل ' اس کی رسوائی کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کا بس چلے تو زندگی کو کٹھہرا میں کھڑا کروا کر اس کے ڈھائے ہوئے خود ساختہ ظلم وستم کو، کنویں کے مینڈک نما قسم کے، یاسیت کے شکار گواہوں کی موجودگی میں، صحیح ثابت کر کے، اس سے اعتراف جرم کروا کر، پھانسی پر چڑھا لیں ۔ اور پھر اس کے مرقد پر بیٹھ کر افسوس کرتے رہیں کہ اب وہ اپنی نالائقی و بے عملی کا سزاوار کس کو ٹھہرایئں ۔ اس قسم کے لوگ بے عمل، بزدل اور کم ہمت ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ زندگی کی کھلی شاہراہ پراپنے سامنے کچھ خود ساختہ خدشوں اور مجبوریوں کے ان دیکھے بڑے بڑے پہاڑوں سے سہمے ہوئے مایوس کھڑےے رہتے ہیں ۔ نہ خود آگے بڑھتے ہیں نہ ہی آگے بڑھنے والے با ہمت، منزلوں کے متلاشی کو آگے کا راستہ بتاتے ہیں ۔ بلکہ ان کو بھی زندگی کی مختلف آزمائشوں کی بھول بھلیوں میں الجھا کر اپنی منزل سے دور کر دیتے ہیں ۔ ان سے مل کر بندہ
مایوسی اور نا امیدی جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور انہی میں سے بعض وہ دنیا پرست بھی شامل ہیں جو صرف پیسوں کے جوڑ توڑ سےہی واقف ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس بیٹھنے سےبھی انسان کو مایوسی اور درد سر کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ ان سے زندگی کے تمام رنگ نوٹوں کے پردے کے پیچھے چھپےہوتے ہیں ۔ ان کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے "ہم سے نہ ملا کر "
ایسے لوگ بہت سڑیل مزاج ہوتے ہیں ۔ ایسوں سے بچ کے رہنا چاہیے ۔
بے شک زندگی آزمائشوں، تکالیف،پریشانیوں، مصیبتوں، محرومیوں کا ہی تانا بانا ہے پر اس تانے بانے کو زندگی کے پنجرہ کاتانا باناتصور نہ کیا جائے ۔ ان سے ڈر کر زندگی کے آگے ہتھیا ر ڈالنا اور اس سے بچاؤ کے لیے موت کے کنویں میں قبل از وقت پناہ لینا عقلمندی نہیں ۔
زندگی گزار نے والوں سے تو قدم قدم پر مڈ بھیڑ ہوتی ہی رہتی ہےالبتہ زندگی جینے والوں اور زندگی جینے کے گر سکھانے والوں سے ملنے کے مواقع تلاشنے چاہیے ۔ یہ لوگ بہت کم ہیں ۔ ایسوں سے ملنے سے زندگی کی گاڑی میں امید کا ایندھن ڈلتا ہے ۔ اور گاڑی چلانے کے لیے ایندھن ضروری ہے ۔ ڈالتے رہنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔