ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

عاطف بٹ

محفلین
10 ستمبر 2013ء کی بات ہے۔ ہم بعد از دوپہر کسی کام سے پریس کلب جانے کے لئے گھر سے نکلے تو رستے میں نہر کے پل والے اشارے پر پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ ایک بزرگ گدھا گاڑی لیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے گدھا گاڑی پر لکڑیوں کے گٹھے لاد رکھے تھے جو رسی کے کھلنے کی وجہ سے زمین پر گر پڑے تھے۔ لوگ قریب سے گزر رہے تھے مگر کوئی مدد کے لئے رکا نہیں۔ پہلے تو ہم بھی ان کے قریب سے گزر گئے مگر چند قدم ہی آگے گئے تھے کہ ضمیر نے لعنت ملامت شروع کردی کہ ایک بزرگ کو مدد درکار ہے اور تم ہو کہ دیکھتے بھالتے یوں انجان بن کر چلے پڑے ہو۔ اس احساس کا پیدا ہونا تھا کہ ہم نے موٹرسائیکل کا رخ موڑا اور چند ہی ثانیوں میں ان بزرگ کی مدد کرنے کے لئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ ہم جا کر موٹرسائیکل کھڑی کر کے ابھی ان بزرگ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک نجی کالج کے وردی میں ملبوس سات آٹھ طلبہ بھی ہاتھ بٹانے کے لئے آگئے۔ یہ سب دیکھ کر قریب سے گزرتا ہوا ایک نوجوان بھی اپنی موٹرسائیکل ایک طرف کھڑی کر کے اس عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہوگیا۔
لکڑیاں بہت بھاری تھیں اور ہم دو دو افراد مل کر ایک ایک گٹھے کو اٹھا رہے تھے۔ کچھ ہی منٹوں میں وہ سب لکڑیاں دوبارہ گدھا گاڑی پر لاد دی گئیں اور پھر رسی اس احتیاط کے ساتھ باندھی گئی کہ ان بزرگ کو اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے دوبارہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
٭٭٭٭٭​
اسی طرح چند روز پہلے ہم نے ایک سڑک پر گزرتے ہوئے ایک رکشہ دیکھا جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا کہ یہ رکشہ فلاں فلاں علاقے میں رات 12 بجے سے صبح 5 بجے تک ایمبولینس کے طور پر مفت دستیاب ہے۔ نیچے ڈرائیور کا نام اور فون نمبر درج تھا۔
٭٭٭٭٭​
کہنے کو تو یہ دونوں باتیں انتہائی معمولی سی ہیں اور اس طرح کے کئی واقعات آپ نے بھی اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھے ہوں گے مگر ہم ان باتوں کو محض معمولی باتیں نہیں سمجھتے بلکہ ان کو معاشرتی بےحسی کی راکھ میں چھپی ہوئی حساس چنگاریوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور ملک کے بارے میں اکثر منفی باتوں کو ہی فروغ دیا جاتا اور ذرائع ابلاغ میں تو خاص طور پر چن چن کر ایسے واقعات کی تشہیر کی جاتی ہے جن سے ملک کی بدنامی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئے روز ہونے والے چشم کشا انکشافات کے باعث اب عام آدمی بھی اس بات سے بہت حد تک واقف ہوچکا ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسا کس کے اشارے پر اور کیوں کرتے ہیں۔
اوپر بیان کی جانے والی دونوں باتوں میں جو چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ جذبۂ ایثار اور انسانی ہمدردی ہے۔ ہم اور ہمارے ساتھ ان بزرگ کا ہاتھ بٹانے والے نوجوان اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ہم جس کی مدد کررہے ہیں اس کی نسل، مذہب یا عقیدہ کیا ہے اور نہ ہی اس رکشہ ڈرائیور کو اس بات سے کوئی سروکار ہے کہ اس سے رات گئے مدد مانگنے والا کس رنگ و نسل و مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ دونوں باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے لوگ جذبات و احساسات سے ابھی پوری طرح عاری نہیں ہوئے اور ان کے دلوں میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لئے اعانت اور قربانی کے بنیادی جذبے ابھی کسی حد تک باقی ہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ اگر ان جذبات و احساسات کو ٹھیک طرح سے استعمال کرتے ہوئے کوئی باقاعدہ صورت دیدی جائے تو یہی لوگ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت بنانے کے لئے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔
 
عمدہ عاطف بھائی۔۔۔
ایک بات ہے۔۔۔ ایک فلم آئی مثال کے طور پر ابھی جو فلم آئی ہے عامر خان کی۔ وہ ہٹ ہوگئی۔۔ نام عامر خان کا ہوا۔۔۔ حالاں کہ اس کا اصل کریڈٹ اس ٹیکنیکل ٹیم کو جانا چاہیے جس نے فلم کو اس شکل میں ڈھالا۔۔۔ ان کو کوئی نہیں جانتا۔۔۔
اب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عام عوام بہت اچھی ہے۔۔۔
مگر دنیا جانتی ان کمینوں کو ہے جو سیاست کررہے ہیں ، جو حکمران ہیں یا جو میڈیا پر ہیں۔۔ عام آدمی کو کون جانتا ہے بھلا؟
 
1.jpg
 

عاطف بٹ

محفلین
عمدہ عاطف بھائی۔۔۔
ایک بات ہے۔۔۔ ایک فلم آئی مثال کے طور پر ابھی جو فلم آئی ہے عامر خان کی۔ وہ ہٹ ہوگئی۔۔ نام عامر خان کا ہوا۔۔۔ حالاں کہ اس کا اصل کریڈٹ اس ٹیکنیکل ٹیم کو جانا چاہیے جس نے فلم کو اس شکل میں ڈھالا۔۔۔ ان کو کوئی نہیں جانتا۔۔۔
اب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عام عوام بہت اچھی ہے۔۔۔
مگر دنیا جانتی ان کمینوں کو ہے جو سیاست کررہے ہیں ، جو حکمران ہیں یا جو میڈیا پر ہیں۔۔ عام آدمی کو کون جانتا ہے بھلا؟
جی بالکل درست کہا آپ نے انیس بھائی۔
اور بےحد شکریہ کہ آپ نے بلاگ سے لے کر تصویر یہاں شیئر کردی۔ :)
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت خوب!
ایک دھاگہ ہونا چاہیے جس میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات شئیر کیے جائیں۔ :)
بہت شکریہ عثمان بھائی
جی بالکل ایسا ہونا چاہئے کہ اس طرح کے مثبت واقعات کو شیئر کیا جائے تاکہ اچھی باتوں کی بھی تشہیر ہوسکے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر ہے۔

عوام میں جذبہ ہمدردی بہت ہے، وہ ایک دوسرےکی مدد بھی کرنا چاہتےہیں لیکن کچھ کالی بھیڑوں کی وجہ سے مدد کرنے سے کتراتے بھی ہیں۔

مثلاً کسی حادثے کی صورت میں پولیس کے گواہ نہیں بننا چاہتے کہ بہت خواری ہو گی، کسی کو راہ جاتے لفٹ دے دی اور اسی نے راستے میں چاقو یا پستول دکھا کر لوٹ لیا۔ ایسے میں آ بیل مجھے مار والی صورتحال ہو جاتی ہے۔ اور بندہ اگلی دفعہ کسی کی مدد کرنے سے کتراتا ہے۔
 
بھیا آپ کا کام اور آپ کی تحریر دونوں دل کو چھوُ لینے والا ہے ۔۔۔۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
میری جانب سے ڈھیر ساری مبارکباد قبول کیجئے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت خوبصورت تحریر ہے۔

عوام میں جذبہ ہمدردی بہت ہے، وہ ایک دوسرےکی مدد بھی کرنا چاہتےہیں لیکن کچھ کالی بھیڑوں کی وجہ سے مدد کرنے سے کتراتے بھی ہیں۔

مثلاً کسی حادثے کی صورت میں پولیس کے گواہ نہیں بننا چاہتے کہ بہت خواری ہو گی، کسی کو راہ جاتے لفٹ دے دی اور اسی نے راستے میں چاقو یا پستول دکھا کر لوٹ لیا۔ ایسے میں آ بیل مجھے مار والی صورتحال ہو جاتی ہے۔ اور بندہ اگلی دفعہ کسی کی مدد کرنے سے کتراتا ہے۔
بہت شکریہ شمشاد بھائی
بالکل درست کہا آپ نے۔ لوگوں کی ایک خاص تعداد ڈرتے ہوئے بھی مدد نہیں کرتی کسی کی۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
بہت خوبصورت اور شاندار تحریر۔۔۔ ان احساسات اور جذبات سے بخوبی واقف ہوں کہ ہمارے یہاں ابھی انسانیت باقی ہے۔
اللہ آپ کو اس احسن عمل کی جزائےخیردے۔اور ہم سب کو ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنےکی توفیق دے۔آمین
 

نایاب

لائبریرین
دل کو چھوتے احساس کے دیئے جلاتی اک خوبصورت تحریر
عوامی سطح پر ابھی بھی کہیں کہیں انسانیت کے روشن چراغ دکھ جاتے ہیں ۔
جو کہ نام و نمود و نمائیش سے دور انسانوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ۔۔
اک اچھی تحریر پر بہت دعائیں
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت خوبصورت اور شاندار تحریر۔۔۔ ان احساسات اور جذبات سے بخوبی واقف ہوں کہ ہمارے یہاں ابھی انسانیت باقی ہے۔
اللہ آپ کو اس احسن عمل کی جزائےخیردے۔اور ہم سب کو ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنےکی توفیق دے۔آمین
بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیراً
 

عاطف بٹ

محفلین
دل کو چھوتے احساس کے دیئے جلاتی اک خوبصورت تحریر
عوامی سطح پر ابھی بھی کہیں کہیں انسانیت کے روشن چراغ دکھ جاتے ہیں ۔
جو کہ نام و نمود و نمائیش سے دور انسانوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ۔۔
اک اچھی تحریر پر بہت دعائیں
بہت شکریہ نایاب بھائی
جی بالکل ایسا ہی ہے کہ عام آدمیوں میں انسانیت کے چراغ روشن ہیں مگر جنہیں دولت اور عہدوں کی ہوس نے اندھا کردیا ہے ان کے اردگرد اندھیرا پھیلا ہوا ہے اور وہ خود بھی اندھیروں کے ہی سوداگر ہیں۔
 
Top