نوید ناظم
محفلین
آج اگر انسان سے پوچھا جائے شعور چاہیے کہ دولت تو کہے گا دولت' یوں کسی سے پوچھو کہ عافیت چاہیے یا شہرت' تو کہے گا شہرت. اصل میں آج کے انسان کے لیے مشکل ترین کام اپنے اصل کی طرف رجوع کرنا ہے. یہ اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے' بھلے دل خالی رہے. یہ نام چاہتا ہے' بھلے بدنامی ہو. سرمائے کی محبت نے انسان کو محبت کے سرمائے سے غافل کر دیا' اسے یہ بات بھول گئی کہ وہ بندہ جو گمنام ہو اُس آدمی سے بہتر ہے جو مشہورتو ہو' مگرعذاب میں ہو' اسے یاد نہ رہا کہ وہ غریب خوش قسمت ہے جس کی عاقبت محفوظ ہو' اور وہ دولت جس سے عاقبت مخدوش ہو جائے' وہ بد نصیبی کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے. انسان بغیر کسی مقصد کے زندگی نہیں گزار سکتا اور وہ آدمی جس کا مقصد صرف پیسہ کمانا اور اپنا آپ منوانا ہو' وہ لازمی طور پر ڈیپریشن کا شکار ہو جائے گا. اللہ نے کہا کہ انسان کو سکون اللہ کے ذکر سے ملے گا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بندہ اس کائنات کے ساتھ خالق کو مدِ نظر رکھ کر ہم آہنگ ہو جائے. انسان دیکھے کہ صبح سورج کیسے نکلتا ہے' رات کو تارے کیسے چمکتے ہیں' باغوں میں پھول کیسے کِھلتے ہیں' پہاڑوں سے دریا کیسے نکلتے ہیں...مقصد یہ کہ آدمی فطرت کے قریب ہو جائے تا کہ فاطر کے قریب ہو سکے. آج ہم ٹکنالوجی کا شکار ہو چکے ہیں، مشینوں سے پیسہ کماتے ہوئے ہم خود بھی پیسہ کمانے والی مشین بن چکے۔۔۔۔ ہم ہر چیز خریدنا چاہتے ہیں' مگر بھول جاتے ہیں کہ دولت سے ہم سکون نہیں خرید سکتے' محبت نہیں خرید سکتے' اپنی مرضی کا چہرہ نہیں خرید سکتے اور سب سے بڑھ کر خوبصورت دل نہیں خرید سکتے۔۔۔ اس سے انسان صرف خوش ہو سکتا ہے یاد کرکر کے' یہ کہ اس کے بینک اکاونٹ میں کتنا پیسہ پڑا ہے۔۔۔ اس کی گنتی بڑھ رہی ہے اور زندگی کم ہو رہی ہے۔ اپنی سانسیں بھی انسان کی اپنی نہیں ہیں اور یہ ساری دنیا کی ملکیت چاہتا ہے۔ یہی وقت ٹھہر کر سوچنے کا وقت ہے' فیصلے کا وقت ہے کہ زندگی کو کس طرح گزارنا ہے۔۔۔۔۔ کیا اس زندگی میں ایثار' محبت' لطف' برداشت' صبر اور شکر بھی ہونا چاہیے یا صرف تیز رفتار ہونا کافی ہے۔۔۔۔۔۔ اس طرح کی تیز رفتاری کہ جیسے کسی نے چابی بھر کر چھوڑ دیا ہو' اور یہ احساس بھی نہ ہو کہ رفتار اندر سے ختم ہو رہی ہے!