ذرا ہٹ کے لکھنے کی ایک کوشش اصلاح، تنقید اور آراء کے لیے،''وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت گزرنا''

وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت گزرنا
حسینوں کے گھونگھٹ، قیامت گزرنا
شمامہ کی چلمن پہ بھی جان دینا
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت گزرنا
دکھاوے کا غصہ، مری جان جاں کا
وہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت گزرنا
بزرگوں کا آنا تو لڑتی سی آنکھیں
جدا ہونا جھٹ پٹ، قیامت گزرنا
پلندا سا جھوٹوں کا سنبھال رکھتے
وہ گاوں کے کھیوٹ، قیامت گزرنا
وہ کھاتوں کے چکمے، وہ معصوم ہاری
نہ جانیں جو جھنجھٹ، قیامت گزرنا
جہاں ماسیوں نے سجانا ہو محفل
وہاں عام کھٹ پٹ، قیامت گزرنا
مقابر وہیں تھے، بڑا خوف آنا
وہیں پہ تھا مرگھٹ، قیامت گزرنا
ہمیں اک تھے چپ چاپ گاوں میں اظہر
مگر لوگ منہ پھٹ، قیامت گزرنا
 

الف عین

لائبریرین
یہ کیا محاورہ ہے ’قیامت گزرنا‘۔ میری سمجھ میں تو نہیں آیا، اور اکثر مصرعے بھی میرے لئے نا قابل تفہیم ہیں۔
 
یہ کیا محاورہ ہے ’قیامت گزرنا‘۔ میری سمجھ میں تو نہیں آیا، اور اکثر مصرعے بھی میرے لئے نا قابل تفہیم ہیں۔
اُستاد محترم
فیروزالغات میں قیامت گزرنا کے معنی ہیں ۔۔۔ مصیبت کا سامنا ہونا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ آفت آنا
 
ذرا ہٹ کے لکھنے کی ایک کوشش

اس میں شعری معمول سے ہٹ کر کیا چیز ہے؟ ہاں قافیہ کسی قدر تنگ ہے، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
اچھی بات ہے کہ شاعر نے اس کو نبھایا ہے اور ابلاغ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، مضامین کا انتخاب بہر حال شاعر کا اپنا ہے۔
 
’’قیامت گزرنا‘‘ : صاحبِ کلام کے بتائے ہوئے معانی درست ہیں۔
علاوہ ازیں ’’قیامت گزرنا‘‘ جذباتی اور ذہنی اتھل پتھل کی کیفیت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، جیسے زیرِ نظر اشعار میں ہے۔
 
اس میں شعری معمول سے ہٹ کر کیا چیز ہے؟ ہاں قافیہ کسی قدر تنگ ہے، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
اچھی بات ہے کہ شاعر نے اس کو نبھایا ہے اور ابلاغ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، مضامین کا انتخاب بہر حال شاعر کا اپنا ہے۔
محترم اُستاد
میرا اشارہ مضامین کی طرف ہی تھا کہ یہ کھتونی اور کھیوٹ وغیرہ کہیں غزل کا حصہ شائد اپنی کم علمی کی وجہ سے نہ دیکھ پایا۔ اور دو کلو خون بڑھانے کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں :lol:
 
’’قیامت گزرنا‘‘ : صاحبِ کلام کے بتائے ہوئے معانی درست ہیں۔
علاوہ ازیں ’’قیامت گزرنا‘‘ جذباتی اور ذہنی اتھل پتھل کی کیفیت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، جیسے زیرِ نظر اشعار میں ہے۔
بجا فرمایا جناب، میں نے بھی انہی معنٰی میں استعمال کیا ہے
 
میرا اشارہ مضامین کی طرف ہی تھا کہ یہ کھتونی اور کھیوٹ وغیرہ کہیں غزل کا حصہ شائد اپنی کم علمی کی وجہ سے نہ دیکھ پایا۔​

غزل کے مزاج اور دیگر عناصر کا پاس کرتے ہوئے بات کی جائے تو یہاں کوئی مضمون بھی اجنبی نہیں ہوتا۔

جب آپ غزل میں مزاح کا عنصر لاتے ہیں تو کچھ مزید ’’رعایات بھی اپنا لیتے ہیں‘‘ اور ایسے میں کھتونی کھیوٹ اور پٹوار کی دیگر اصطلاحات کا جواز بھی بن جاتا ہے بہ شرطے کہ آپ یا آپ کا قاری ابہام میں نہ پڑ جائے۔

بات ساری اظہار اور سلیقے کی ہے، میدان بہت وسیع ہے۔

جناب محمد اظہر نذیر صاحب۔
 
غزل کے مزاج اور دیگر عناصر کا پاس کرتے ہوئے بات کی جائے تو یہاں کوئی مضمون بھی اجنبی نہیں ہوتا۔

جب آپ غزل میں مزاح کا عنصر لاتے ہیں تو کچھ مزید ’’رعایات بھی اپنا لیتے ہیں‘‘ اور ایسے میں کھتونی کھیوٹ اور پٹوار کی دیگر اصطلاحات کا جواز بھی بن جاتا ہے بہ شرطے کہ آپ یا آپ کا قاری ابہام میں نہ پڑ جائے۔

بات ساری اظہار اور سلیقے کی ہے، میدان بہت وسیع ہے۔

جناب محمد اظہر نذیر صاحب۔
آپ کا ٹخلیق سے متفق ہو جانا ہی باعث فخر ہے جناب ، قاری انشااللہ سمجھ ہی جائیں گے ، آپ سے ایک غزل پر اور رائے کی عاجزانہ درخواست ہے ابھی پوسٹ کرتا ہوں کہ اُس پر بہت مختلف آراء ملی ہیں ۔ ہند سے جناب محترم رفیق راز صاحب ردیف نبھ جانے کا بتا رہے جبکہ پاکستان سے محترم رحمان حفیظ صاحب کو اعتراضات ہیں ۔ اُستاد محترم الف عین صاحب سے بھی درخواست ہو گی کہ رہ نُمائی فرمائیں


بھلائی جان کے بھر دو ایاغ ، دھیرے سے
ملے گا کچھ تو لبوں کو فراغ، دھیرے سے

جو کی تھی دفن محبت وہ کھوجنی ہے مجھے
کرید ڈالا ہے اب دل کا داغ ، دھیرے سے

ذرا سی نیند ملی ہے، الم کی بانہوں میں
بجھانا چاہو بجھا دو چراغ، دھیرے سے

کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے
ملے گا اُن کا مگر اب سُراغ، دھیرے سے

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے​
 
بلا تمہید ۔۔۔
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے​
ملے گا اُن کا مگر اب سُراغ، دھیرے سے

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے

یہاں آپ کا مقصود ہے: آہستہ آہستہ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ہولے ہولے (جہاں تسلسل کا عنصر یا تاثر ہو)۔ ’’دھیرے سے‘‘ کا یہ مفہوم نہیں ہوتا، وہ ہوتا ہے: آہستگی سے، نرمی سے، وغیرہ (اس میں تسلسل کا عنصر نہیں ہوتا)۔ تسلسل کا عنصر ’’دھیرے دھیرے‘‘ میں ملتا ہے۔

رحمان حفیظ صاحب بہت باریک ناقدانہ نظر رکھتے ہیں، میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے اس سے ملتی جلتی کوئی بات کی ہو گی۔

جو کی تھی دفن محبت وہ کھوجنی ہے مجھے
کرید ڈالا ہے اب دل کا داغ ، دھیرے سے

دل کا داغ کرید ڈالنا: اس کی معنویت کے ساتھ نرمی یا آہستگی کا جوڑ نہیں بنتا۔

مطلع میں اور چراغ بجھا دینے والے شعر میں ’’دھیرے سے‘‘ میرے لئے تو قابلِ قبول ہے۔ جناب الف عین بہرحال کہیں بہتر تنقیدی شعور رکھتے ہیں۔ میں تو زیادہ تر تاثراتی سطح پر بات کیا کرتا ہوں؛ دیگر عناصر پر کم کم۔

اعتماد کے لئے ممنون ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اصل غزل کی طرف واپس آتا ہوں
قیامت گزرنا کے معنوں سے واقف ہوں میں بھی۔ لیکن جس طرح اس کا استعمال کیا گیا ہے، اس سے یہ بہت بعید ہے۔
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت گزرنا​
حسینوں کے گھونگھٹ، قیامت گزرنا​
اگر محض ’قیامت قیامت‘ ردیف ہوتی تو قابل قبول تھا۔ لیکن قیامت گزرنا فعل ہے، اس کی تشبیہ بھی دی جائے تو کسی فعل کو ہی دی جا سکتی ہے، اسی لئے کہا تھا کہ ‘قیامت قیامت‘ ردیف ممکن ہے۔ اس پوری غزل پر نظر ثانی کرو۔ میرا مشورہ تو اب بھی وہی ہے۔​
 
اصل غزل کی طرف واپس آتا ہوں
قیامت گزرنا کے معنوں سے واقف ہوں میں بھی۔ لیکن جس طرح اس کا استعمال کیا گیا ہے، اس سے یہ بہت بعید ہے۔
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت گزرنا​
حسینوں کے گھونگھٹ، قیامت گزرنا​
اگر محض ’قیامت قیامت‘ ردیف ہوتی تو قابل قبول تھا۔ لیکن قیامت گزرنا فعل ہے، اس کی تشبیہ بھی دی جائے تو کسی فعل کو ہی دی جا سکتی ہے، اسی لئے کہا تھا کہ ‘قیامت قیامت‘ ردیف ممکن ہے۔ اس پوری غزل پر نظر ثانی کرو۔ میرا مشورہ تو اب بھی وہی ہے۔​
بہت بہتر جناب
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت قیامت
حسینوں کے گھونگھٹ، قیامت قیامت
شمامہ کی چلمن پہ بھی جان دینا
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت
دکھاوے کا غصہ، مری جان جاں کا
وہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت
بزرگوں کا آنا تو لڑتی سی آنکھیں
جدا ہونا جھٹ پٹ، قیامت قیامت
پلندا سا جھوٹوں کا سنبھال رکھتے
وہ گاوں کے کھیوٹ، قیامت قیامت
وہ کھاتوں کے چکمے، وہ معصوم ہاری
نہ جانیں جو جھنجھٹ، قیامت قیامت
جہاں ماسیوں نے سجانی ہو محفل
وہاں عام کھٹ پٹ، قیامت قیامت
مقابر وہیں تھے، بڑا خوف آنا
وہیں پہ تھا مرگھٹ، قیامت قیامت
ہمیں اک تھے چپ چاپ گاوں میں اظہر
مگر لوگ منہ پھٹ، قیامت قیامت
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب بہتر لگ رہی ہے، دوسرے احباب نے اس سلسلے میں رائے نہیں دی!!!

پوری غزل کا بیانیہ دوسرے مصرع سے مطابقت ہو تو مزید بہتر ہو جائے۔ کچھ مشورے:
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت قیامت
حسینوں کے گھونگھٹ ، قیامت قیامت
//درست
شمامہ کی چلمن پہ بھی جان دینا
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت
// اس کا پہلا مصرع تجویز کر رہا ہوں
شمامہ کی چلمن، ارے توبہ توبہ
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت

دکھاوے کا غصہ، مری جان جاں کا
وہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت
//پہلے مصرع میں بھی ’وہ غصہ‘ آ سکے تو بہتر ہو۔ یا اس سے زیادہ ’یہ‘ ہو تو اور بھی بہتر ہو۔
مثلاً
یہ غصہ مری جاں، دکھاوا دکھاوا
یہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت

بزرگوں کا آنا تو لڑتی سی آنکھیں
جدا ہونا جھٹ پٹ، قیامت قیامت
//روانی اور چستی کی سخت کمی ہے اس پہلے مصرع میں۔ اگر یوں ہو تو؟
بزرگوں کی آمد پہ آنکھوں میں غصہ/ ماتھے پہ چتون

پلندا سا جھوٹوں کا سنبھال رکھتے
وہ گاوں کے کھیوٹ، قیامت قیامت
//’سنبھال‘ میں نون معلنہ نہیں، اسے محض سبھال باندھا جاتا ہے۔ کھیوٹ لفظ سے میں واقف نہیں۔ ہندی میں ’کیوٹ ‘ تو ملاح کو کہتے ہیں۔ شعر سمجھ میں نہیں آیا، اس لئے کچھ تجویز نہیں۔

وہ کھاتوں کے چکمے، وہ معصوم ہاری
نہ جانیں جو جھنجھٹ، قیامت قیامت
//یہ شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

جہاں ماسیوں نے سجانی ہو محفل
وہاں عام کھٹ پٹ، قیامت قیامت
//’ماسیوں‘ بھی شاید کوئی محاورہ استعمال کیا ہے، لیکن کھٹ پٹ قیامت تو نہیں ہوتی؟

مقابر وہیں تھے، بڑا خوف آنا
وہیں پہ تھا مرگھٹ، قیامت قیامت
// بڑا خوف آنا‘ رواں نہیں۔ اگرچہ کچھ متبادل تجویز تو کیا جا سکتا ہے، لیکن معنوی طور سے کوئی خاص معانی تو نہیں ہیں۔
یہیں پر ہیں قبریں، خدایا خدایا
یہں پر ہے مرگھٹ

ہمیں اک تھے چپ چاپ گاوں میں اظہر
مگر لوگ منہ پھٹ، قیامت قیامت
//یہاں بھی ردیف کا استعمال زیادہ عمدہ نہیں۔ ’اک تھے‘ اور ’گاءوں‘ کا طویل کھنچنا روانی پر اثر انداز ہوتا ہے
یوں کیا جا سکتا ہے
ہمیں گاؤں میں کتنے چپ سے تھے اظہر
سبھی لوگ منہ پھٹ۔۔۔
مزید یہ کہ خدارا ڈفالٹ فانٹ استعمال کیا کرو۔
 
ہاں اب بہتر لگ رہی ہے، دوسرے احباب نے اس سلسلے میں رائے نہیں دی!!!

پوری غزل کا بیانیہ دوسرے مصرع سے مطابقت ہو تو مزید بہتر ہو جائے۔ کچھ مشورے:
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت قیامت
حسینوں کے گھونگھٹ ، قیامت قیامت
//درست
شمامہ کی چلمن پہ بھی جان دینا
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت
// اس کا پہلا مصرع تجویز کر رہا ہوں
شمامہ کی چلمن، ارے توبہ توبہ
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت

دکھاوے کا غصہ، مری جان جاں کا
وہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت
//پہلے مصرع میں بھی ’وہ غصہ‘ آ سکے تو بہتر ہو۔ یا اس سے زیادہ ’یہ‘ ہو تو اور بھی بہتر ہو۔
مثلاً
یہ غصہ مری جاں، دکھاوا دکھاوا
یہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت

بزرگوں کا آنا تو لڑتی سی آنکھیں
جدا ہونا جھٹ پٹ، قیامت قیامت
//روانی اور چستی کی سخت کمی ہے اس پہلے مصرع میں۔ اگر یوں ہو تو؟
بزرگوں کی آمد پہ آنکھوں میں غصہ/ ماتھے پہ چتون

پلندا سا جھوٹوں کا سنبھال رکھتے
وہ گاوں کے کھیوٹ، قیامت قیامت
//’سنبھال‘ میں نون معلنہ نہیں، اسے محض سبھال باندھا جاتا ہے۔ کھیوٹ لفظ سے میں واقف نہیں۔ ہندی میں ’کیوٹ ‘ تو ملاح کو کہتے ہیں۔ شعر سمجھ میں نہیں آیا، اس لئے کچھ تجویز نہیں۔

وہ کھاتوں کے چکمے، وہ معصوم ہاری
نہ جانیں جو جھنجھٹ، قیامت قیامت
//یہ شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

جہاں ماسیوں نے سجانی ہو محفل
وہاں عام کھٹ پٹ، قیامت قیامت
//’ماسیوں‘ بھی شاید کوئی محاورہ استعمال کیا ہے، لیکن کھٹ پٹ قیامت تو نہیں ہوتی؟

مقابر وہیں تھے، بڑا خوف آنا
وہیں پہ تھا مرگھٹ، قیامت قیامت
// بڑا خوف آنا‘ رواں نہیں۔ اگرچہ کچھ متبادل تجویز تو کیا جا سکتا ہے، لیکن معنوی طور سے کوئی خاص معانی تو نہیں ہیں۔
یہیں پر ہیں قبریں، خدایا خدایا
یہں پر ہے مرگھٹ

ہمیں اک تھے چپ چاپ گاوں میں اظہر
مگر لوگ منہ پھٹ، قیامت قیامت
//یہاں بھی ردیف کا استعمال زیادہ عمدہ نہیں۔ ’اک تھے‘ اور ’گاءوں‘ کا طویل کھنچنا روانی پر اثر انداز ہوتا ہے
یوں کیا جا سکتا ہے
ہمیں گاؤں میں کتنے چپ سے تھے اظہر
سبھی لوگ منہ پھٹ۔۔۔
مزید یہ کہ خدارا ڈفالٹ فانٹ استعمال کیا کرو۔

جی یوں دیکھ لیجیے
وہ پنگھٹ پہ جھرمٹ، قیامت قیامت
حسینوں کے گھونگھٹ، قیامت قیامت
شمامہ کی چلمن ارے توبہ توبہ
نصیبو کی چوکھٹ، قیامت قیامت
یہ غصہ مری جاں دکھاوا دکھاوا
وہ ماتھے کی سلوٹ، قیامت قیامت
بزرگوں کا آنا وہ ماتھے کی چتون
جدا ہونا جھٹ پٹ، قیامت قیامت
زمینون پہ قبضے، اماں ہو اماں ہو
عدالت کے جھنجھٹ، قیامت قیامت
جہاں عورتوں نے سجائی ہو محفل
کہاں ویسی کھٹ پٹ، قیامت قیامت
یہیں پر ہیں قبریں، خدایا خدایا
یہیں پر ہے مرگھٹ، قیامت قیامت
ہمیں گاوں میں کتنے چپ سے تھے اظہر
سبھی لوگ منہ پھٹ، قیامت قیامت
 
Top