ذوقِ آگہی دے یا مجھے جنوں عطا کردے
مجھ کو مجھ میں رہنےدے یا جدا کردے
ہم اپنی راہ پہ چل تو پڑے ہیں مگر
اٹ گئے غبار میں اب کوئی معجزہ کردے
اک لمحہ کی تاخیر کی تھی میں نے اک دن
اُس لمحے کو تُو عمر بھر کی سزا کردے
تاریکی میں دیکھا نہیں طوفاں کو میں نے
خدا ساتھ نہیں تو کوئی ناخدا کردے
تمام عمر سرابیوں کو ترسا ہوں میں ظفر
برق رہی نصیب میں اب گھٹا کردے